عوام کو ریلیف دینا ہو گا
سیانے کہتے ہیں کہ دیگ کا ایک دانہ چکھنے سے پوری دیگ کا پتہ لگ جاتا ہے کہ پکی ہے یا نہیں۔ آج ہم سمجھدار اور سیانے بڑے لوگوں کی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے ضمنی الیکشن کی دیگ کا ایک دانہ چکھ کر آئندہ ہونے والے عام انتخابات کا اندازہ لگاتے ہیں۔کیا یہ سچ ہے کہ روزبروز بڑھتی ہوئی مہنگائی اور آٹا، چینی، گیس،پٹرول اور بجلی کی آسمان کو چھوتی ہوئی قیمتیں، عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے دعوے غائب اور اب غریب کیا امیر آدمی بھی رو رہا ہے۔ روتے روتے ضمنی الیکشن میں عوام کو بھی موقع مل گیا اور انہوں نے اپنا غصہ ووٹ کی طاقت کے ذریعے نکال دیا۔دو صوبوں میں قومی اسمبلی کے دوحلقوں اور صوبائی اسمبلی کے دو حلقوں میں انتخاب ہوئے، جن میں سے ایک حلقہ این اے 75 سیالکوٹ کا فیصلہ ابھی ہونا باقی ہے۔حکمران جماعت کی جانب سے این اے 75کا ضمنی انتخاب جیتنے کے لئے ہر حربہ استعمال کیا گیا۔ یہاں تک کہ وزیراعظم کے معاون خصوصی عثمان ڈار نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے کر پولنگ ایجنٹ کی ذمہ داریاں لے لیں۔ ضمنی انتخاب میں فائرنگ بھی کی گئی اور دو قیمتی جانیں ضائع ہو گئیں۔تمام جماعتیں اپنی سیاست چمکا رہی ہیں۔ ایک دوسرے کے خلاف لفظی جنگ جاری ہے۔
حلقہ این اے 75 میں ضمنی انتخابات کی پولنگ کے بعد 20 پریذائیڈنگ افسران مبینہ طور پر غائب ہوگئے، جس پر مسلم لیگ (ن) نے مبینہ دھاندلی کے الزامات لگائے اور الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ 20 پولنگ سٹیشنز کے نتائج پر شبہ ہے لہٰذا مکمل انکوائری کے بغیر غیر حتمی نتیجہ جاری کرنا ممکن نہیں ہے اور یہ معاملہ انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کمزوری لگتی ہے۔ این اے 75کے نتائج اور پولنگ عملہ ”لاپتہ“ ہونے کے معاملے پر چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ معاملے کی اطلاع ملتے ہی رات گئے مسلسل آئی جی پنجاب،کمشنر گوجرانوالہ اور ڈی سی گوجرانوالہ سے رابطے کی کوشش کرتے رہے، لیکن رابطہ نہ ہوا۔ چیف سیکرٹری پنجاب سے رات تین بجے رابطہ ہوا اور ان کی جانب سے یقین دہانی کرائی گئی کہ گمشدہ افسران اور پولنگ بیگز کی تلاش کی جائے گی،اس رابطے کے بعد ان سے دوبارہ رابطہ ممکن نہ ہوا اور کئی گھنٹوں کے بعد تقریباً صبح چھ بجے پریذائیڈنگ افسران پولنگ بیگز کے ہمراہ حاضر ہوئے۔ای سی پی نے کہا کہ انتظامیہ کی جانب سے کوتاہی برتنے پر اور پولنگ میٹریل میں ردوبدل کی صورت میں متعلقہ افسران کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ضمنی انتخابات کے نتائج سے لگتا ہے کہ عوام حکمران جماعت سے نالاں ہیں۔
آئے روز آٹا، چینی، پٹرول، بجلی مہنگی کی گئی، عوام کو ریلیف دینے کے لئے کوئی اقدامات نہیں کئے گئے،صورت حال پاکستان تحریک انصاف کے لئے پریشان کن ہے۔صوبائی وزرا بھی حلقوں میں ڈیوٹیاں دیتے رہے۔ایک اطلاع کے مطابق وہاں سرکاری نوکریاں دینے کے اعلانات بھی ہوئے۔اب یہاں پر ایک سوال جنم لے رہا ہے کہ عام انتخابات میں کیا ہو گا؟ پوری دنیا میں الیکشن کروانا سول انتظامیہ کے ہی ذمہ ہوتا ہے۔ الزامات لگا نے کی بجائے سیاست دانوں کو اپنی کوتاہیاں دور کرنی چاہئیں،لیکن بدقسمتی سے ایسا کبھی نہیں ہوا۔ سیاست دان اگر عوام کو سہولیات فراہم کریں اور ترقیاتی کام کروائیں، انہیں ریلیف دیں توعوام پھر اپنا فیصلہ ان کے حق میں کرتے ہیں۔الیکشن کے دوران جماعتیں اپنے منشور کا اعلان کرتی ہیں۔پھر فیصلہ عوام نے کرنا ہوتا ہے اور عوامی مینڈیٹ کو تسلیم بھی کیا جانا چاہئے۔ابھی چند حلقوں میں اتنی تشویش ناک صورت حال ہے تو عام انتخابات میں کیا ہو گا۔موجودہ حکومت مہنگائی کے طوفان کو تھوڑا بہت بھی کنٹرول نہیں کرسکی غریب عوام کو تو دو وقت کی روٹی کی فکر ہی ستاتی رہتی ہے۔
اس وقت عمران خان کی ٹیم میں شامل کھلاڑی بھی سابق حکومتوں کا حصہ رہ چکے ہیں۔ پی ٹی آئی کے نظریاتی لوگ بھی ان سے ناراض ہیں کہ عمران خان نے غیر منتخب نمائندوں کو آگے کیا ہوا ہے۔کہا جاتا ہے کہ عمران خان کے پیچھے کسی کا ہاتھ ہے اور یہاں بھی فوج پر ہی الزامات لگائے گئے، لیکن فوج کے ترجمان نے واضح کر دیا کہ ان کا سیاست میں کوئی عمل دخل نہیں ہے۔سیاست دان اپنے معاملات خود دیکھیں اور اس میں فوج کو نہ گھسٹیں۔ مختلف سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے پر الزامات لگا رہی ہیں۔ہمیں یہاں یہ سوچنا ہو گا کہ سیاسی گند خود سیاست دانوں نے صاف کرنا ہے۔ گالی گلوچ کی سیاست کو ختم کرنا ہو گا اور صاف ستھری سیاست کو پروان چڑھانا ہو گا۔