"پاکستان کا قومی ہیرو۔۔۔پہاڑوں کا بیٹا"
تحریر:رابعہ راحیل
جو رُکے تو کوہ گراں تھے ہم جو چلے تو جاں سے گزر گۓ
رہ یار ہم نے قدم قدم تجھے یادگار بنا دیا
مُسکراتا ہوا چہرہ، پُرعزم خیالات ، باوقار اور نڈر شخصیت، دوسروں کے لیے جان پر کھیل کر مدد کرنے والا قومی ہیرو محمد علی سد پارہ جو پاکستان کے سبز جھنڈے کا نام روشن کرنے کا عزم اور پہاڑوں کا عشق لیے پہاڑوں کی نذرہوگۓ مگر دُنیا کو جاتے جاتے یہ پیغام دے گۓ کہ پاکستانی قوم کِسی سے کم نہیں۔
45 سالہ مُحمد علی سد پارہ 2 فروری 1976 ء میں سکردو میں پیدا ہوۓ۔ سد پارہ نام سے ایک مشہور جھیل ہے جس سے اُنسیت کی وجہ سے وہ اپنے نام کے ساتھ سد پارہ لکھتے تھے۔ اِن کا تعلق ایک غریب خاندان سے تھا۔ اِنہیں پہاڑوں سے عشق تھا۔ بلند و بالا پہاڑوں کی چوٹیوں کو سر کرنے کے جنون نے انہیں کھیتی باڑی ، مویشی سنبھالنے سے پورٹر اور پھر کوہ پیمائی کا سفر طے کروا دیا۔
مُحمد علی سد پارہ وہ واحد پاکستانی کوہ پیما ہیں جنھیں 8 ہزار میڑ سے زائد 14 بلند چوٹیوں میں سے 8 چوٹیاں سر کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔
وسائل کی کمی ہونے کی وجہ سے محمد علی سد پارہ نے اپنے کیریئر کا آغاز بطور "پورٹر" کیا۔
محمد علی سد پارہ غیر ملکی کوہ پیماؤں کے ساتھ بلندیوں پر جاکر پہاڑوں کو سر کرنے میں اُن کی مدد کرتے ۔ اُنھوں نے دنیا کے کئی بڑے تاریخ ساز کوہ پیماؤں کے بلند و بالا چوٹیاں سر کرنے کے دوران رسیاں باندھ کر جان پر کھیل کر راستہ بنایا اور پاکستانی فوج کو بحیثیت پورٹر سیاچین میں سازوسامان پہنچانے کے لئے بھی خدمات انجام دیں- یہ تاریخ کے وہ کوہ پیما تھے جنھوں نے بلند وبالا چوٹیوں کو بغیر آکسیجن کے سر کیا۔
محمد علی سد پارہ ایک جوش و جذبہ رکھنے والے اِنسان تھے۔جنھوں نے 2004 ء میں پہلی بار کے ٹو سر کرنے کی مہم میں حصہ لیا۔2015 ء میں سردیوں کی مہم میں نانگا پربت غیر ملکی کوہ پیما ساتھیوں کے ساتھ سر نہ ہونے پر مایوس ہونے کی بجاۓ اگلے ہی سال 2016 ء میں ایک بار پھر نۓ عزم کے ساتھ اپنی خواہش کو تکمیل تک پہنچاتے ہوۓ پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کیا۔ علی سد پارہ کو نانگا پربت کی چوٹی کو چار بار سرکرنے کا اعزاز حاصل ہے۔
محمدعلی سد پارہ ایک شفیق اور خوش مزاج اِنسان تھے۔ اُن کے بیٹے کے مطابق
"میرے ابو صبر اور حوصلے کا پہاڑ تھے۔ ہر مہم پر جانے سے پہلے ہنستے مسکراتے مِل کر جاتے اور (والدہ اور ہم بچوں سے) کہا کرتے تھے کہ سب ٹھیک ہوگا بس ہم لوگوں کو پریشان نہیں ہونا بلکہ ہر صورتحال کا مقابلہ کرنا ہے۔ اُن کے بیٹے مظاہر حسین کے مطابق اُنھوں نے والد کو ہمیشہ مسکراتے دیکھا۔ وہ خود تو کوہِ پیمائی کے عشق میں مبتلا تھے اور کوہِ پیمائی اِن کا جنون تھا لیکن بچوں کو پڑھانے پر ترجیح دینے کی نصیحت کرتے۔
اُن کے اُستاد اُن کے چچا حسن سد پارہ تھے۔ جو اُنھیں ہمیشہ نصیحت کرتے کہ پہاڑوں میں چھوٹی سی غلطی بھی بڑی بن جاتی ہے۔ اس لئے احتیاط کرنا اور وہ ہمیشہ محتاط رہتے ۔علی سد پارہ کو 21 جولائی 2018 ء میں کے ٹو سر کرنے کا اعزاز بھی حاصِل کرچکے ہیں۔
اُنھوں نے 2018 ء میں کوہ پیما الیکسن ٹیکسون کے ہمراہ دُنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ بغیر اکسیجن سر کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔
5 فروری 2021 ء میں کے ٹو دُنیا کی بلند ترین چوٹی کو آئس لینڈ کے جان سنوری اور چلی کے ہوان پا بلوموہر کے ہمراہ سردیوں میں سر کرنے کی کوشش میں لاپتہ ہوگئے۔ وہ کے ٹو چوٹی سر کرنے کے آخری مراحل میں داخل ہوچکے تھے۔
اُن کے بیٹے ساجد سد پارہ بھی اِس مہم کا حصہ رہے لیکن آکسیجن ریگولیٹر لیک ہونے کے باعث والد کے ساتھ آگے نا جاسکے۔
18 فروری کو محمد علی سد پارہ کے بیٹے ساجد علی سدپارہ نے اُن کے دنیا سے رُخصت ہونے کی تصدیق کر دی جو کِسی حادثے کے نتیجے میں ہوا۔
پاکستانی قوم ایک عظیم بہادر اور مہارت سے بھرپور کوہِ پیماسے محروم ہوئے۔ محمد علی سد پارہ کو پاکستانی سبز جھنڈے سے بہت محبت تھی اور اُنھوں نے عالمی سطح پر پاکستان کا نام روشن کیا۔
اُن کا کے ٹو سردیوں میں سر کرنے کا عزم اور خواب کی وجہ پاکستان کا نام روشن کرنا اور اپنے گاؤں سد پارہ میں ایک
Climbing & Mountain Training School بنانا تھا- جس کی تکمیل کا وعدہ اُن کو خراجِ تحسین پہنچانے کے لئے مشہور سنگر ابرار الحق نے کیا۔
محمد علی سد پارہ ہمارے قومی ہیرو ہیں اور ہمیں اپنے قومی ہیرو کی کاوشوں پر فخر ہے۔
نہیں تیرا نشیمن قصرِ سُلطانی کے گنبد پر
تُو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر