ملک و قوم بھی آزمائش میں ہیں!
ایک بار پھر سپریم کورٹ نے میاں نواز شریف کو پارٹی صدارت سے نا اہل کر دیا ہے۔ ایک مرتبہ پھر پوری قوم کو اس فیصلے کی حمایت و مخالفت کے ضمن میں دو حصوں کے اندر تقسیم کر دیا گیا ہے۔ ایسا پہلی مرتبہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ چیف جسٹس محترم ثاقب نثارکی سربراہی میں عدلیہ کی طرف سے سیاسی فیصلوں کے حوالے سے مسلسل نئی نظیریں قائم کی جارہی ہیں ۔
پہلے سیاست دانوں کے اثاثہ جات کے حوالے سے کیس الیکشن کمیشن دیکھتا تھا، لیکن میاں نواز شریف کے اثاثہ جات کے متعلق کیس سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کی بجائے خود اپنے ہاتھ میں لے لیا۔
پہل عموماً عدلیہ کی طرف سے جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم(JIT) نہیں بنائی جاتی تھی، لیکن پانامہ لیکس کے تحت عدالت عظمیٰ نے وزیر اعظم کے خلاف جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم بنائی اور پھر ا سے صرف دو ماہ کا وقت دیا کہ اپنی تحقیقات مکمل کر کے عدالت میں پیش کرے۔
یاد رہے کہ میاں نواز شریف کا نام براہ راست اس پانامہ لیکس میں سامنے نہیں آیا تھا۔عدالت عظمیٰ کے حکم پر تحقیقات آغاز ہوئیں ۔
پانامہ کیس کی تحقیقات کرنے والی اس جے آئی ٹی کے دو ممبران ابتداء میں ہی متنازعہ قرار پائے اور شریف فیملی کی طرف سے ان دو ممبران کی جانبداری کے متعلق شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا، لیکن اس کے باوجود جے آئی ٹی نے اپنا کام جاری رکھا اور ان دو متنازعہ ممبران کی جگہ غیر متنازعہ افراد کو جے آئی ٹی کا حصہ بنانے کی زحمت نہیں کی گئی ۔
حسین نواز نے JITکے جن دو اراکین پر اعتراض کیاتھا، ان میں ایک اسٹیٹ بنک کا نمائندہ عامر عزیز ہے جوپرویز مشرف کے دور میں شریف خاندان اور حدیبیہ پیپر ملز کے خلاف تحقیقات کرنے والی ٹیم میں شامل تھا ۔ عامر عزیز کو اس خدمت کے عوض پرویز مشرف نے’’اعلیٰ کارکردگی‘‘ پر ایوارڈ سے بھی نوازاتھا، جبکہ دوسرارکن بلال رسول سیکورٹی ایکسچینج سے تعلق رکھتا ہے، جو پی ٹی آئی کے رہنماء میاں اظہر کا بھانجا ہے اور اس بلال رسول کی اہلیہ بھی پی ٹی آئی کی متحرک کارکن ہے۔
یہاں بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان دو افراد کے متبادل افراد متعلقہ اداروں کے پاس موجود نہیں تھے؟ کیا یہ دو ہی افراد تھے جو پوری ایمانداری سے اس جے آئی ٹی میں خدمات سر انجام دے سکتے تھے؟ ان دو متنازعہ افراد کو تبدیل نہ کر کے اس اہم ترین جے آئی ٹی کو آغاز میں ہی متنازعہ بنا دیا گیا تھا ۔
میاں نواز شریف کے خلاف پانامہ لیکس کی چھان بین کے لئے قائم ہونے والی اس جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم نے دو ماہ کے اندر دس جلدوں پر مشتمل ایک ضخیم تفتیشی رپورٹ عدالت عظمیٰ کے حوالے کی، لیکن یہ جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم دوماہ کی اعلیٰ سطحی تحقیقات اور ان تحقیقات کے ضمن میں مبینہ طور پر تقریباًبیس کروڑ ورپے کے اخراجات کرنے کے بعد ایسا کوئی ثبوت پیش نہ کر سکی ،جس سے میاں نواز شریف کا تعلق پانامہ لیکس یا آف شور کمپنی سے ثابت ہوتا۔یہاں بھی ایک نئی نظیر سامنے آئی کہ کیس پانامہ کا تھا اور جے آئی ٹی کا مینڈیٹ بھی پانامہ لیکس کی تحقیقات تک محدود تھا، لیکن جب پانامہ لیکس اور آف شور کمپنیوں میں میاں نواز شریف بری ہوگئے تو جے آئی ٹی کے پانامہ لیکس والے مینڈیٹ سے ہٹ کر عدالت عظمیٰ نے پانامہ کی جگہ تنخواہ کی ایسی رقم جو میاں نواز شریف کی جیب میں نہیں تھی، بلکہ کمپنی کے مالک، ان کے بیٹے کی جیب میں تھی یعنی وہ رقم ابھی میاں نواز شریف کا براہ راست اثاثہ بنی ہی نہیں تھی، اسے بنیاد بنا کر میاں نواز شریف کو نااہل کرنے کافیصلہ کر لیا ،لیکن چونکہ اس فیصلہ کے لئے عدالت عظمیٰ کے پاس عدالتی فیصلوں کے حوالے سے کوئی سابقہ نظیر نہیں تھی ،لہٰذا انہوں نے قانون کی بلیک ڈکشنری سے رجوع کیا اور اس کی روشنی میں بنچ میں شامل پانچوں معزز جج صاحبان نے مشاورت کی اوربلیک ڈکشنری کی بنیاد پرعوام کے ڈیڑھ کروڑ سے زائد ووٹوں سے منتخب ہونے والے وزیر اعظم میاں نواز شریف کو نا اہل کرنے کا متنازعہ فیصلہ سنا دیا ۔
اس فیصلے کے بعد ملک میں آئین و قانون کی ایک نہ ختم ہونے والی بحث شروع ہو گئی ، جس سے عوام کے اندر آئینی اداروں کے متعلق حمایت و مخالفت کے شدید جذبات سامنے آئے۔ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کا خیال تھا کہ جب کیس پانامہ کا تھا تو اقامہ او رتنخواہ کی عدم وصولی پر ایک منتخب وزیر اعظم کو نا اہل کیوں قرار دیا گیا ۔
پھر ایک عوامی رائے یہ سامنے آئی کہ بادی النظر میں یوں محسوس ہوتا ہے کہ میاں نواز شریف طے شدہ ہدف تھے، اس لئے پانامہ کی جگہ اقامہ اور تنخواہ کی کمزور بنیاد پر ان کے خلاف فیصلہ دیا گیا۔
اس رائے کی وجہ یہ بنی کہ میاں نواز شریف کی نا اہلی کے بعد عدالت عظمیٰ نے پانامہ لیکس کے معاملے سے ہاتھ اٹھا لئے۔ اگر پانامہ لیکس اور آف شور کمپنیوں کے خلاف میاں نواز شریف کے بعد اس میں ملوث تمام چار سو افراد کے خلاف بھی اسی طرح عدالتی جے آئی ٹی بنا کر تحقیقات کروائی جاتیں تو یہ تاثر پیدا نہ ہوتا کہ’’ منتخب احتساب ‘‘ہوا ہے۔
یہ تو انصاف کا بنیادی تقاضا ہے کہ سب کو یکساں معیار کا انصاف فراہم کیا جائے۔ یعنی اگر شریف خاندان کے کچھ افراد کا نام پاناما لیکس میں آیا تھا اور اس بنیاد پر اس پورے خاندان کا ٹرائل کیا گیا تھا ، تو یہ بھی انصاف کا اولین تقاضا تھا کہ پانامہ لیکس میں شامل تمام 400کے قریب پاکستانیوں کے خلاف بھی بلا تفریق احتساب کا عمل شروع کروایا جا تا،لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا، جس سے منتخب احتساب والے تاثر کو تقویت ملی۔
اس کے بعد عدالت عظمیٰ نے ایک نئی اور تازہ نظیرپارٹی صدارت کے حوالے سے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے منظور کردہ قانون کو بائی پاس کر تے ہوئے میاں نواز شریف کو پارٹی صدارت سے نا اہل کر کے قائم کی ہے۔اس فیصلے کے بعد عدلیہ اور پارلیمان ایک دوسرے کے مد مقابل آگئے ہیں اور ملک میں ایک مرتبہ پھر ایک نئی آئینی بحث چھڑ گئی ہے۔
بنیادی سوال یہ پیدا ہوا ہے کہ پارلیمان قانون ساز ادارہ ہے۔ اس وقت جو آئین پاکستان میں رائج ہے وہ پارلیمان کا بنا یا ہوا ہے۔ اس وقت جو قوانین رائج ہیں وہ پارلیمان کے وضع کردہ یا تائید کردہ ہیں۔
اگر پارلیمان کے بنائے ہوئے دو قوانین آپس میں ٹکرائیں تو اس کا حل بھی پارلیمان کو ہی نکالنے دینا چاہیے۔ یعنی اگرآئین کا آرٹیکل 62 اور 63 پارلیمنٹ کے ہی پاس کردہ پارٹی سربراہ کے قانون سے متصادم تھے تو عدلیہ ،پارلیمان کو سفارش پیش کر سکتی تھی کہ اس آئینی ابہام کو دور کیا جائے، لیکن پارلیمان کے مینڈیٹ کو بائی پاس کر کے ایک متنازعہ فیصلہ جاری کردیا گیا جو نہ عدلیہ کے حق میں مفید ہے اور نہ ہی پارلیمان کے حق میں سود مند ثابت ہوگا۔اس فیصلے کے بعدآئینی اداروں کے درمیان پہلے سے موجود ٹکراؤمیں مزید شدت آئی ہے اور نہ جانے اداروں کے درمیان جاری اس جنگ میں ملک اور قوم کو اور کتنا نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔
آل پاکستان مسلم لیگ نامی ایک پارٹی کے صدر جنرل (ر) پرویز مشرف بھی ہیں جنھوں نے منتخب جمہوری حکومت پر شب خون مارا، آئین کو پامال کیا، عدلیہ کو مفلوج کیا، ایمرجنسی نافذ کی، پاکستان کو امریکا کی کالونی بنایا، امریکی جنگ کو پاکستان کے گلی کوچوں میں پھیلایا، کراچی میں ایم کیو ایم کے ذریعے عوام کے خون سے 12مئی 2007ء کو ہولی کھیلی، اکبر بگٹی ، لال مسجد سمیت متعدد واقعات میں انہوں نے آمریت کے زور پر سینکڑوں لوگوں کا قتل کروایا ۔
آج بھی یہ محترم عدالتوں سے مفرور ہیں،لیکن اس کے باوجود وہ میڈیا پر انٹرویو دے رہے ہیں ، اپنے گنے چنے کارکنوں سے ویڈیولنک خطاب فرما رہے ہیں اور دھڑلے سے اپنی پارٹی کو ہیڈ کر رہے ہیں، لیکن ان کے خلاف قانون حرکت میں نہیں آیا۔
ایسی اور بھی متعدد مثالیں موجود ہیں، لیکن جس طرح پانامہ لیکس میں صرف میاں نواز شریف کے خلاف تحقیقات کی گئیں اسی طرح پارٹی صدارت کے قانون پر بھی صرف میاں نواز شریف پر ہی نظر کرم کی گئی ۔ یہ طرز عمل قابل احترام عدلیہ کے شایان شان نہیں ہے۔
اگر عدالت عظمیٰ سیاسی مقدمات میں بلا تفریق احتساب کو یقینی نہیں بنا سکتی تو صائب مشورہ ہے کہ عدلیہ ان سیاسی مقدمات سے الگ رہے اور مینڈیٹ کے مطابق ایسے مقدمات کا فیصلہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو کرنے دیا جائے۔
عوام کو عدلیہ کی توقیر عزیز ہے تو پارلیمان کی توقیر پر بھی عوام کسی قسم کا سودا کرنے کو تیار نہیں۔ گزشتہ ساڑھے چار سال سے تسلسل کے ساتھ مسلم لیگ ن کی منتخب حکومت کو مسائل سے دوچار رکھا جا رہا ہے ،جس سے ملک کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگتے چلے جا رہے ہیں۔
خدا را، اس عمل کو اب بند کیا جائے۔ حالیہ فیصلے نے پہلے سے لا تعداد مسائل میں گھرے ہوئے ملک اور پریشان حال قوم کو ایک نئی کشمکش کا شکار کر دیا گیا ہے، جو کسی بھی اعتبار سے لائق تحسین نہیں ہے۔
اس ضمن میںیہ بات بھی اہم ہے کہ 2014ء کے دھرنے کے دوران ریڈ زون میں ہنگامہ آرائی ، پی ٹی وی پر حملے اور ایس ایس پی اسلام آباد کو زخمی کرنے کے مقدمات میں معزز جج شاہ رخ ارجمند نے13جولائی 2017ء کو عمران خان اور طاہر القادری کی مسلسل غیر حاضری پر ان دونوں کی جائیدادیں قرق کرنے کا حکم جاری کیا تھا، لیکن اب تک ان دو افراد کی جائیدادیں قرق کرنے کے سلسلہ میں کوئی نمایاں پیش رفت دکھائی نہیں دے رہی ہے۔قوم میاں نواز شریف کے خلاف چستی اور عمران خان اور طاہر القادری کے خلاف سستی کی وجوہات بھی جاننا چاہتی ہے۔یہ تضادات ایک عوامی شکوہ بن کر سامنے آرہے ہیں، جو مساوی انصاف کی فراہمی پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے!!