سیاست کا کھیل اور آدابِ حکمرانی

سیاست کا کھیل اور آدابِ حکمرانی
سیاست کا کھیل اور آدابِ حکمرانی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


کہنے والے کہتے ہیں کہ کھیل کھیل ہی ہے، بھلے سیاست کا ہو یا کرکٹ کا کچھ کا خیال ہے کہ کہنے والوں کی ہر بات ماننے والی نہیں ہوتی ”کچھ“ کی بات مان بھی لی جائے تو کہنے والوں کی ہر بات پھینکے جانے کے قابل بھی نہیں ہوتی۔ رَد یا قبول سے پہلے اس پر غور کرنا تو بنتا ہے۔ یہ کھیل والی بات بھی مکمل استرداد کی اہل نہیں۔ اس میں کچھ نہ کچھ بات تو ہے۔ اب دیکھیں ناں کرکٹ کے میدان میں اترنے والے کھلاڑی مختلف صلاحیتوں کے حامل ہوتے ہیں کچھ کو باؤلنگ آتی ہے توکچھ بیٹنگ میں ماہر ہوتے ہیں۔ باؤلنگ کرانے والوں میں کچھ تیز رفتاری سے نام کماتے ہیں تو کچھ گیند کو گھما کر کامیابی سمیٹتے ہیں۔ بلے بازوں میں بھی کچھ کور ڈرائیو کے لئے مشہور ہوتے ہیں تو کچھ ہک شارٹ بہت اچھی لگاتے ہیں۔ فیلڈنگ میں پھرتی اضافی خوبی ہوتی ہے جو آل راؤنڈر کو حقیقی آل راؤنڈر بناتی ہے۔ جو کسی بھی ٹیم کا حصہ بننے کی ضمانت بن جاتی ہے۔ کرکٹ کے کھلاڑیوں کی طرح سیاست کے کھلاڑی بھی اپنی اپنی خوبیاں رکھتے ہیں۔ کچھ بڑی بڑی چھوڑ کر سبز باغ دکھانے کو مہارت سمجھتے ہیں اور کچھ حقیقت پسندی کو اپنی پالیسی بناتے ہیں۔

کچھ قانون کے دائرے میں رہ کر پر امن جدوجہد کے قائل ہوتے ہیں اور کچھ ”ہرچہ باداباد“ پر مائل رہتے ہیں۔ سیاست کی منزل کرسی یا حکمرانی سمجھی جاتی ہے جو عموماً کڑی آزمائش ثابت ہوتی ہے۔ اس منزل تک پہنچنے والے حکمرانوں کی خصوصیات بھی الگ الگ ہوتی ہیں۔ کچھ میں اقتصادیات کی شد بد ہوتی ہے تو بعض کو تعمیرات کا خبط ہوتا ہے۔ کچھ جوڑ توڑ کے ماہر ہوتے ہیں تو بعض اچھے منتظم کی شہرت پاتے ہیں۔ کچھ کی ترجیح اندرونی امن و امان ہوتی ہے تو بعض خارجہ امور پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔ نظامِ سلطنت بھلے شہنشاہی ہو یا آمریت ہو، جمہوریت ہو یا شورائیت ہو، طرز انتخاب بھی بھلے براہ راست ہو یا بالواسطہ ہو حکمرانوں کی مہارتیں اسی طرح مختلف اور متنوع ہوتی ہیں۔ سیاست اور حکمرانی کے میدانوں میں مکمل آل راؤنڈرز نہیں پائے جاتے (الا ماشاء اللہ) یہ سپیشلائزیشن کا دور ہے۔ اسی لئے کابینہ بنائی جاتی ہے جس میں اپنے اپنے شعبے کے چوٹی کے ماہرین کو جمع کر کے کامیاب حکومت کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔ کھیل، تعلیم، صحت، معیشت، خارجہ اور داخلہ امور کے لئے با صلاحیت افراد کا انتخاب کیا جاتا ہے جو مملکت کو ہر ہر میدان میں آگے لے کر چلتے ہیں۔ اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل افراد کا انتخاب کھیل کے میدان میں کپتان اور سیاست کے میدان میں سربراہِ مملکت یا حکومت کی مردم شناسی کا امتحان ہوتا ہے۔


وطن عزیز میں یہ طرفہ تماشا ہے کہ ہر دور میں زبان زد خاص و عام یہ بات ہوتی ہے کہ کپتان تو اچھا ہے ٹیم کے کھلاڑی اچھے نہیں۔ حکمران تو عوام دوست اور باصلاحیت ہے، مگر کابینہ کے وزراء اس معیار کے نہیں ایوب خان ہو یا ذوالفقار علی بھٹو، نواز شریف حکمران تھے یا بینظیر بھٹو، پرویز مشرف برسر اقتدار تھے یا عمران خان وزیراعظم ہیں سبھی کے ادوار میں یہ جملہ سننے کو ملنا معمول رہا اور ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ”محبانِ شاہ“ یہ جملہ اپنے ممدوح کی بریت کے لئے ادا کرتے ہیں حالانکہ حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ رہنمائی کے منصب پر فائز ہونے والے کے اوصاف میں مردم شناسی بنیادی وصف ہے۔ اگر کسی میر کارواں میں مردم شناسی ہی نہ ہو تو وہ اس ملاح کی طرح ہے جسے چپو کی شناخت ہی نہیں جس طرح ناقص اور کمزور چپو کی وجہ سے کسی بھی وقت نیا بیچ منجھدار ڈوب سکتی ہے اسی طرح نا اہل میر کارواں پورے کارواں کی بربادی کا باعث ہو سکتا ہے۔ اس جملہ معترضہ کے بعد مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجئے کہ بلا شبہ موجودہ میر کارواں سخت محنت کر رہے ہیں۔ کابینہ اور اعلیٰ سطح کی کور کمیٹیوں کے جتنے اجلاس اس دور میں ہو رہے ہیں قبل ازیں کسی دور میں بھی نہیں دیکھے گئے۔حالانکہ ان اجلاسوں میں لذتِ کام و دہن کا کوئی اہتمام نہیں ہوتا۔


خارجہ محاذ پر کارکردگی بھی مثالی کہلا سکتی ہے۔ہمارے میر کارواں دنیا بھر میں مشہور ہی نہیں پسندیدہ شخصیت بھی ہیں۔ آرنلڈ شوازنیگر نے انہیں ”کلائمیٹ ایکشن ہیرو“ قرار دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے دورہئ پاکستان کے دوران مسئلہ کشمیر پر پاکستانی مؤقف کی واضح تائید کی خصوصاً اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہونے کا عندیہ دے کر ایک طرح سے طاق نسیاں میں پڑی قرار دادوں کو حیات تازہ عطا کردی۔ اسی طرح برطانوی ارکان پارلیمینٹ کے وفد نے بھارتی مظالم کو اجاگر کر کے کشمیریوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش کی جو بذاتِ خود پاکستانی مؤقف کی حمایت ہے۔ اسی طرح ترک صدر طیب اردوان، ملائشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد، امریکی صدارتی امیدوار جو بائیڈن سمیت کتنے ہی عالمی عمائدین عمران خان کی قیادت میں پاکستان کے مؤقف کی حمایت کر رہے ہیں۔ یہ ہمارے کپتان کی خارجہ محاذ پر کامیابیاں ہیں جو قابل ستائش ہیں مگر اندرون ملک کیا ہو رہا؟ یہ باعث تشویش ہے۔

بیرون ملک پاکستانی ہماری قیادت کے حامی تھے اور مطمئن ہیں مگر جن کے ووٹ کی پرچی اقتدار میں لانے اور برقرار رکھنے کا فیصلہ کرتی ہے وہ کروڑوں تو ملک کے اندر ہیں اور مطمئن قطعاً نہیں۔ اس کی وجہ معاشی و معاشرتی حالات ہیں جو موجودہ حکومت کے دور میں دگرگوں ہوتے جا رہے ہیں۔حکومت کے حلیف چودھری شجاعت کے بقول انہوں نے کپتان سے ملاقات میں نصیحت نما مشورہ دیا ہے کہ وہ چاپلوسوں، چغل خوروں اور منافقین کو نزدیک نہ آنے دیں۔ ان کے بقول انہوں نے یہی مشورہ نواز شریف کو بھی دیا تھا مگر انہوں نے عمل نہیں کیا اور نتیجہ سامنے ہے۔ یار لوگوں کا خیال ہے کہ چودھری صاحب کا مشورہ اب مانے جانے کی بھی کوئی ضمانت نہیں۔ حالانکہ اندرونی محاذ پر کامیابی کے لئے مخلص محنتی، دیانتدار اور با صلاحیت ٹیم ناگزیر ہے۔ ٹیم کے کھلاڑی تبدیل کرنا کپتان کا حق ہی نہیں وقت کی ضرورت بھی ہے۔

مزید :

رائے -کالم -