پچیسویں قسط۔۔۔ سلسلہ نوشاہیہ کی تحقیقی داستان
پھر روشنی ہوئی تودیکھا کہ سڑک پر جا رہا ہوں، سامنے ایک آدمی نظر آیا۔ میلے کپڑے اور سر پر کالی ٹوپی تھی۔ اس نے مجھے کہا ’’او سردار سائیں، آ تجھے ایک اور اچھی زیارت کراؤں‘‘ میں اسکے ساتھ چل دیا۔ آگے ایک باغ دکھائی دیا جس میں عجیب قسم کے پھول تھے۔ باغ میں ایک مکان تھا۔ جب دروازے کے اندر داخل ہوا تو آگے ایک اور آدمی کرسی پر بیٹھا ہوا تھا جس کے سامنے میز پڑی تھی۔ میز پر ہاررکھے ہوئے تھے ۔ کرسی کے ساتھ بھی ہارلٹکے ہوئے تھے۔ اس نے مجھے تاکید کی کہ جو آدمی تجھے ملے گا اس کی تعظیم کے واسطے سجدہ و سجود کرنا۔ میں اس بزرگ کے پاس گیا مگر سجدہ نہ کیا، ساتھ والے آدمی نے کہا ’’سردار تم نے بڑی غلطی کی ہے ۔تمیں سجدہ کرنا چاہئے تھا۔اگر سجدہ کرلیتے تو تمہیں بہت کچھ مل جاتا‘‘
سلسلہ نوشاہیہ کی تحقیقی داستان...چوبیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اسکی بات سن کر کرسی پر بیٹھے ہوئے آدمی نے کہا ’’اب تو خیر جانے دو، لو یہ تین ہار گلے میں ڈال لو اورآئندہ غلطی نہ کرنا‘‘ میں نے سوچا کہ میرے پیرومرشد نے مجھے کبھی کسی انسان کو سجدہ کرنے کی اجازت نہیں دی لیکن کون ہستی ہے جو مجھے سجدہ پر آمادہ کررہی ہے۔ مجھے شک گزرا کہ یہ شیطانی جھانسہ ہے ۔میں نے لا حول و لا قوۃ الا باللہ العلی العظیم پڑھاتو یکایک اندھیرا ہو گیا اور سب منظر غائب ہو گیا۔میں جان گیا کہ یہ شیطان تھا جو مجھے ورغلانے آیا تھا۔
شیطان ہر برگزیدہ ہستی کے تعاقب میں لگا رہتا ہے اور اسکے پیروکاروں کو اپنی ترغیبات سے گمراہ کرنے کی کوششیں کرتا ہے۔مرید و سالک اور طالب اگراپنے عقیدہ میں پکا ہو اور اپنے سلسلہ کی تعلیمات و وظائف پر صدقِ دل سے عمل کررہا ہو توشیطان اسکو گمراہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوتا تاہم اسکا ہر جگہ تعاقب کرتا ہے۔حق و معرفت اور طریقت کے طالبان بھی بسا اوقات شیطان کے ہتھکنڈوں سے گمراہ ہوجاتے ہیں ۔
کوئی سالک یا مرید جب مرشد کریم کی نگرانی میں مجاہدے کرتا ہے تو اس پر باطن کی دنیا کے بہت سے بھید آشکار ہوتے ہیں۔سالک و مرید اور جو بھی طالبِ باطن ہو اسے ان مشاہدات کی مدد سے جہاں اپنے معاملات و منازل کی خبر ملتی ہے وہاں وہ اپنے مرشد کے رتبے اور اسکی مقبولیت سے بھی آگاہ ہو جاتا ہے۔ حق بات بھی یہی تسلیم کی جاتی ہے۔جو مرشد عملاً اپنے مرید کے لئے کچھ نہیں کرتا اور محض مریدوں کو اپنے مقام و نسبت سے ڈراتا، دھمکاتا اور شعبدوں سے اسکو مطیع بناتا اور انکی نظروں کو خیرہ کرتا ہے ،اسکی اللہ کے مقرب بندوں میں کوئی پہچان نہیں ہوتی ۔اصل مرشد تو وہ ہے جسے باطنی معاملات تک رسائی پانے والے مرید وسالکین اپنے مشاہدات وتجربات کی روشنی میں سراہا کریں۔گویا مرید باادب ہو اور شریعت وطریقت کے اُصولوں سے آگاہ ہو تو اسکی منزل آسان ہوجاتی ہے۔
حضرت سیّد ابوالکمال برقؒ نوشاہی کے صاحبزادے سیّد ظاہر شاہ کمال اپنے والد گرامی کے باطنی اُمور کی کیفیات کا نظارہ بھی دیکھتے رہے ہیں۔کہنے لگے’’ پیر صاحب کی کیا شان تھی۔ہم اکثر رات گئے آپؒ کی کیفیات باطنی کا یہ منظر بھی دیکھتے تھے جب قبلہ پیر صاحب بظاہر ہمارے درمیان تشریف فرما ہوتے تھے۔۔۔چارپائی پر ،درخت کی چھاؤں میں ۔جب پورے گاؤں میں سناٹا چھایا ہوتا تھا،آپ کی کیفیات تبدیل ہوتیں تو ہم چند لوگ نہایت ادب و دلچسپی کیساتھ آپ کے چہرے پر نظریں مرکوز کردیتے۔ایک آدھ لوگ تو آپ کی زبان سے ادا ہونے والی باتوں کو نوٹ کرلیتے۔اس وقت آپؒ مختلف زبانوں میں باتیں کرنے لگتے تھے۔ہم لوگ کہتے کہ پیر صاحب کا خبرنامہ شروع ہوگیا ہے کیونکہ آپؒ سرکارآنے والے دنوں کی پیشگی خبریں سنانے لگ جاتے تھے۔اس کیفیت میں آپ جو پیش گوئی کرتے وہ حرف بحرف درست ثابت ہوتی۔دلچسپ بات یہ کہ پیر صاحب جن زبانوں میں بول رہے ہوتے تھے۔ انہوں نے وہ زبان اس سے پہلے نہ سیکھی ہوتی تھی۔لیکن قادر مطلق میرا اللہ کریم جن لوگوں کو اپنی مخلوق میں اپنے اولیاء کا درجہ دیتا ہے،ان کے سینوں کو نورِ علم سے بھر دیتا اور انکی پیشانیوں کو چمکا دیتا ہے۔پیر صاحب جب ہالینڈ جاتے تو وہاں بھی انہیں کئی ایسے لوگوں سے ہمکلام ہوتے سنا ہے جن کی زبان اس سے پہلے وہ نہیں جانتے تھے۔یہ زندہ کرامت ہوا کرتی تھی ہمارے سامنے۔قبلہ پیر صاحب پر حجابات باطن عیاں ہوتے اور اللہ کے فضل سے وہ علم وآگہی سے سرفراز کردئیے جاتے تھے‘‘
پیر سیّد محمد ظاہر ابرار نوشاہی بتاتے ہیں کہ حضرت سیّد ابوالکمال برقؒ نوشاہی کے خلیفہ سائیں سردار کے مشاہدات تو اس ضمن میں ایک سند کا درجہ رکھتے ہیں۔وہ اگر جاگتے،چلتے پھرتے اپنے معمولات میں پیر صاحب کو دیکھتے تھے تو حالت مراقبہ اور چلّہ میں بھی اپنے مرشد کی نگرانی میں باطن سینچ رہے ہوتے تھے۔ شیطان نے سائیں سردار کو کئی بار گمراہ کرنا چاہا مگر سائیں کا کلّہ مضبوط تھا لہٰذا وہ اسکے بہکاوے میں نہیں آئے اور مرشدکامل کی نگرانی میں باطنی اُمور کی منازل طے کرے چلے گئے۔وہ بیان کرتے تھے۔’’ایک روز مرشدکی اجازت پانے کے بعد میں نے نماز عصرکے بعد ذکر شروع کیا تو تھوڑی دیر اپنے شیخ کی صورت پر توجّہ کرتا رہا ۔ چند لمحوں کے وقفے کے بعد مغرب کی جانب سے مجھے شدت کی روشنی دکھائی دی۔ میں قبلہ عالم حضرت پیر صاحب کی معیت میں اس روشنی کی جانب چل دیا تو سامنے ایک باغ آگیا ۔اندر ایک عجیب منظر تھا۔ ایک پختہ فرش پر بیشمار مخلوقات صفوں میں کھڑی تھی۔ صف میں حضور قبلہ عالم حضرت پیر صاحب بھی کھڑے ہو گئے۔ میں دوسری صف میں کھڑا ہو گیا۔ اس دوران دکن کی طرف سے تیز روشنی دکھائی دی۔ اتنے میں دو شتروں پر دو سوار نظر آئے، ان پر اعلٰے قسم کی زینیں کسی ہوئی تھیں۔ ان میں ایک بڑا شتر تھا اور ایک ذرا چھوٹا، بڑے شتر پر سواردراز زلف بزرگ نے اپنے گرد سبز دوپٹہ لپیٹا ہوا تھا ۔وہ سفید لباس میں ملبوس تھے اور سر پر پگڑی باندھ رکھی تھی، زلفیں سیاہی مائل سفید اور داڑھی مبارک بھی اسی طرح تھی، بہت عمر کے نظر آتے تھے۔ دوسرے بزرگ سبز پیراہن میں تھے ،سر پر سفید ٹوپی ،سفید لمبی داڑھی تھی، بیشمار پیادہ ہمراہ تھے۔۔۔ انہیں دیکھ کر تمام صفیں سر بسجود ہو گئیں۔ جب وہ دورازہ کے اندر آئے تو پہلی صف بھی اندر چلی گئی اور دروازہ بند ہو گیا۔ دوسری جانب شمال سے ایک چھوٹے دروازے سے ایک عمررسیدہ سفید ریش آدمی باہر آگیا۔وہ سفید لباس میں ملبوس تھا۔ سر پر سبز ٹوپی تھی ۔ اعلان کیا کہ کچہری لگ گئی ہے لہٰذا تمام لوگ اس دروازہ سے اندر داخل ہو جائیں۔ چنانچہ تمام لوگ اس چھوٹے دروازے سے اندر داخل ہوگئے۔ اندر ایک تاج فضا میں اڑ رہا تھا اور باجے بج رہے تھے ،دل لبھانے کا ساماں تھا،ریشمی لباس میں ملبوس ایک آدمی کرسی پر بیٹھا تھا۔ اسکے ساتھ اور آدمی بھی کرسیوں پر بیٹھے تھے ۔ اندر جا کر کچھ آدمی سربسجود ہو گئے اور کچھ کھڑے رہ گئے چنانچہ میں بھی کھڑا رہا سجدہ نہ کیا، سجدہ کرنے والوں کو کرسیوں پر بیٹھا دیا گیا، اتنے میں اس آدمی نے اعلان کیا ’’دیکھیں یہ لوگ فیض کی خاطر آئے ہیں ،مگرنہایت بے ادب ہیں جس کی وجہ سے یہ محروم رہ جاتے ہیں‘‘
یہ سنا تو میں نے لاحول پڑا ۔۔۔یکایک اندھیرا ہو گیا اور پھر روشنی ہوگئی۔ وہی پہلی جگہ نظر آئی اور قبلہ عالم پیر صاحب تشریف لائے اور فرمایا ’’سائیں میں نے تمہارا نام درج کروادیا ہے۔کیونکہ پہلے تمہارا نام درج نہیں تھا ‘‘یہ کہہ کر آپ نے جیب سے ہار نکال کر مجھے پہنایا۔
میں نے قبلہ کو ماجرا بیان کیا تو آپ نے فرمایا’’ان لوگوں کی طرف دیکھو‘‘ میں انکی جانب دیکھتا ہوں مجھے ان کے منہ سیاہ اور گلے میں سیاہ ہار نظرآتے ہیں ۔ فرمایا’’ یہ شیطان تھا ۔ یہ لوگ مبتدی ہیں جو گمراہ ہو گئے ہیں‘‘ پھر فرمایا کہ وہ جو دو بزرگ شتر سوار تھے ان میں ایک حضورغوث الاعظمؒ اور دوسرے جناب نوشہ گنج بخشؒ تھے۔ پہلی صف فوت شدگان اولیاء اللہ کی تھی۔باقی صفوف اولیاء کرام ہی کی تھیں۔‘‘
جاری ہے۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں