کیا گیلانی کے معاملے میں اسٹیبلشمنٹ غیر جانبدار ہے؟
سابق وزیر عظم سید یوسف رضا گیلانی سے آج کل دو سوال تواتر سے پوچھے جا رہے ہیں پہلا سوال جہانگیر ترین سے متعلق ہے کہ ان کی سپورٹ انہیں حاصل ہے یا نہیں اور دوسرا سوال کیا سینٹ الیکشن لڑنے کے لئے انہیں اسٹیبلشمنٹ نے گرین سگنل دیا ہے، ان دونوں سوالوں کا گیلانی صاحب بہت محتاط جواب دیتے ہیں مثلاً جہانگیر ترین کے بارے میں کہتے ہیں وہ میرے عزیز ضرور ہیں مگر الیکشن مہم نہیں چلا رہے اور اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے سوال پر وہ گول مول جواب دے کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ تاہم اب انہوں نے ایک ایسی بات کہہ دی ہے کہ حکومتی حلقوں کے خاص طور پر کان کھڑے ہو گئے ہوں گے۔ انہوں نے کہا ہے کہ سینٹ انتخابات کے حوالے سے اسٹیبلشمنٹ غیر جانبدار ہے۔
اب یہ سوال تو بنتا ہے کہ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کبھی غیر جانبدار (نیوٹرل) بھی ہوتی ہے وہ ہوتی ہے یا نہیں ہوتی، غیر جانبدار ہرگز نہیں ہوتی۔ وہ اپنے مہروں کی تلاش میں رہتی ہے بلکہ کہا جاتا ہے کہ وہ اگلے پانچ دس برس کے لئے بھی پلاننگ مکمل رکھتی ہے تاہم سید یوسف رضا گیلانی چونکہ ایک منجھے ہوئے کھلاڑی ہیں۔ گزشتہ چالیس برسوں سے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کام کر چکے ہیں سول و خاکی دور میں انہوں نے خود کو اسٹیبلشمنٹ کے لئے قابل قبول منوایا ہے اس لئے وہ جانتے ہیں کہ اگر سینٹ انتخابات میں ووٹروں کو اپنی طرف متوجہ کرنا ہے تو گول مول جواب ہی دیا جائے۔ اسٹیبلشمنٹ کی دوستی بھی اچھی نہیں اور دشمنی تو ہے ہی نقصان دہ، سو انہوں نے درمیانی راہ نکال کر اسٹیبلشمنٹ کو فی الوقت سینٹ اور خصوصاً اسلام آباد کی نشست کے معاملے میں غیر جانبدار قرار دیا ہے۔ اس میں خود اسٹیبلشمنٹ کے لئے بھی پیغام ہے کہ ہمیں اپنا دوست ہی سمجھا جائے۔
سرسری نظر میں سید یوسف رضا گیلانی کی یہ بات عمومی اور سادہ سی نظر آتی ہے۔ مگر غور کریں تو اس میں کئی راز افشا ہو جاتے ہیں۔ سید یوسف رضا گیلانی نے اسٹیبلشمنٹ کے نیوٹرل ہونے کی جب بات کی تو ان کے ساتھ مولانا فضل الرحمن کھڑے تھے۔ وہی مولانا فضل الرحمن جو گزرے ہوئے چند ہفتوں میں اسٹیبلشمنٹ کو یہ تنبیہ کرتے رہے ہیں کہ وہ اپنی پوزیشن واضح کرے، کس کے ساتھ کھڑی ہے مریم نواز ہو یا مولانا فضل الرحمن دونوں ہی وزیر اعظم عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ قرار دیتے رہے ہیں۔ سلیکٹرز اور سلیکٹڈ کی اصطلاحیں ایجاد کرنے والے کھل کر یہ کہتے آئے ہیں کہ عمران خان کو قوم پر مسلط کیا گیا۔ اس سے پہلے نوازشریف تو یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ ہماری لڑائی عمران خان سے ہے ہی نہیں ہم تو انہیں لانے والوں سے لڑ رہے ہیں اب یہ ہے وہ پس منظر، جس میں سید یوسف رضا گیلانی علی الاعلان کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہے۔ یعنی گیلانی صاحب نے ساری لڑائی ہی ختم کر دی۔ امیدوار وہ پی ڈی ایم کے ہیں، وہی پی ڈی ایم جو عمران خان کو ہٹانے کے لئے اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ ڈال رہی ہے۔ مگر دعویٰ ان کا یہ ہے کہ اس معاملے میں اسٹیبلشمنٹ غیر جانبدار ہے یعنی ایسا معاملہ جو حکومت کے گلے کی ہڈی بن گیا ہے۔
وہ سید یوسف رضا گیلانی کے نزدیک اسٹیبلشمنٹ کے لئے کوئی مسئلہ نہیں گیلانی صاحب کے معاملے میں پہلے ہی بہت انہونی ہو چکی ہے۔ انہیں مسلم لیگ (ن) نے بھی اپنی مکمل حمایت کا یقین دلا دیا ہے، حالانکہ ان پر نوازشریف ایک زمانے میں بہت زیادہ تنقید کر چکے ہیں۔ اب وہ بالواسطہ طور پر یہ دعویٰ بھی کر رہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ بھی ان کی مخالف نہیں حالانکہ پی ڈی ایم کی تحریک کے تناظر میں یہ بات خلافِ حقیقت نظر آتی ہے کیونکہ حکومت کو گرانے کی کوئی کوشش کم از کم اسٹیبلشمنٹ کے لئے فی الوقت قابل قبول نظر نہیں آتی۔
البتہ بعض ایسی باتیں ضرور رونما ہو رہی ہیں جو حکومت کے لئے کم از کم اسلام آباد کی سینٹ نشست کا ایک بڑا مسئلہ کھڑا کر سکتی ہیں مثلاً وزیر اعظم عمران خان پشاور گئے تو ارکانِ اسمبلی کی ایک قابلِ ذکر تعداد ان سے ملنے نہ آئی۔ جن میں قومی اسمبلی کے 19 ارکان بھی شامل تھے۔ اب اس بارے میں جو بھی وضاحتیں کی جائیں، لیکن وزیر اعظم کی موجودگی میں ارکانِ اسمبلی کا اس طرح غائب رہنا آسانی سے ہضم نہیں ہوتا۔ ابھی تو یہ دیکھنا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان پنجاب کے ارکانِ اسمبلی سے ملنے گورنر ہاؤس آتے ہیں تو حاضری کتنی رہتی ہے۔ بلوچستان اور سندھ کا معاملہ بھی خاصا پیچیدہ ہے سید یوسف رضا گیلانی کی یہ بات تو درست ہے کہ ان کی وجہ سے ارکانِ اسمبلی کو اہمیت ملی ہے۔ کوئی اور امیدوار ہوتا تو حکومت نے قومی اسمبلی کے ارکان پر کوئی توجہ نہیں دینی تھی۔ وہ کھڑے ہوئے ہیں تو قومی اسمبلی کے ارکان کی بھی سنی گئی ہے، وزیر اعظم اور تمام گورنرز انہیں راضی کرنے پر لگے ہوئے ہیں تحریک انصاف کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ اس میں تنظیم نام کی کوئی شے سرے سے موجود نہیں شہر شہر اس کی تنظیمیں ا ور ارکانِ ایک دوسرے کی جڑیں کاٹ رہے ہیں گروپ بندی عام ہے اور پارٹی سے زیادہ گروپ بندی کو اہمیت دی جاتی ہے۔
اس کا تازہ مظاہرہ نوشہرہ کے انتخابات میں ہوا جہاں گروپ بندی کے باعث تحریک انصاف اپنی ہی نشست ہار گئی ایسے حالات میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ اگر عمران خان اس بات پر بہت زور دے رہے ہیں کہ سینٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے ہونے چاہئیں تو اس کے پیچھے چاہے اور بھی کچھ ہو یہ خوف بہر طور موجود ہے کہ ارکان بغاوت بھی کر سکتے ہیں۔ یہ خیال اب رفتہ رفتہ دم توڑ رہا ہے کہ تحریک انصاف پر عمران خان کی مضبوط گرفت ہے۔ گروپ بندی نے پارٹی کو مفادات کی بھینٹ چڑھا دیا ہے اور عمران خان کچھ کر نہیں پا رہے۔
پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کبھی غیر جانبدار نہیں ہوتی، اس کے اہداف ہر وقت موجود رہتے ہیں ابھی پاکستان میں ایسے حالات پیدا نہیں ہوئے کہ اسٹیبلشمنٹ اپنی گرفت ڈھیلی کر دے اسے اپنی گرفت مضبوط رکھنی ہے اور یہ ایسی حقیقت ہے جسے جھٹلانا حقائق سے نظریں چرانے کے مترادف ہے۔ اسلام آباد کی سینٹ نشست کا الیکشن اس حوالے سے ایک بیرومیٹر ثابت ہوگا۔ اگر اس پر سید یوسف رضا گیلانی اپ سیٹ کرنے میں کامیاب رہتے ہیں تو سمجھا جائے گا اسٹیبلشمنٹ نے حکومت پر سے ہاتھ اٹھا لیا ہے، اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر پی ڈی ایم کو یہ جان لینا چاہئے کہ اس کی تحریک اس کا لانگ مارچ، اس کا دھرنا بے وقت کی راگنی ہے۔ عمران خان ان سب کا سامنا کرتے ہوئے وزارتِ عظمیٰ پر براجمان رہیں گے اور آئینی مدت پوری کریں گے۔ تاہم اس سارے عمل میں سید یوسف رضا گیلانی ایک بڑے سیاسی کردار کی شکل میں ابھریں گے۔ وہ ہار بھی گئے تو یہ ثبوت چھوڑ جائیں گے کہ ان کی شخصیت میں اتنا دم خم ہے کہ سامنے آئے تو ٹھہرے ہوئے پانی میں ایک طوفانی ارتعاش پیدا کر دے۔ ملتانی مخدوم نے یہ چال سوچ سمجھ کر چلی ہے اور ایک بار پھر اس تاثر کو قائم کرنے میں کامیاب رہے ہیں کہ سیاسی قوتوں کے متفقہ امیدوار آج بھی وہی ہیں۔