تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... پانچویں قسط

تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... پانچویں قسط
تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... پانچویں قسط

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

خواجہ سرا فہیم ایوان کے دوسرے راستہ سے باہر نکل گیا ۔شاہزادی پیشوائی کو دلان سے نکلی ہی تھی کہ اورنگ زیب آگیا۔سیاہ تیزآنکھیں ،سیاہ کھنچے ہوئے ابرو،مہین لمبے نتھنوں پر کھڑی اونچی ناک ،سیاہ گھنی داڑھی ،تھکا ہوا مضبوط کسرتی جسم اور نکلتا ہوا قد۔ہر قدم سے احتیاط ٹپکتی ہوئی۔شاہ جہانی پگڑی پر عقاب زریں کا پر لگا ہوا۔سفید سوتی جامے پر شرعی پائجامہ اور چمڑے کی زرد پاپوش پہنے متانت و وقار کا مجسمہ بنا آہستہ آہستہ آرہا تھا۔شہزادگی کے التزامات میں صافے کے علاوہ صرف زمرد کے دستے کا ایک خنجر تھا جو سیاہ مخملیں پٹکے میں لگا ہوا تھا ۔شاہزادی سے نگاہ ملتے ہی اورنگزیب تسلیم کو جھکا ۔روشن آرا نے بڑھ کر اس کی پیٹھ پر ہاتھ رکھ دیا اور اپنے ساتھ ایوان میں لائی تخت پر بٹھا یا۔اپنے ہاتھ سے مسند لگائی اور خود اس کے پاس ہی چاندی کی تپاہی پر بیٹھ گئی۔ ایک مغلانی طلائی کشتی میں عطردان لے کر حاضر ہوئی ۔روشن آرا نے اپنے ہاتھ سے عطر لگایا اور خود ہی دعا دی۔
’’پروردگار !اورنگ زیب کے اقبال کی خوشبو سارے جہان میں پھیلا دے ۔‘‘
خواصوں نے آمین کہی ۔دوسری مغلانی چمکتے کپڑے اور کھنکتے زیور پہنے پن کی کشتی اٹھائے سامنے آئی ۔شہزادی نے اپنے ہاتھ سے گلوری عنایت کی ۔ اور نگ زیب نے تخت سے اٹھ کر سلام کیا اور گلوری منہ میں دبالی۔روشن آرا نے اشارہ کیا ،تخلیہ ہوگیا۔اورنگ زیب نے گردن آگے بڑھا کر آہستہ سے کہا۔
’’آپ نے بے وقت یاد فرمایا ۔‘‘

تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... چوتھی قسط پرھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’ہاں !شاہ برج میں وزیر اعظم بھی بے وقت بازیاب کئے گئے ۔‘‘
’’آج !‘‘
’’آج! اور اطلاع ملی ہے کہ پندھار کی دوسری مہم بھی ناکام ہوئی ۔‘‘
’’اناللہ وانا الیہ راجعون!‘‘
اورنگ زیب نے اس طرح کہا گویا یہ خبر اس نے ابھی سنی ہے ۔حالانکہ سعداللہ خاں ابھی شاہ برج سے نکلے بھی نہ تھے کہ وہ مطلع کردیا گیا تھا۔
’’اور لشکر آراستہ ہورہا ہے ۔داراشکوہ کو سپہ سالار بنایا جارہا ہے۔‘‘
’’تو پھر مغل اقبال کا خدا حافظ ہے۔‘‘
’’ہاں !جس سلطنت کا ولی عہد تفنگ سے شیر کا شکار کرنے کی خوشی میں جشن برپا کرتا ہو،اس سلطنت کا واقعی خدا حافظ ہے۔بادشاہ بیگم (جہاں آرا ) نے فرمایا آپ نے ولی عہد کو مبارک باد نہیں دی ۔ہم نے جواب دیا ۔دکن سے واپسی میں برہان پور سے دولت آباد تک دولت پناہ (اورنگ زیب ) نے پانچ شیر کھڑی سواری تلوار سے شکار کئے اور ہفتوں ذکر نہ کیا۔ان کے بڑے بھائی کو بندوق سے ایک شیر مار لینے پر کیا مبارک باد دیں؟‘‘
یہ سنتے ہی چہرہ بالکل آبِ رواں کی طرح سفید ہوگیا۔
جب اور نگ زیب چلنے کے لئے کھڑا ہوا اور کورنش کے لئے جھکا تو روشن آرا نے بازوؤں پر ہاتھ رکھ کر سیدھا کردیا اور مضبوط لہجے میں بولی۔
’’اورنگ زیب ! جو قندھار ’’ بے شکوہ ‘‘ (داراشکوہ ) کی روباہی چالوں کی وجہ سے تمہارے ہاتھ پر فتح نہ ہوسکا ،وہ قندھار اگر دارا کی تلوار نے زیر وزبر کردیا تو یاد رکھو کہ تخت طاؤس تمہارے قدموں سے اور دور ہوجائے گا ۔‘‘
اورنگ زیب نے تائید میں گردن ہلائی اور رخصت کے مراسم ادا کرکے ایوان سے باہر نکل گیا۔
شہنشاہ جھرو کے میں درشن کے لئے بیٹھ چکے تھے ۔نیچے جمنا کی ٹھنڈی ریتی پر ہزار ہا ہندو مرد عورتیں اور بچے مہابلی کا درشن کررہے تھے ۔دار اشکوہ اپنے ایوان میں تھا۔جس کے ستون چاندی کے کپڑے اور سونے کے زیور پہنے تھے ۔زرّیں پایوں کے چھپر کھٹ پر مرصع مسہری لگی تھی ۔حباب آساریشمی پردے پڑے تھے ۔سرہانے ادھ جلی شمعوں کے قدِ آدم شمع دان کے سائے میں سنہری رو پہلی تپائیوں ،پرویدوں ،اپنشدوں اور تصوف پر عربی وعجمی کتابوں کے آبِ زر سے لکھے ہوئے نسخے چُنے ہوئے تھے ۔ان کی سنہری جلدوں سے یاقوت ویشعب کی ’’نشانیاں ‘‘ جھانک رہی تھیں ۔صبح کے ستارے سے روشن کنیز جلد بدن کی طرح چست قبا پہنے تھی جس کے چنت دار دامن تنک پائجامے کی پنڈلیوں پر لرز رہے تھے اور وہ اپنے قد سے اونچا طاؤس بجا رہی تھی ۔جب راگ کے سُر بلند ہوئے تو دارا نے آنکھیں کھول دیں ۔کنیز نے طاؤس کو سنگ زر کی چوکی پر لٹادیا۔مجرا ادا کیا اور الٹے پیروں باہر چلی گئی ۔خواصوں کا ایک پرا داخل ہوا ۔مختلف رنگوں کے ریشمی کا مدار لہنگے اور چولیاں اور جالدار اوڑھنیاں صبح کی گلابی روشنی میں جگمگانے لگیں ۔فرشی قالین پر پا انداز بچھایا گیا ۔وہ طلائی سیلا بچی ،آفتابہ ،منجن دان اور بیس دان لے کر کھڑی ہوگئیں ۔وہ اسی طرح کروٹ لئے لیٹا رہا ۔جہانگیری طرز کے پٹے بکھرے ہوئے تھے ۔اکبری گیسوبگڑ گئے تھے۔اونچی کشادہ پیشانی آئینے کی طرح بے شکن تھی۔کانوں میں بڑے بڑے موتی جگمگارہے تھے۔سیاہ آنکھوں میں گلابی ڈوروں کا جال بچھا ہوا تھا ۔وہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔ خواصوں نے پردے الٹ دیئے ۔کسی نے پیروں میں پاپوش پہنا دی جس میں موتیوں کے گچھے ٹنکے ہوئے تھے ۔وہ تمام صورتوں سے بے نیاز ایوان سے نکل گیا ۔(جاری ہے )

تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... چھٹی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں