آخر مسئلہ کیا ہے؟
ہماری کمزوریاں نمایاں ہو چکی ہیں سیاسی افراتفری بھی نمایاں ہے معاشی عدم استحکام بھی واضح ہے ہمہ گیر بے یقینی کی کیفیت طاری ہے نا امیدی اور نااتفاقی کا چلن عام ہے ہمارے پاس قدرتی ذرائع اور مادی وسائل کی کمی نہیں ہماری مجموعی قومی آمدنی کا حجم 300 ارب ڈالر کے برابر ہے یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے ہماری آبادی 200 ملین سے زائد نفوس پر مشتمل ہے،جس میں 56 فی صد نوجوان ہیں یہ بھی معمولی بات نہیں زرخیز زمین، پانچ بہتے دریا، نہری نظام آبپاشی، پانچ موسم، چمکتا دمکتا سورج،سمندر اور ساحل سمندر، گوادرجیسی قدرتی گہری بندرگاہ، رسیلے پھل، سبزیاں،دالیں، اناج وغیرہ، کن کن قدرتی عنایات کا ذکر کریں۔ 2010 میں تباہ کن سیلاب آیا تو لاکھوں ڈھور ڈنگر، مویشی، مرغیاں، جانور مر گئے لہلہاتے کھیت کھلیان تباہ و برباد ہو گئے لیکن ہمارے ملک میں کسی بھی شے کی قلت پیدا نہیں ہوئی۔ اناج، سبزیاں، گوشت، مکھن، انڈے، گھی ایسے ہی دستیاب رہا جیسے سیلاب سے پہلے تھا سیلاب کی وجہ سے اگلے سال ریکارڈ پیداوار ہوئی۔سبحان اللہ و تعالی۔ ہمارے ہاں بہت ساری بیماریاں بسیار خوری کے باعث ہوتی ہیں ہمارے ہاں لاکھوں شہریوں کا مسئلہ موٹاپا ہے۔ ایسی تمام مثبت باتوں کے باوجود معاشی عدم استحکام اگر ہے بے اطمینانی پائی جاتی ہے تو اس کی وجوہات تلاش کی جانی ضروری ہیں۔
بیرونی قرضوں کا بوجھ ناقابل برداشت حد تک بڑھ چکا ہے اور بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے 30جون 2020 میں ہمارے ذمہ 112.79 ارب ڈالر کا غیر ملکی قرضہ تھا جو دسمبر 2020 میں 115.76 ارب ڈالر تک جا پہنچا ہے۔ ہم نے جاری مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں 3.51 ارب ڈالر جبکہ دوسری سہ ماہی میں 3.55 ارب ڈالر قرض ادائیگیوں کی مد میں ادا کئے ہیں گویا نصف مالی سال میں عالمی قرضوں کی مد میں 7.06 ارب ڈالر کی ادائیگی کی جا چکی ہے یہ اعداد و شمار مرکزی بینک کے مہیا کردہ ہیں۔ چھ ماہ کے دوران 7 ارب ڈالر سے زائد کی ادائیگیاں سٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر سے تھوڑی زیادہ ہیں۔
جاری مالی سال کی دوسری دھائی میں 2.93 ارب ڈالر اصل زر کی مد میں جبکہ 617 ملین ڈالر سود کے حساب میں ادا کئے گئے جبکہ پہلی سہ ماہی میں 2.93 ارب ڈالر اصل زر کی مد میں ادا کئے گئے۔ ہمیں جاری مالی سال کے دوران غیر ملکی قرضوں کی مد میں 14.58 ارب ڈالر ادا کرنے پڑیں گے جبکہ ہمارے زرمبادلہ سٹیٹ بینک کے ذخائر 12.95 ارب ڈالر ہیں گویا ہمارے پاس قرض ادائیگی کی صلاحیت نہیں ہے۔ ہمارا اولین مسئلہ ڈالر کی معقول مقدار میں دستیابی ہے جسے ہم حل کرنے کے لئے کاوشیں کرتے رہے ہیں۔ہمارے پاس ڈالر کے حصول کے دو بڑے ذرائع ہیں ایک برآمدات اور دوسرا بیرون ملک پاکستانیوں کی طرف سے ترسیل زر۔
ہم نے برآمدات بڑھانے کی کاوشیں بھی کر دیکھی ہیں توانائی کی قیمت اور اسکی بلاتعطل سپلائی مسئلہ ہے بجلی اور گیس کی بڑھتی ہوئی قیمتیں مسئلہ ہے جبکہ انکی یقینی رسد اس سے بڑا مسئلہ ہے ان پٹس کی گھٹتی بڑھتی قیمتیں برآمد کنندگان کے لئے سوھانِ روح ہے عالمی منڈی میں مقابلے کی سکت میں کمی بھی ایک اہم ایشو ہے ان سب پربڑا حاوی مسئلہ کو رونا کے باعث عالمی مارکیٹوں میں طلب کی عدم موجودگی ہے اسلئے برآمدی آمدنی بڑھانے کی کاوشیں بھی بار آور ثابت نہیں ہو پار ہی ہیں۔ ترسیلات زر رواں مالی سال میں مستحکم ہیں۔ زرمبادلہ کا تیسرا ذریعہ بیرونی قرضے ہیں آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، لندن کلب، پیرس کلب وغیرہ ہم ان ذرائع سے قرضے حاصل کر کے معاملات کو پوائنٹ آف نو ریٹرن تک لیجانے سے روکتے رہے ہیں اور اب بھی یہی پالیسی چل رہی ہے اور بڑی مستعدی کے ساتھ چل رہی ہے لیکن قرض خواہ اداروں کی شرائط پر من و عن عمل کرتے کرتے ہماری معاشی حالت بگڑتی چلی جارہی ہے قدر زر میں کمی کے باعث مہنگائی کا فلڈ گیٹ کھل چکا ہے جس نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے اشیا ضروریہ کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ عام آدمی تو دور کی بات ہے متوسط طبقے کے لئے بھی پریشان کن صورت اختیار کر چکا ہے مہنگائی کے اس طوفان کے معاشرتی اثرات بھی مرتب ہو رہے ہیں نفسیاتی امراض اور چوری چکاری میں اضافہ ہو رہا ہے معاشرے کے سماجی تارپود بکھرتے ہوئے محسوس ہو رہے ہیں۔
اطلاعات ہیں کہ مالی سال 20-21 کے دوران اکھٹے ہونے والے محصولات کا 100 فی صد قرضوں کی ادائیگی کی مد میں چلا جائے گا اور ہمارے پاس ملکی مالی معاملات چلانے کے لیے کچھ نہیں بچے گا۔ یہ صورتحال انتہائی تشویش ناک ہے ہمارے ماہرین حل و عقد اس بارے میں کچھ بھی کہنے یا کرنے کے لئے تیار نظر نہیں آرہے ہیں حد تو یہ ہے کہ ہم نے اپنے معاشی معاملات قرض دینے والے ادارے کے تنخواہ دار کے سپر د کر رکھے ہیں وہ صاحب اپنے ادارے کے معاملات اور مفادات کے مطابق ہماری پالیسیاں ترتیب دیتے ہیں اور پھر انہیں ہم پر مسلط کر دیتے ہیں ہمارے حکمرانوں کو ان کی موجودگی کے باعث یہ سہولت ہے کہ ہمیں کچھ بھی کئے اور کہے سنے بغیر قرض کی قسطیں ملتی چلی جاتی ہیں اب حفیظ شیخ کو سینٹ میں منتخب کرانے کی ذمہ داری بھی لے لی گئی ہے تا کہ انہیں شیخ صاحب کے بارے میں اپوزیشن کی طرف سے غیر منتخب ہونے کا جو طعنہ سننا پڑتا تھا اس سے بھی جان چھوٹ جائے۔ حفیظ شیخ یوسف رضا گیلانی کی کیبنٹ میں بھی خدمات سر انجام دے چکے ہیں۔ اس سے پہلے اور اس سے بھی پہلے ایوب خان کے دور حکومت سے شروع ہونے والا ایسے افراد کی خدمات کا سلسلہ ھنو ز جاری ہے ہم بہترین اور وافر انسانی اور قدرتی وسائل رکھنے کے باوجود قرض خواہ اداروں کے محکوم چلے آرہے ہیں اور ھنوز یہ سلسلہ جاری ہے اس سلسلے کا خاتمہ ہوتا نظر نہیں آرہا۔ کم از کم مستقبل قریب میں۔