نبیل گبولایم کیو یام کا پھیرا لگا کر پیپلز پارٹی میں واپس آگئے
تجزیہ : قدرت اللہ چودھری
پیپلز پارٹی میں آنے جانے کا سلسلہ شروع ہے، نبیل گبول واپس آگئے ہیں جو پیپلز پارٹی کو چھوڑ کر ایم کیو ایم میں چلے گئے تھے لیکن وہاں وہ زیادہ عرصہ خوش نہیں رہ سکے۔ یہاں تک کہ آخر میں انہیں کہنا پڑا کہ ایم کیو ایم میں انہیں جان کا خطرہ تھا۔ یہ سوال تو اپنی جگہ ہے کہ آخر انہیں ایک ایسی جماعت میں جانے کی کیا ضرورت پڑگئی تھی، جہاں ان کی جان خطرے میں تھی۔ خیر جانے کی مصلحت تو وہ خود ہی بہتر سمجھتے ہوں گے لیکن اب کچھ عرصے سے وہ ایم کیو ایم میں بھی نہیں تھے، دراصل اب متحدہ بھی وہ جماعت نہیں رہی جو پورے کراچی کے مینڈیٹ کی دعویدار تھی اور اس کے امیدوار لاکھوں کی لیڈ سے جیتا کرتے تھے۔ وجہ غالباً یہ تھی کہ پچیس تیس ہزار ووٹ تو وہ ’’گھر‘‘ سے لے کر چلتے تھے۔ اب اس جماعت کا بڑا حصہ جس میں ایم این اے، ایم پی اے، سینیٹرز اور منتخب بلدیاتی ارکان شامل ہیں، فاروق ستار کی قیادت میں کام کر رہا ہے۔ ان کا یہ دعویٰ ہے کہ اصل ایم کیو ایم وہی ہے جو اب ایم کیو ایم پاکستان کہلاتی ہے۔ دوسرا بڑا دھڑا پاک سرزمین پارٹی کی شکل میں کام کر رہا ہے۔ اس میں جن ارکان اسمبلی نے شمولیت اختیار کی، انہوں نے اپنی نشستیں چھوڑ دیں اور پھر ضمنی انتخاب میں حصہ بھی نہیں لیا، غالباً پاک سرزمین پارٹی ابھی الیکشن کی تیاری میں ہے اور اگلے عام انتخابات میں حصہ لے گی۔ پچھلے دنوں فاروق ستار اور مصطفی کمال کراچی یونیورسٹی کی ایک تقریب میں اکٹھے موجود تھے جہاں دونوں کا مصافحہ بڑی خبر بن گیا اور اس کی تصویر کو غیر معمولی پذیرائی ملی، حالانکہ سیاستدانوں کے اختلافات اپنی جگہ اور سیاسی مصلحتوں کے تقاضے بھی اپنے ہوتے ہیں، لیکن کسی سیاسی یا غیر سیاسی تقریب میں اگر دو رہنما موجود ہوں تو ان کا ایک دوسرے کا حال احوال معلوم کرلینا یا پھر مصافحہ کرلینا کوئی غیر معمولی بات تو نہیں، فاروق ستار اور مصطفی کمال دونوں ایم کیو ایم میں تھے۔ دونوں کو بلدیاتی اداروں کے ذریعے کراچی کی خدمت کا موقع ملا، ڈاکٹر فاروق ستار کراچی کے میئر رہے تو مصطفی کمال جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں کراچی کے ناظم تھے۔ ایک زمانے میں دونوں رہنماؤں کو ہم نے لاہور میں اکٹھے دیکھا، یہاں وہ ایم کیو ایم کا سیکٹر بنانے آئے تھے، بعض لوگوں نے جو سیاسی محاذ پر سرگرم بھی تھے ان کا ساتھ دینے کا اعلان کیا تو ایک تقریب میں یہ لطیفہ سننے میں آیا کہ پنجاب میں ایم کیو ایم نہیں چل پائے گی۔ وجہ یہ بتائی گئی کہ لوگ پارٹیاں چھوڑتے رہتے ہیں اور دوسری پارٹیوں میں آتے جاتے رہتے ہیں، جبکہ ایم کیو ایم کا نعرہ تھا ’’جو قائد کا غدار ہے وہ موت کا حق دار ہے‘‘ یہ صرف نعرہ ہی نہیں تھا بہت سے لوگوں پر اس کا عملی اطلاق بھی ہوا، جن لوگوں نے قائد سے اختلاف کیا انہیں اس اختلاف کی کڑی سزا ملی، لیکن اب وقت بدلا ہے تو مصطفی کمال نے بیرون ملک سے کراچی آکر جن خیالات کا اظہار کیا اور مسلسل کرتے چلے آرہے ہیں، اس پر ان سے کسی نے تعرض نہیں کیا،نہ کسی کی محبت جاگی بہت سے لوگ پاک سرزمین پارٹی میں چلے گئے، لیکن کسی کو اعتراض نہیں ہوا، خود ڈاکٹر فاروق ستار کو بھی لندن سے ناطہ توڑنا پڑا، تاہم ایک ایم کیو ایم لندن بھی کراچی میں کام کر رہی ہے جس کے لئے ہدایات تو بدستور لندن سے آتی ہیں اور وہ اپنے بانی کی محبت کا دعویٰ بھی کرتی ہے لیکن کراچی میں اس کا وجود کوئی زیادہ شدت سے محسوس نہیں ہوتا۔ ان کے علاوہ ایک مہاجر قومی موومنٹ آفاق احمد کی سربراہی میں بھی کام کر رہی ہے۔ اگلے الیکشن میں معلوم ہوگا کہ کون سی ایم کیو ایم مہاجروں کے نام پر ووٹ لینے میں کامیاب ہوتی ہے۔ ان حالات میں نبیل گبول واپس پیپلز پارٹی میں گئے ہیں تو دو سوال اہم ہیں، ایک تو یہ کہ انہیں دوبارہ لیاری سے الیکشن لڑنے کیلئے پیپلز پارٹی کا ٹکٹ ملنے کی امید ہوگی، اس لئے وہ واپس آئے ہیں، اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ شاید ابھی انتظار کرتے، کیونکہ وہ کافی عرصے سے ایم کیو ایم تو چھوڑ چکے تھے، البتہ کسی دوسری جماعت میں نہیں گئے تھے، دوسرا یہ امکان موجود ہے کہ ٹکٹ ملنے پر وہ لیاری سے جیت بھی سکتے ہیں پیپلز پارٹی کی رہنما حنا ربانی کھر کے بارے میں اطلاع ہے کہ وہ پیپلز پارٹی چھوڑ کر تحریک انصاف کا رخ کرنے والی ہیں، ابھی انہوں نے باقاعدہ طور پر اعلان نہیں کیا، تاہم امکان ہے کہ اپنے چچا غلام مصطفی کھر کے بعد وہ بھی تحریک انصاف میں جانے والی ہیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت میں وہ وزیر خارجہ رہیں، انہیں شاہ محمود قریشی کی جگہ وزارت خارجہ کا منصب سونپا گیا تو شاہ محمود قریشی ناراض ہوگئے، انہیں پارٹی نے اگرچہ دوسری وزارت دی تھی، لیکن شاہ محمود قریشی وزارت خارجہ کی محبت میں اس حد تک مبتلا ہوگئے تھے کہ کوئی دوسری وزارت ان کی آنکھوں میں جچی ہی نہیں، چنانچہ وہ پارٹی سے ناراض ہوکر تحریک انصاف میں چلے گئے اور اب تک وہیں ہیں، پچھلے دنوں ان کے بارے میں یہ اطلاع منظر عام پر آئی تھی کہ وہ تحریک انصاف چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں واپس چلے جائیں گے لیکن انہوں نے اس کی تردید کر دی، لیکن اب حنا ربانی کھر اگر تحریک انصاف میں شامل ہوتی ہیں تو تحریک انصاف میں سابق وزراء خارجہ کا اجتماع ہو جائے گا۔ شاہ محمود قریشی تو ہیں ہی، خورشید محمود قصوری بھی تحریک انصاف میں ہیں اور غالباً سردار آصف احمد علی بھی تحریک انصاف میں ہیں (اگر چھوڑ نہیں گئے) ایسے میں حنا ربانی کھر کی آمد سے چار سابق وزرائے خارجہ تو تحریک انصاف میں اکٹھے ہو جائیں گے اور اگر پارٹی کسی وقت برسر اقتدار آتی ہے تو وزیر خارجہ کی حد تک تو اسے کوئی مسئلہ نہیں ہوگا جیسا مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ہے، کیونکہ اپنے موجودہ دور حکومت میں اس نے وزیر خارجہ مقرر ہی نہیں کیا اور دو ٹیکنو کریٹس (سرتاج عزیز اور طارق فاطمی) سے ہی کام چلایا جا رہا ہے جو بالترتیب وزیراعظم کے مشیر اور معاون خصوصی برائے امور خارجہ ہیں، مخالف جماعتوں کو مسلم لیگ (ن) کی یہ ادا پسند نہیں آئی اور وہ وزیر خارجہ کے تقرر کا مطالبہ کرتی رہتی ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری نے جن چار نقاط پر حکومت کے خلاف باقاعدہ تحریک چلانے کا اعلان کر رکھا ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مستقل وزیر خارجہ مقرر کیا جائے۔ ازراہ تفنن یہ بھی کہا جاتا رہا ہے کہ اگر مسلم لیگ (ن) کے ارکان اسمبلی میں سے کوئی خارجہ امور کا ماہر نہیں تو پیپلز پارٹی سے ادھار لے لیا جائے۔ کہنے کو تو تحریک انصاف بھی یہ بات کہہ سکتی ہے لیکن اس نے ایسی فراخ دلانہ پیشکش کبھی نہیں کی۔ تحریک انصاف میں کئی ایسے رہنما ہیں جو پیپلز پارٹی چھوڑ کر تحریک انصاف میں گئے ہیں۔ پچھلے دنوں یہ مہم چلی تھی کہ پیپلز پارٹی ناراض ارکان کو واپس لائیگی، اب تک اس سلسلے میں کوئی سرگرمی دیکھنے میں نہیں آئی، ممکن ہے واپس آنے جانے والے ابھی ہوا کا رخ دیکھ رہے ہوں یا فضاؤں میں آنے والے وقت کی خوشبوئیں سونگھ رہے ہوں۔