آئندہ صدر کون؟ کیا افسرشاہی،متبرک ہے؟

آئندہ صدر کون؟ کیا افسرشاہی،متبرک ہے؟
آئندہ صدر کون؟ کیا افسرشاہی،متبرک ہے؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کہا تو یہی جاتا ہے کہ ہر کمال راز والے تاہم یہ بھی تو ہے کہ درد حد سے بڑھ جائے تو دوا ہوجاتا ہے، کچھ ایسا ہی احساس ہورہا ہے کہ شاید اب وہ وقت آہی گیا ہے کہ مزید گنجائش ختم ہوئی اور ٹوٹنے سے بچانے کے لئے لاٹھی کو سنبھال ہی لینا بہتر ہے، اطلاعات ہیں کہ اسلام آباد کے پنجاب ہاؤس میں مسلم لیگ (ن) کے بڑے جمع ہوئے ان کے زیر غور 2017ء کے انتخابی قانون میں آئینی ترمیم کے کالعدم ہونے کے بعد والی صورت حال تھی کہ اس ایک ترمیم کے خاتمے کے بعد سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف جماعتی صدارت سے بھی نااہل ہوگئے تھے اور یہ عہدہ خالی ہوگیا، ذرائع شریف تو یہی کہتے ہیں کہ اس محفل میں شریک سب بڑوں نے بہت واضح اکثریت بلکہ اتفاق رائے سے یہ تجویز کیا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف کو یہ ذمہ داری سونپ دی جائے، ان بڑوں کی اس تجویز کے پیچھے یہ صائب رائے ہے کہ محمد شہباز شریف محاذ آرائی کے ماحول کو تبدیل کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں اور یوں بھی محمد نواز شریف کے بطور وزیر اعظم نااہل ہونے کے بعد محمد شہباز شریف کا نام ہی آئندہ وزیر اعظم کے طور پر لیا گیا تھا۔

اب یہی ذرائع کہتے ہیں کہ اس تجویز پر حتمی فیصلہ نہیں ہوا، اس کا اختیار نااہل مرکزی صدر محمد نواز شریف ہی کے پاس ہے جو اب مسلم لیگ (ن) کے قائد ہوں گے، یا ان کو رہبر کہہ لیں اور بنیادی پالیسی انہی کی چلے گی اور انہی سے ہدایات لی جائیں گی۔

یہ سب اپنی جگہ، بہر حال فیصلہ تو مرکزی مجلس عاملہ اور اس کے بعد جنرل کونسل کے اجلاس میں ہوگا، ایک تجویز یہ بھی ہے کہ سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف کی مدت اہلیت کے متعلق متوقع فیصلے کا انتظار کیا جائے اور تب تک قائم مقام صدر کا تقرر ہو، اگر ایک ٹرم تک کی نااہلیت ہوجائے اور 2018ء کے بعد وہ پھر سے ’’اہل‘‘ ہو جائیں تو وہی صدر ہوں، ابھی کسی حتمی فیصلے کا اعلان تو نہیں کیا گیا لیکن ذرائع تو وزیر اعلیٰ محمد شہباز شریف ہی کے حق میں اظہار کررہے ہیں، اگرچہ عام کارکنوں اور ہمدردوں نے سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف کے ایک خاموش عمل سے توقعات وابستہ کرکے کنفیوژن بھی بڑھایا ہے حالانکہ یہ ان حضرات کی خواہش ہوسکتی ہے، ہوا یوں کہ احتساب عدالت سے واپسی پر محمد نواز شریف اچانک اپنی گاڑی کی پچھلی نشست پر چلے گئے اور اپنی صاحبزادی مریم نواز شریف کو اپنی جگہ اگلی نشست پر بٹھا دیا، یار لوگوں کو کیا چاہئے تھا مائیک تو اپنے ہی ہاتھ میں ہوتا ہے، سوال کرکے جواب حاصل کرنا شروع کردیا، اس عمل کو اشارہ کہہ کر پوچھا گیا تو عوامی سطح پر مریم نواز شریف کے حق میں مثبت رائے آنا شروع ہوگئی، بھائیوں نے اسے ہی حتمی اشارہ یا فیصلہ قرار دے کر اگلی قیادت کا اہل مریم نواز شریف ہی کو ٹھہرادیا، یہ دلیل بھی دی گئی کہ پچھلے تین چار جلسوں میں سابق وزیر اعظم نے آخری مقرر کے طور پر مریم نواز کو آگے بڑھادیا تھا، روائت کے مطابق سربراہ ہی آخری تقریر کرتا ہے، اس عمل سے یہ بھی ثابت کیا گیا کہ حاضرین ہلے نہیں اور والد کے بعد بھی منتظر رہے اور صاحبزادی کی تقریر سن کر ہی گئے، اس عمل کے باوجود ’’سیانوں‘‘ نے وزیر اعلیٰ محمد شہباز شریف ہی کے حق میں رائے دی، فیصلہ محمد نواز شریف ہی کو کرنا ہے۔


میڈیا خصوصاً الیکٹرونک میڈیا نے اس پر بھی ریٹنگ مقابلہ ہی شروع کردیا اور بحث و تجزیئے شروع ہوگئے حالانکہ ایک سے زیادہ مواقع پر شریف خاندان کی طرف سے اس تاثر کی نفی کی گئی کہ خاندان میں کوئی اختلاف ہے، لودھراں کے شکرانہ والے جلسے میں سب نے جاکر بھی اس کنفیوژن کو دور کیا لیکن یار لوگ ہیں کہ مانتے ہی نہیں، حالانکہ ابھی حال ہی میں محمد شہباز شریف نے خود بتایا کہ جنرل (ر) پرویز مشرف نے ان کو وزیر اعظم بنانے کی پیشکش کی تھی جسے انہوں نے قبول نہیں کیا تھا، ایسی پیشکش کی خبر کئی بار چلی تاہم عملاً اس کا عشر عشیر بھی ثابت نہ ہوا، اب ان حالات میں یہ کیسے ممکن ہے کہ اختلاف ہو، چنانچہ جو بھی فیصلہ سابق صدر کا ہوگا وہی حتمی اور قبول کیا جائے گا، لہٰذا’’ پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ‘‘ ایک گزارش ہم بھی کردیں، وہ یہ کہ شریف خاندان ایک سے زیادہ بار اظہار کرچکا کہ ان کو ’’انصاف‘‘ کی توقع نہیں اور احتساب عدالت سزا ہی دے گی، ان ریفرنسوں میں مریم نواز بھی ہیں اور ان کو بھی سزا ہوسکتی ہے، اس لئے پالیسی انتظار کی ہوگی اور فیصلوں کے بعد ہی حتمی نتیجے پر پہنچ کر اعلان کیا جائے گا تب تک قائم مقام صدارت سے ہی کام چلایا جائے گا، اس سلسلے میں بڑی بڑی خبریں ذاتی خواہشات پر مبنی ہیں، بہرحال اکثریتی رائے وزیر اعلیٰ محمد شہباز شریف ہی کے حق میں ہے کہ وہ بطور صدر مسلم لیگ اور بطور وزیر اعظم بہت اچھی خدمات انجام دے سکتے ہیں کہ بیرونی دنیا میں بھی ایسا ہی سمجھا جاتا ہے۔


اس ذکر کو مکمل کرنے سے پہلے بھی ایک نئی تاریخ کا ذکر کرنے کو جی چاہا جو بڑی اہمیت کی حامل ہے، تاہم یہ مسئلہ زیادہ اہم تھا اس لئے اظہار خیال کرلیا، اب دوسری بات بھی کرلیتے ہیں کہ سول بیورو کریسی نے بھی ایک نئی مثال رقم کردی ہے، نیب نے ایل، ڈی، اے کے سابق ڈائریکٹر جنرل احد چیمہ کو کروڑوں روپے کی مبینہ کرپشن کے حوالے سے تحویل میں لیا کہ تفتیش کی جائے، احد چیمہ کا تعلق ڈی، ایم،جی گروپ سے ہے، ایسا پہلی مرتبہ ہوا کہ اس گروپ کے حاضر سروس افسر احتجاج پر اتر آئے اور انہوں نے گرفتاری کو غلط اور ناجائز قرار دے کر کام چھوڑ دیا، کیا یہ ہڑتال نہیں؟ اگر یہ ہڑتال ہے تو قانون کیا کررہا ہے جس کے مطابق یہ ملازم ایسا نہیں کرسکتے، انہوں نے تو جی، او، آر سروسز کلب میں جمع ہوکر سیاہ پٹیاں باندھ کر احتجاج بھی کیا اور احد چیمہ کی گرفتاری کو غلط قرار دے دیا، نیب نے اس کی تردید کی ہے۔


بہر حال ہمیں تو اس کے اس پہلو سے غور کرنا ہے کہ کیا ڈی،ایم، جی گروپ آسمانی اوتار ہے کہ اس کے کسی رکن کو کروڑوں کے مبینہ خورد برد پر پوچھا نہیں جاسکتا اور گرفتار بھی نہیں کیا جاسکتا، کیسی دلچسپ حکائت ہے کہ احد چیمہ کی گرفتاری پر ایسا احتجاج کیا گیا اور تفتیش کے نتائج کا انتظار کئے بغیر مطالبہ کیا ہے کہ ان کو رہا کیا جائے ان افسروں کے ایک وفد نے وزیر اعلیٰ سے بھی ملاقات کی اور اس گرفتاری پر احتجاج کرتے ہوئے اقدام کو سرکاری افسروں کی حوصلہ شکنی قرار دے دیا، دوسری طرف وزیر اعلیٰ نے سیکیورٹی کے نام پر احد چیمہ کو پروٹوکول دینے کی ہدایت کردی اب ان کو بھی نواز شریف ہی کی طرح پروٹوکول کے ساتھ لایا اورلے جایا جائے گا، اس موقع پر پولیس کے بڑے حکام خود موجود ہوں گے اور پروٹوکول کا پورا اہتمام ہوگا، چنانچہ ایسا ہی ہوا اور ان کو عدالت میں پیش کرکے ریمانڈ حاصل کرلیا گیا ہے، سوال یہ ہے کہ ان محترم ڈی،ایم، جی گروپ کے افسر اور عام شہری یا پھر سیاسی راہنماؤں کے درمیان کیا امتیاز ہے کہ ان کے ساتھ تو ایسا کوئی سلوک نہ ہو اور دوسرے حضرات کو دھکے دیئے جائیں، شہریوں میں ڈی،ایم،جی گروپ کے ان افسروں کے احتجاج پر غصہ پایا جاتا اور لوگوں کی ہنسی بھی چھوٹ جاتی ہے۔

مزید :

رائے -کالم -