احتساب، احتساب، احتساب

احتساب، احتساب، احتساب
 احتساب، احتساب، احتساب

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

جب قومی احتساب بیورو آزاد ، صاف ، شفاف اور منصفانہ احتساب کی دہائی دے رہا ہے تو دل سے آواز نکلتی ہے کہ بھائی کون سا احتساب ،نہ کوئی جج اس کے دائرہ کار میں آتا ہے نہ ہی جنرل ، کیونکہ دونوں کا اپنا علیحدہ احتسابی نظام ہے ، بچ گئے سیاستدان اور افسر شاہی تو وہ حاضر ہیں جناب ، سیاست دان خاص طور پر الیکشن کمیشن کے ذریعے اپنی قابلیت ثابت کرتے ہیں اور بعد ازاں عوام کے ووٹ کے ذریعے اپنی اہلیت تا کہ وہ ایوان نمائندگان میں بیٹھ سکیں اپوزیشن حکومت کی کارکردگی کی کلاس لیتی ہے اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی مالی معاملات پر نظر رکھتی ہے وزیر اعظم ، اور وزرائے اعلی ، عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے کسوٹی سے نکلتے ہیں تو میڈیا اپنے چبھتے سوالوں ، سول سوسائٹی اپنی ہڑتالوں اور عدلیہ اپنے ازخود نوٹس سے ان کا استقبال کرتی ہے صدر وزیر اعظم اور وزائے اعلی کو کچھ استثنا حاصل ہونے کے باوجود کئی دفعہ عوامی نظر ثانی کی بجائے عدلیہ وزیر اعظم گیلانی کی طرح ووٹ کے بغیر بھی گھر بھیج ڈالتی ہے ایسے مخدوش حالات میں وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کا نیب سے قانونی دائرہ کار میں رہتے ہوئے کارروائی اور انصاف کے تقاضے پورے کرنے کا تقاضا کچھ بڑی بات نہیں ، نیب کا وزیر اعظم کے مفت مشورے پر کان دھرنے کی بجائے ترکی بہ ترکی جواب اور دس دن میں تمام ریفرنسنز پر کچی یا پکی کارروائی مکمل کرنے کی ہدایت حالات کی سنگینی کا پتہ دے رہی ہے۔


ہم ماضی قریب میں دیکھ چکے ہیں کہ احتساب کے نام پر آنے والے حکمران نیب کے ذریعے مسلم لیگ(ق) بناتے ہیں اور جاتے جاتے قومی مصالحتی آرڈیننس کے ذریعے چھ ہزار افراد کو انکے جرم پر معافی دے ڈالتے ہیں جنرل مشرف کے احتساب پر ان کے ہی احتساب کے سربراہان کے بیانات اور ا ن کے بارے میں کہانیاں احتساب کے نام پر اور ان کے سات نکاتی ایجنڈے پر کھلی چارج شیٹ ہیں جب احتسابی سربراہان ہی احتساب کے الزامات میں اٹے پڑے ہوں تو بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا اس سے پہلے اپریل1999ء میں وزیراعظم بینظیر بھٹو اور ان کے شوہر کے خلاف کرپشن پر سزا اور سپریم کورٹ کا 2001ء کا فیصلہ تاریخی ہے جس میں ججوں نے تعصب فائل کے اوپر تیرتا ہوا پایا اور سزا اور نااہلیت کالعدم قرار دے دی ، سزا دینے والا جج مشرف کے زمانے میں اٹارنی جنرل بنا اور سزاوار، 8سال ٹرائل کے بغیرسزا کاٹنے والا صدر پاکستان بنا نیب اس وقت کہاں تھی اب تک نامعلوم ہے سیاست دانوں نے اس سے سبق سیکھا اور چارٹر آف ڈیمو کریسی کے ذریعے احتساب کے عمل کو شفاف اور انتقام سے پاک کرنے کا عندیہ دیا ، یہ ان کی بالغ نظری کا ثبوت تھا۔


بینظیر کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تو انہوں نے پنجاب میں گورنر راج نافذ کیا اور شہباز شریف نے زرداری کو کرپشن کے پیسے وصول کرنے کے لئے سڑکوں پر گھسیٹنے کی بات کی میں اس کو سیاسی بیان سے زیادہ اہمیت اس لئے نہیں دیتا کہ دونوں جماعتوں نے جمہوری نظام کو ڈی ریل کرنے کے لئے ایسے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے اسلامی تاریخ خود احتسابی کی مثالوں سے بھری پڑی ہے لیکن ہم اسلامی تاریخ سے سبق حاصل کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں ، چین ، روس اور ویت نام نے کرپشن پر موت کی سزا ئیں دیکر اسے کنٹرول کیا ہے مغرب نے بھی عوامی پیسے میں خرد برد کو مضبوط نظام سے درست کیا ہے پاکستان اب بھی عدالتی اصلاحات اور قانون سدھارنے کی بجائے وقتی اقدامات سے گزارے پر مجبور ہے کیا موجودہ نیب انصاف پر مبنی شفاف ، غیر انتقامی احتساب کا واحد ادارہ ہے یا نہیں ، کیا اس کو استعمال کرنے والے یا اس نظام سے گزرنے والے اسکے طریقہ کار سے خوش ہیں اور کیا یہ واحد راستہ ہے جس سے قومی احتساب ممکن ہے اور اگر یہی واحد قومی ذریعہ ہے تو اس میں اگر وزیر اعظم شامل ہو سکتا ہے تو باقی مقدس گائیں کیوں نہیں۔


میرے خیال میں کوئی بھی ادارہ جب تک اپنے اوپر نظر ثانی اور کارکردگی کے آڈٹ سے نہ گزرے پتہ نہیں چلتا کہ اچھا ہے یا برا ، اب تو بیان بازی کے بعد ہر چیز سیاست کی بھینٹ چڑھے گی اور اپوزیشن تو اپنی پٹیشن الٹی کرنے پر تیار ہو گی جو اس نے چیئرمین نیب کے خلاف دی تھی ، صائب رائے یہی ہے کہ عام عوام کے لئے موجودہ عدالتوں ، پولیس ، تفتیش ، استغاثہ ، ٹرائل ، اور ٹرائل کے بعد سزا اور جزا کے نظام میں نیو کلیائی تبدیلیاں لائی جاتیں ، اگر عام آدمی کو انصاف ملے گا تو یہی سوچ میں تبدیلی واقع ہو گی ، بامقصد اور بامغز کارروائی ہی عوامی استحصال سے نجات کا واحد راستہ ہے نیب کے ذریعے احتساب ایک ایسا فریب نظر ہے جس سے آج تک سوئزر لینڈ سے ایک پیسہ واپس نہیں آیا اور جس کو ٹرائل کی بلی چڑھاتے رہے وہ بعد میں ہمارے حکمران بنے ، چارٹر آف ڈیمو کریسی بھی ماضی کے احتسابی نظام کے اوپر ، سچ کمیشن ،اور بعد ازاں ایک مکمل صاف اور شفاف احتساب کمیشن کی بات کرتی ہے اس کی شق ڈی 13ایک نیوٹرل احتساب کے ادارے کا ذکر کرتی ہے لیکن موجودہ نیب آرڈیننس بہت ساری تبدیلیوں کا متقاضی ہے۔


پاکستان میں تفتیش کے طریقہ کار کو استغاثہ سے علیحدہ کرنے کی ضرورت ہے اگر ریاستی ادارہ سٹیٹ پراسیکیوشن سروس پر تشکیل دے دیا جائے تو وہ کرپشن ، دہشت گردی اور سیریس کرائمز کی پیروی کرنے میں مدد دے گا جیسا کہ ریمنڈ ڈیوس ، این آر او ، ڈاکٹر عمران فاروق قتل ، اور پٹھان کوٹ جیسے واقعات میں ضروری ہے گواہان کی حفاظت اور ججز کی معقول تنخواہ اور مکمل حفاظت ، مالی اور زمینی حقائق پر مبنی بہت ضروری نیب کا ادارہ وزیر اعظم کے ماتحت ہی ہونا چاہیے لیکن اسکے انتظامی سربراہ کو آئینی گارنٹی موجود رہنی چاہیے جو باقی اسی طرح کے سربراہان کو مہیا ہیں ، جیسا کہ آڈیٹر جنرل اور وفاقی محتسب کو ہیں اگر نظام کو بہتر اور مضبوط بنایا جائے تو نیب جیسے ادارے کی ضرورت کم ہو جاتی ہے اگر پولیس آفیسر اپنا کام اچھی طرح کریں تو علیحدہ پولیس کے نظام کی ضرورت نہیں رہتی ، موٹر وے پولیس کی مثال سب کے سامنے ہے احتساب کو صاف اور شفاف بنانے کے لئے اس میں سے انتقام اور اختیار پر نظر ثانی رکھنا ہو گی چاہے وہ عدالتی نظرثانی ہو یا پارلیمانی ، نیب عدالت نہیں ہے اور جب تک وہ ایک آئینی احتسابی ادارہ ہے وہ وزیر اعظم کے انتظامی سیکشن کا حصہ ہونا چاہئے اور اس کے بنائے ہوئے کیس پر عدالتی ٹرائل اور فیصلہ ہی مناسب طریقہ کار ہے۔


اگر نیب کو جج اور جیوری کا اختیار دے دیا تو مادر پدر آزاد نیب جنرل مشرف جیسے حکمرانوں کا آلہ کار بننے میں دیر نہیں لگائے گا اور بعد میں احتساب سے ماورا مقدس گائے تو اپنی چھتری تلے پناہ لے لے گی اور این آر او کا اجرا کر کے یہ جا اور وہ جا ، پیچھے صرف پچھتاتا نیب یا ان کی بنائی مسلم لیگ (ق) بچے گی جو جگ ہنسائی کا باعث تو ہو سکتا ہے اسے کسی طرح بھی احتساب کا قابل عمل اعلی نمونہ نہیں کہا جا سکتا پاکستان ایک انتہائی نازک موڑ پر کھڑا ہے، وزیراعظم پاکستان معیشت کا پہیہ چلانے کی کوشش کر رہے ہیں ابھی معیشت مکمل طور پر کھڑی نہیں ہوئی سپہ سالار کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں ابھی دہشت گرد اور انتہا پسندی مکمل قابو نہیں آئی ، توانائی کا ابحران خاتمے کی طرف رواں دواں ہے ایران اور ترکمانستان میں کیا گیا تاپی معاہدہ اور قطر سے اس معاملے میں معاہدے شروع ہوئے ہیں مکمل نہیں ہوئے نیب کو اپنے ریفرنس مکمل کر کے عدالتوں کے سپرد کر کے اپنا کام کرنا چاہئے ان قومی معاملات پر وقت ضائع کر کے معاملات سے توجہ ہٹانے نہیں دینی چاہیے ہم کامیابی کی طرف گامزن ہیں مکمل کامیاب ابھی نہیں ہیں اصلاحالات بہت ضروری ہیں، لیکن سیاست دانوں کا مکمل احتساب عوامی عدالت میں ہی ممکن ہے یہ نہ ہو آواز کوئی اور دے دروازہ کوئی اور کھولے ، اور فائدہ تیسری قوت اٹھائے ، یہ وقت پھونک پھونک کر قدم اٹھانے کا ہے غلامی اور خود انحصاری میں کچھ ہی فاصلہ باقی ہے اور آخری فیصلہ عوام کا ہے ۔

مزید :

کالم -