ہنگامہ سا ہے کیوں برپا!
حاکم وقت نے کہا
احتساب ہوگا
ایسا احتساب
جس کے ضابطے
میں خود بناؤں گا
’’نیب معصوم لوگوں کو خوفزدہ کررہی ہے۔ حکومتی مشینری کے اہل کاروں کو ہراساں کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے وہ اہم فیصلے کرنے سے گریزاں ہیں۔ احتسابی ادارہ ہمارے تحفظات کو دور کرے، ورنہ اس کے پرکاٹ دیئے جائیں گے‘‘۔ یہ انتباہ وزیر اعظم کی جانب سے نیب کو دیا گیا ہے۔۔۔ وہ کون سے معصوم لوگ ہیں جو نیب کی باز پرس سے خوفزدہ ہیں۔ ایوانِ اقتدار میں براجمان طاقت ورسیاستدان یا ان کی معاون بیورو کریسی؟ اس ملک میں لوگ خدا سے نہیں ڈرتے، نیب سے کیا ڈریں گے۔ یہ ایک حتسابی ادارہ ہے، جس کی تشکیل پرویز مشرف کے دور میں ایک آرڈی ننس کے ذریعے عمل میں آئی۔ دستور پاکستان کے مطابق اس کے سربراہ کا تعین حزبِ اقتدار اورحزبِ مخالف اتفاق رائے سے کرتی ہیں۔ اس کی تعیناتی چار سال کے لئے کی جاتی ہے اوریہ وزیر اعظم کوجوابدہ نہیں ہوتا۔ قانون کے مطابق ایک طے شدہ طریق کار ہے جس کے تحت ملزم کے خلاف تفتیش کی جاتی ہے۔ حکومتی ریفرنس دائر کرنے کے بعد احتساب عدالتیں سزا وجزا کا اختیار رکھتی ہیں۔ خواہ مخواہ معاملات کو الجھا کر غیر یقینی کی صورت حال پیدا کی جارہی ہے۔
اصل معاملہ یہ ہے کہ پرویز مشرف کے دور میں مسلم لیگ (ن)کے خلاف بدعنواتی کے کیس بنائے گئے جو ابھی تک زیر التواء ہیں۔ قانون کے مطابق بدعنوان عناصر کے خلاف تفتیش کرنا نیب کے حکام کے فرائض منصبی میں شامل ہے، البتہ حکومت کے پاس قانون کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کا اختیار موجود ہے۔ قومی اسمبلی میں ان کی پارٹی کو اکثریت حاصل ہے۔ وہ پہلے ہی نیب اور ایف آئی اے کی کارکردگی سے پریشان ہیں۔ ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری اور تفتیش پرسابق صدر آصف علی زرداری سیخ پا ہیں، کیونکہ معاملے کی چھان بین کے نتیجے میں چند پردہ نشستوں کے بھی نام آئے ہیں،لہٰذا دونوں پارٹیوں کے گٹھ جوڑ سے دونوں ایوانوں سے نیب کے پر کاٹنے کی منظوری لی جاسکتی ہے۔ اس طرح سندھ میں پیپلز پارٹی کے لئے میدان صاف ہوجائے گا اورپنجاب میں مسلم لیگ(ن) کے لئے آسانیاں بہم ہوں گی۔ وفاق میں تو پہلے ہی دونوں پارٹیاں امن برائے بقائے باہمی کے اصولوں پر عمل پیرا ہیں۔
ادھر عمران خاں نے اعلان کیا ہے کہ وزیر اعظم اوراپوزیشن کے مقدمے نیب میں زیر التوا ہیں اوروہ نیب کے پر کاٹنے کی بھر پور مزاحمت کریں گے، لیکن موجودہ حالات وواقعات کی روشنی میں ایسا لگتا ہے کہ حکومت نیب قوانین میں اصلاحات کرنے کا تہیہ کرچکی ہے اوروہ اس مسئلے میں حزب اختلاف کے تعاون کی متمنی ہے۔ عمران خان کی آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز سے زیادہ سنائی نہیں دے گی۔ عوام پہلے ہی احمقوں کی جنت میں رہ رہے ہیں۔ انہیں روٹی سے فرصت ملے گی تو بات کریں گے۔ ایم کیو ایم والے اندرونی خلفشار اوربیرونی دباؤ کا شکار ہیں۔ وہ اپنی بقا ء کی جنگ لڑنے میں مصروف ہیں، لہٰذا ان کی طرف سے بھی کوئی خطرہ نظر نہیں آتا۔۔۔ ہم آپ کو کچھ نہیں کہتے آپ ہمیں نہ چھیڑیں۔۔۔ لہٰذا دونوں بڑی پارٹیوں کے آپس میں مک مکا میں ہی عافیت ہے۔نیب کے موجودہ چیئرمین جناب قمر زمان چودھری سابقہ سیکرٹری داخلہ دیا نتدار بیوروکریٹ ہیں، وہ متوازن شخصیت کے حامل ہیں اور ان کا ماضی اور حال شفاف ہے۔ انہوں نے نہ مس کنڈکٹ (Misconduct) کا ارتکاب کیا ہے اورنہ ہی اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے۔انہیں ان کے عہدے سے ہٹانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ان کے خلاف الزامات لگا کر سپریم جوڈیشل کونسل سے رجوع کیا جائے۔ حکومت یہ راستہ کبھی اختیار نہیں کرے گی۔ قانون اور قاعدے کے مطابق وہ 10اکتوبر 2017ء تک اپنی مدت ملازمت پوری کرنے کے بعد فارغ ہوں گے۔
نیب کے چیئر مین نے وزیر اعظم کے بیان پر محتاط رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں بہت سارے ورثہ میں ملے مسائل کا سامنا ہے ،جنہیں وزیراعظم کی سفارشات کی روشنی میں حل کریں گے۔دوسری جانب انہوں نے پنجاب بیورو کے ڈائریکڑ جنرل سے حال ہی میں ملاقات کی۔ سید برہان شاہ ڈی جی پنجاب نے چیئرمین کو رانا مشہود اورپیپلز پارٹی کے آصف ہاشمی کے خلاف تفتیش کے بارے آگاہ کیا، جس پر ان کی کارکردگی کو سراہا گیا۔ انہیں ہدایت کی گئی کہ وہ بلا خوف بدعنوان عناصر کے خلاف تحقیقات مکمل کریں۔ چیئرمین کے تیور بتارہے ہیں کہ 2016ء نیب کاسال ہوگا۔نیب کی کارروائی میں موجودہ سرعت سپریم کورٹ کی ہدایات کی وجہ سے آئی ہے۔ دونوں ادارے دستور کے مطابق اپنے اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔۔۔احتساب کے عمل کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنا اوربدعنوان عناصر کی پشت پناہی کرنا ہمارے سیاستدانوں کا وتیرہ رہا ہے۔ ماضی میں ان اداروں کو مخالفین کے خلاف استعمال کیا جاتا رہا ہے اوراب پارٹی کے کرپٹ لوگوں کو تحفظ دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کرپشن کا ناسور ہماری سیاست میں بھی داخل ہوچکا ہے۔ لوگوں کوان کے منتخب نمائندے ہی غربت کی اتھاہ گہرائیوں کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ ہر روز نت نئی کہانیاں منظر عام پر آرہی ہیں۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہو کر انکشاف کیا کہ پاکستانیوں کا 200بلین روپیہ سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں پڑا ہے۔ قومی خزانے سے لوٹی ہوئی اس دولت کے مالک کون ہیں۔۔۔ سیاستدان اوربیوروکریٹ؟۔۔۔ اسحاق ڈار سے پوچھا جائے کہ آپ نے اس قومی دولت کو واپس لانے کے لئے کیا اقدامات کئے ہیں؟ مسلم لیگ (ن) کو تیسری بار حکومت کرنے کا موقع ملا ہے۔ سوئس حکومت نے تو قانون سازی کرکے اس کالے دھن کو متعلقہ حکومتوں کو واپس کرنے کی کوشش کی ہے۔ مگرہم ابھی تک سورہے ہیں۔ گزشتہ حکومتیں منی لانڈرنگ میں معاون رہی ہیں اوراب بھی ناجائز ذرائع سے کمائی ہوئی دولت کو قانونی تحفظ حاصل ہے۔ اقوام متحدہ کے کہنے پر ہم نے منی لانڈرنگ کے قوانین میں ترامیم تو کردیں، مگر ان پر عمل درآمد ابھی دور کی بات ہے۔ عرب امارات، برطانیہ، امریکہ، فرانس،سپین اوردیگر ممالک میں قیمتی جائیدادیں خریدنے والے پاکستان کی تعمیر وترقی کے بارے کیا کریں گے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ناجائز ذرائع سے دولت اکٹھی کرکے بیرونی ممالک میں اس لئے سرمایہ کاری کرتے ہیں کہ وہاں ان کا پیسہ محفوظ ہے۔
احتساب کا عمل انداز فکر کی تبدیلی سے ہی ممکن ہے۔ یہ کلچر ہے ،جس میں شخصیات سے زیادہ اہم ادارے ہوتے ہیں۔ادارے مضبوظ ہوں گے تو کسی شخص کو امانت میں خیانت کرنے کی جرات نہیں ہوگی۔ یہ کار خبرفرد سے شروع ہوتا ہے اورسوسائٹی کی ہر سطح تک پہنچتا ہے۔ ایک خاندان کا سربراہ اپنے کنبے کا کفیل ہونے کے ساتھ محتسب بھی ہے۔ اسی طرح ایک پارٹی کا سربراہ یا حکومت کا سربراہ اپنے متعلقہ لوگوں کے برے بھلے کا ذمہ دار ہے۔ وہ عوام کے سامنے جوابدہ ہے۔ دولت کی غیر مساوی تقسیم کی ایک بڑی وجہ بد عنوانی سے کمائی ہوئی دولت ہے جو چند ہاتھوں میں مرکوز ہو چکی ہے۔ یہ وہ دولت ہے ،جس پر معاشرے کے کمزور افراد کاحق ہے۔ کرپشن کا تدارک صرف بے رحم احتساب سے ہی ممکن ہے۔ اس کے خلاف ارباب اختیار کی برہمی مناسب نہیں ہے:
جن معاشروں میں سب چلتا ہے
وہ معاشرے کم ہی چلتے ہیں