وفاقی دارالحکومت، سینیٹ الیکشن کا میدان سجنے والا

وفاقی دارالحکومت، سینیٹ الیکشن کا میدان سجنے والا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 نوٹوں اور بریف کیسوں کی باتیں، یوسف رضا گیلانی کی نامزدگی ترپ چال 

اسلام آباد سے سہیل چودھری
تلاطم  خیز ملکی سیاست کے ماحول میں ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار کی میڈیا بریفنگ غیر معمولی اہمیت کی حامل تھی، ان کی پریس کانفرنس کا محور آپریشن ردالفساد تھا کیونکہ اس آپریشن کو شروع ہوئے 4سال مکمل ہو چکے ہیں اور ملک و قوم اس آپریشن کی روح اور مقصد کے عین مطابق بے پناہ ثمرات سے بہرہ ور ہو رہی ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے ہر پاکستانی کو آپریشن ردالفساد کا سپاہی قرار دیا یہ آپریشن درحقیقت ماضی کے تمام سیکیورٹی آپریشنز سے مختلف نوعیت کا تھا اور اس کا دائرہ کار پورے ملک پر پھیلا ہوا ہے۔ سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے دور میں جب دہشت گردی اپنے عروج پر تھی تو اس کے خاتمے کے لئے آپریشن ضرب عضب شروع کیا گیا اور دہشت گردوں کے ملک میں بڑے نیٹ ورک اور انفراسٹرکچر کا خاتمہ کر دیا گیا لیکن آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ نے دہشت گردی کے طویل آسیب میں گرفتار ملک میں زندگی کو معمول پر لانے اور شہریوں کو دہشت گردی کے نفسیاتی خوف سے باہر لانے کی غرض سے آپریشن ردالفساد کا آغاز کی گیا جس میں ساتھ ساتھ دہشت گردی کے اکا دکا واقعات اور اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی حکمت عملی بھی شامل تھی۔ آپریشن ردالفساد میں دہشت گردی کے ساتھ ساتھ انتہا پسندی کی بیخ کنی کا بھی اہتمام کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس آپریشن کے تحت نہ صرف 3لاکھ 75ہزار حرکیاتی آپریشن کئے گئے بلکہ ساتھ ساتھ قبائلی علاقوں میں قانون کی عمل داری کرکے انہیں قومی دھارے میں شامل کیا گیا تاکہ قبائلی علاقوں میں بسنے والے شہریوں کو بھی وہ تمام حقوق اور مواقع میسر ہوں جو ملک کے باقی علاقوں میں بسنے والے شہریوں کو حاصل ہیں، اسی آپریشن کی روح کے مطابق پاک افغان اور پاک ایران بارڈروں پر باڑ کی تنصیب کی جا رہی ہے تاکہ بارڈر سے پار دہشت گردی اور سمگلنگ کی روک تھام کی جا سکے۔ پاک افغان بارڈر پر ٹرانزٹ ٹریڈ کو شفاف بنانے کی غرض سے ایک جدید میکانزم متعارف کرایا جا رہا ہے اس کی نگرانی وزارت داخلہ کے ماتحت بارڈر مینجمنٹ ڈویژن کر رہا ہے۔ جبکہ ماضی میں جن علاقوں میں دہشت گردوں نے اپنے نیٹ ورکس قائم کر رکھے تھے وہاں سے 48بارودی سرنگوں کا خاتمہ بھی ایک اہم سنگ میل ہے۔ جن علاقوں میں فوجی آپریشن ہوئے، وہاں پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تربیت کی جا رہی ہے۔ ایف اے ٹی ایف کی سفارشات کی روشنی میں دہشت گردوں کے اثاثہ جات منجمد کئے جا رہے ہیں۔ سب سے اہم ترین کام انتہا پسندوں کی ذہنی بحالی کے لئے اہم اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ 5ہزار انتہا پسند شہریوں کی بحالی کا کام مکمل کر لیا گیا ہے۔ 
ڈی جی آئی ایس آر نے بریفنگ میں آپریشن ردالفساد کے ثمرات گنوائے تاہم انہوں نے ڈی جی آئی ایس آئی کی تبدیلی کے حوالے سے سوشل میڈیا پر چلنے والی قیاس آرائیوں کی سختی سے تردید کی۔ انہوں نے اس ضمن میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ لیفٹیننٹ جنرل آصف غفور کے حوالے سے چلنے والی قیاس آرائیوں میں کوئی وزن نہیں یعنی اس اہم عہدے کی تعیناتی کے حوالے سے تاحال کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا تاہم انہوں نے موجودہ ڈی جی آئی ایس آئی کی تبدیلی کے حوالے سے واضح کیا کہ فوج میں ان اہم عہدوں پر افسر اپنی مدت پوری کرتے ہیں اس سے یہی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل آصف غفور کو اس عہدہ پر تعینات کرنے کے لئے کوئی فیصلہ نہیں ہوا لیکن موجودہ ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید جون تک اپنی مدت پوری کریں گے۔ درحقیقت ڈی جی آئی ایس پی آر نے اس حوالے سے چلنے والی تمام قیاس آرائیوں کو دوٹوک انداز میں ختم کر دیا۔ کیونکہ وفاقی دارالحکومت پہلے ہی سے سیاسی بے یقینی کے سامنے چھائے ہوئے ہیں۔ ڈی جی  آئی ایس پی آر نے شاید اس ضمن میں محتاط طرز عمل اپناتے ہوئے آلودہ ملکی سیاست پر تبصرہ سے گریز کیا۔ میجر جنرل بابر افتخار نے یہ خوشخبری بھی سنائی کہ کراچی شہر جو جرائم کے لحاظ سے دنیا میں 86نمبر کا بلند درجہ اختیار کر گیا تھا اب 106نمبرپر آگیا ہے۔ انہوں نے ٹیررازم سے ٹورازم تک کے کٹھن سفر کی روداد بیان کی۔ انہوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ اس سال یوم پاکستان 23مارچ کی پریڈ نہایت تزک احتشام کے ساتھ ”ایک قوم ایک منزل“ کے نعرہ سے منعقد کی جائے گی۔ 
ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس سے ایک بات واضح طور پر مترشح تھی وہ ملک میں جاری سیاسی محاذ آرائی اور کشیدگی میں حصہ نہیں ڈالنا چاہتے تھے تاکہ آپریشن ردالفساد کی کامیابی کی کہانی گہنا نہ جائے کیونکہ دوسری جانب ضمنی الیکشن نے ڈھول کا پول کھول دیا۔ ڈسکہ کی ایک رات کی کہانی اپنے اندر ہزار داستانیں سموئے ہوئے ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان ملکی انتخابات کی تاریخ کے اس اہم ترین قضیے کو کیسے سمیٹتا ہے۔ مستقبل کی سیاست کے مدوجزر کا اسی پر انحصار ہے۔ تمام فریقین ڈھٹائی سے کام لے رہے ہیں لیکن پاکستان تحریک انصاف کی جدوجہد ایسی ہی ناانصافیوں کے خلاف عبارت ہے۔ لیکن اب ان کے اپنے دور حکومت میں ایسے واقعات کی مبینہ سرپرستی ایک لمحہ فکریہ ہے۔ وفاقی دارالحکومت میں ضمنی الیکشن کے اس اہم ترین تنازعے کے ساتھ ساتھ سینٹ انتخابات کے لئے میدان سج رہا ہے۔ نوٹوں اور بریف کیسوں کی باتیں سنائی دے رہی ہیں۔ پی ڈی ایم نے اسلام آباد سے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو نامزد کرکے ترپ چال چلی ہے۔حکومتی صفوں میں اضراب کے اثرات نمایاں نظر آ رہے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی شعلہ بیان لیڈر مریم نواز بھی وفاقی دارالحکومت میں ڈیرے ڈالنے والی ہیں۔ ایک بڑا جوڑ پڑنے والا ہے۔ملکی سیاست میں گہری تقسیم کے اثرات ایوان عدل میں بھی پڑتے دکھائی دیتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان سیاسی دباؤ سے نکل کر سری لنکا کے دو روزہ دورے پر ہیں۔ یہ خطے میں اہم تبدیلیوں کے حوالے سے نہایت اہم ہے لیکن انہیں وطن واپسی پر پھر پہلے سے زیادہ غصیلی اپوزیشن کا سامنا کرنا ہوگا۔

مزید :

ایڈیشن 1 -