گرین پاکستان پروگرام کے تحت ادویاتی پودوں کی کاشت کیوں نہیں؟

گرین پاکستان پروگرام کے تحت ادویاتی پودوں کی کاشت کیوں نہیں؟
گرین پاکستان پروگرام کے تحت ادویاتی پودوں کی کاشت کیوں نہیں؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

وزیر اعظم کے گرین پاکستان پروگرام کے تحت ملک بھر میں 7ارب روپے سے 257ملین پودے لگائے جارہے ہیں ۔میڈیا رپورٹس کے مطابق محکمہ جنگلات کے تعاون سے جو پودے لگائے جارہے ہیں ان میں زیادہ ترپودے سایہ دار ہیں لیکن میرا اپنا مشاہدہ اور تجربہ یہ ہے کہ اگر پاکستان مین ادویاتی پودوں کی کاشت کو گرین پاکستان کی علامت بنا کر انکی کاشت کاری کی جائے تو ملک میں سے آلودگی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔آکسیجن کی مقدار بڑھائی جاسکتی اور جراثیمی بیماریوں کی روک تھام کیا جاسکتی ہے۔اس وقت لاہور اور کراچی میں آکسیجن لیول بہت کم ہوچکا ہے جو درختوں اور پودوں کے کم ہوجانے اور آلودگی کے بڑھ جانے کی صورت میں انسانی حیات کے لئے خطرہ بن جائے گا۔انسان جیتا جاگتا مردہ نظر آئے گا کیونکہ آکسیجن کی کمی سے انسان جسمانی تھکن اور ذہنی طور پر کمزور ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے اسکے پورا جسمانی نظام خراب ہوجاتا ہے۔اگر ملک میں نئے درختوں خاص طور پر ادویاتی درختوں اور پودوں کی یونہی کمی رہی یا انکی کاشت کو فوقیت نہ دی گئی تو پاکستان قوم کی صحت بحال کرنا چیلنج بنا جائے گا ۔

پاکستان سے باہر نکل کر دیکھیں کہ دنیا میں ادویاتی پودوں کی کاشت کو کس قدر اہمیت دی جاتی ہے۔اس کے دو بڑے فائدے ہیں ۔ایک تو ماحول دوست پودوں کی کاشت سے آلودگی اور جراثیمی بیماریوں کی روک تھام اور دوسرا ادویات کی تیاری میں خام مال کے طور پر انکی مارکیٹ کو فروغ دینا مقصود ہوتا ہے۔
پاکستان میں اس وقت تقریباً6000کے قریب قیمتی جڑی بوٹیوں اور طبی نباتات کو دریافت کیا گیا ہے۔ جن میں سے تقریباً 2500صوبہ خیبر پختونخوا میں پائے جاتے ہیں۔ ایک ہربل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق ان علاقوں میں پائی جانے والی قدرتی طبی نباتات کی مانگ پوری دنیا میں ہے لیکن بے احتیاطی برتنے سے ان قیمتی پودوں کی بقاء کا مسئلہ بن گیا ہے بلکہ کئی ایک پودے نایاب ہوگئے ہیں یا بالکل ہی ختم ہوگئے ہیں۔ ان پودوں کا ہر حصہ قیمتی اور قابل استعمال ہوتا ہے جس سے نہ صرف ملک میں بلکہ بیرون ملک بہت ساری قیمتی ادویات بنائی جاتی ہیں۔ یہاں کے لوگ ان پودوں کو جڑوں سمیت نکال لیتے ہیں جس کی وجہ سے معدومیت کا شکار ہورہے ہیں۔ بہت سارے پودو ں کو حکومت نے قانون کے تحت تحفظ فراہم کیا ہے جن کا غیر قانونی کاروبار اور اْن کو نکالنا سخت ممنوع ہے، جبکہ حکومت ان کی کاشت اور حفاظت کی کرنے والے کاشتکاروں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔پاکستان فارسٹ انسٹیٹیوٹ کے طبی نباتات کے ریسرچ سنٹر نے ایسے بہت سارے معدومیت کے شکار پودوں کو اپنے ریسرچ سنٹر میں اْگایا اور اْن کو دوبارہ اْن کے متعلقہ علاقوں میں لگاکر اْن کودوبارہ کاشت کیا ہے، جس میں اْن کو خاطر خواہ کامیابی ملی ہے۔ اس میں مقامی کمیونٹی کو شامل کرکے اْن کی اراضی پر ان قیمتی پودوں کی کاشت کی گئی ہے، لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان پودوں کو ملک گیر گرین پاکستان مہم کا حصہ کیوں نہیں بنایاجاتا؟
حقیقت یہ ہے قدرت نے ہر علاقے کی جڑی بوٹیوں میں وہاں رہنے والوں کی بیماریوں کا علاج رکھا ہے۔لیکن انگریزی ادویات کی وجہ سے نباتاتی ادویات کی اہمیت بہت کم ہو گئی ہے۔حالانکہ پاکستان دنیا میں ایسے ممالک کی فہرست میں نمایاں حیثیت رکھتا ہے جہاں خود رو ادویاتی پودوں کی پیداوارمیں فراوانی ہے۔یہی وجہ ہے کہ یو ایس ایڈ سمیت کئی عالمی ادارے پاکستان میں ہربل ریسرچ پر زور دے رہے ہیں ۔کئی ریسرچر ذاتی طور پر پاکستان میں نباتاتی پودوں کے معیارات دیکھنے آتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے سپین کے ایک ماہر تحقیق کرتے ہوئے پاکستان آئے تو انھیں ایک یہاں ایسا پودا ملا جو جلد کی بہترین دوا تھا۔ انھوں نے وہ پودا اپنے ملک لے جانے کا فیصلہ کیا۔ تازہ پودے حاصل کرنے میں وقت لگ سکتا تھا تو وہ اسی علاقے کی ایک مارکیٹ میں گئے جہاں وہ پودے خشک حالت میں بوریوں میں موجود تھے۔انھوں نے گوداموں سے بہت ساری بوریاں خریدیں اور اپنے ملک بھجوا دیں جب وہ سامان سپین پہنچا تو اس کو غیر معیاری قرار دے کر مسترد کر دیا گیا۔ سپین کے ماہرین کا کہنا تھا کہ اس پودے میں کوئی ڈرگ شامل ہے۔جب تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ ان پودوں کو ایسی جگہ خشک کیا گیا تھا جہاں وہ لوگ کھانا بناتے تھے جس کی وجہ سے ان پودوں میں دھوئیں کے اثرات نفوذ کرگئے ۔اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ ہمارے ہاں نباتاتی پودوں کی اہمیت سے غافل لوگ ان کی تجارت سے جڑے ہوئے ہیں اور انہیں یہ خیال نہیں رہتا کہ اگر بعض پودوں کو دھوپ میں خشک کیا جائے تو انہیں پھپوندی لگ جاتی ہے ۔جبکہ کئی پودے ایسے ہیں کہ ان کو یکجا رکھنے سے سب کی اصل خاصیت میں آمیزش ہو جاتی ہے ۔ایسے حالات میں یہ ادویاتی پودے قیمتی ہوں یا نایاب کسی بے کارڈھیر سے کم نہیں۔ہم اپنی کم علمی سے لاکھوں کروڑوں کی دولت کو ضائع کر رہے ہیں۔
اسکا ایک حل تو یہ ہے کہ ایسے علاقوں میں جہاں ادویاتی پودے زیادہ ہوتے ہیں وہاں مقامی ہربل اداروں کے تعاون سے ایسی فیکٹریاں لگائی جائیں جو سائنسی بنیادوں پر ان ادویاتی پودوں کو تیار کریں۔اس سے نہ صرف ہماری قیمتی دولت محفوظ ہو گی بلکہ وہاں کے لوگوں کو روزگار بھی ملے گا اور دوسرے ملکوں کو برآمد کرنے کی وجہ سے ملک کے زرمبادلہ میں اضافہ بھی ہو گا۔اس میں کوئی شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ پاکستان میں ادویاتی پودے اپنی خاصیت میں اعلا معیار رکھتے ہیں۔لیکن توجہ نہ ہونے سے ہربل ادارے اور ایکسپورٹرز دوسرے ملکوں سے ادویاتی پودے یا انکے اجزا منگواتے ہیں۔ایک مثال زعفران کی دی جاسکتی ہے۔پاکستانم کے شمالی علاقوں و فاٹا میں زعفران اگانے کا رجحان پایا جاتا ہے ۔زعفران قیمتی ترین مصالحہ ہے جو ڈیڑھ لاکھ سے تین لاکھ کلو گرام کے حساب سے فروخت ہوتا ہے ۔ پاکستان کے شمالی علاقہ جات کا موسم اس کے لیے بہترین ہے۔کے پی کے میں پوست کی کاشت کو ختم کرانے کے لئے حکومت نے 54 ملین روپے زعفران کی کاشت کے لئے مخصوص کئے ہیں اور اس پودے کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے کہ زعفران جیسے مہنگے پودے سے اربون روپے کمائے جاسکتے ہیں ۔وادی تیراہ جہاں شدید سردی پڑتی ہے اسے زعفران کے لئے سب سے زیادہ اہم سمجھا جاتا ہے۔اس وقت بہت سے ادویہ سازادارے ایرانی یا کشمیری زعفران منگواتے ہیں ۔ایران کا زعفران معیار میں سب سے آگے ہے لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں زعفران کی کاشت سے بھی معیاری زعفران پیدا کیا جاسکتا ہے۔
یہاں آپ کو یہ حیرت انگیز بات بتادیں کہ بھارت کشمیر کے زعفران سے اپنی معیشت کو مضبوط بنائے ہوئے ہے۔اس وجہ سے بھی وہ جموں کشمیر سے دستبردار نہیں ہوتا ۔بھارت عرب ممالک کشمیر کا زعفران بیچ کر اسکے بدلے تیل کی اسّی فیصد مقدار حاصل کرکے اپنے ملک کا زرمبادلہ بچاتا ہے۔کیا یہ کام پاکستان نہیں کرتا۔
نیم کا درخت ماحول دوست ہے۔پاکستان میں جراثیمی بیماریوں کا عام راج ہے ۔محقیقین کے مطابق نیم جیسے پودوں کی وجہ سے فضا میں جراثیم کا قلع قمع ہوجاتا ہے۔
اسی طرح ایلوویرا یعنی کوار گندل یاگھیکوار ہے ۔اس کے بے شمار ادویاتی فائدے ہیں ۔اسکوکئی کاسمیٹکس مصنوعاتمیں شامل کیا جاتا ہے۔ کوار گندل میں وٹامنز اور منرلزجبکہ وٹامن اے، سی، ای، بی 1، بی 2، بی 3 اور بی 12، پروٹین، لپڈز، امائینو ایسڈز، فولک ایسڈ اور کیلشیئم، میگنیشیئم، زنک، کرومیئم، سیلینیئم، سوڈیئم، آئرن، پوٹاشیئم، کاپر اور مینگنیز جیسے منرلز شامل ہوتے ہیں جو ہماری صحت بہتر رکھنے کے لیے مفید سمجھے جاتے ہیں اور ان کی کمی سے مختلف اقسام کی بیماریاں اُبھر آتی ہیں۔ ان تمام اجزا کی موجودگی کوار گندل کو کاسمیٹکس اور روایتی ادویات کا اہم جزو بنا دیتی ہے۔اسکا رس ایک آسان اور قدرتی طور پر وزن کم کرنے والا محلول ہے جو میٹابولزم کی رفتار کو تیز کر کے وزن کم کرتا ہے اور چربی گھلانے میں مدد کرتا ہے۔پاکستان کے زرعی ماہرین نے ہمیشہ اس بات کا اعلان کیا ہے کہ کوارگندل کو گھروں میں بھی کاشت کرنا چاہئے جبکہ کاشت کاروں کا حوصلہ بڑھانے کے لئے انکی رہ نمائی بھی کی جاتی ہے لیکن اس قیمتی ادویاتی پودے کو عام کاشت نہیں کیا جاتا اور بہت سے سے ادارے بیرون ملک سے اسکے اجاز منگواکر زرمبادلہ ضائع کرتے ہیں۔
گل اشرفی جو موسم بہار کا عام پھول ہے اور باغوں اور سیر گاہوں میں عام اُگایا جاسکتا ہے۔ یہ گرمی برداشت کرنے والا پھول ہر جگہ کاشت کیا جاسکتا ہے۔یہ کئی مرضوں میں استعمال ہوتا ہے ۔عالمی سطح پر اس پودے کے اجزا سے بخار اور جلدی امراض کی ادویات بنائی جاتی ہیں ۔ہمارے ہاں تو اسے بھی گل داودی کی طرح خوبصورتی اور دلکشی کے لئے اگایا جاتا ہے ۔اسکی یہ اہمیت اپنی جگہ لیکن اسکا ادویاتی شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔شمالی یورپ میں اسکی بہت مانگ ہے اورکافی مہنگے داموں فروخت ہوتا ہے۔ سنٹرل ایشیا میں ادویاتی پودے شہروں میں جہاں پارکوں میں نظر آتے ہیں وہاں سڑکوں پر انہیں بالخصوص کاشت کیا جاتا ہے۔وہاں کی مقامی حکومتیں اپنے ملک کو ترقی دینے اور قوم کی صحت کا معیار بڑھانے میں ایسے اقدامات معمول کے طور پر اٹھاتی ہیں ۔ہمیں بھی اپنی سیاسی قیادت اور محکموں کے اندر یہ جذبہ پروان چڑھانے کی ضرورت ہے۔

.

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -