معاشرہ کس سمت جا رہا ہے ؟؟
سوال کس پہ اٹھایا جائے ، کیوں اور کیسے اٹھایا جائے ؟ شہرِ لاہور میں ہونے والے حالیہ واقعے سے بہت سے سوال اٹھتے ہیں مگر سرا کہاں سے پکڑا جائے اور بات کس سمت لے کے جائی جائے؟ نوجوان نسل پہ بات کی جائے یا خصوصی طور پہ کسی ایک صنف پہ؟؟؟گزشتہ ہفتے لاہور کے ایک ہسپتال سے ایک لڑکی کی لاش ملی ، پُراسرار واقعہ سمجھا جانے لگا ، ذرا غور کیا جائے تو اکثر ہسپتال میں، یا کسی کوڑے کے ڈھیر پہ یا پھر ایدھی کے جھولے میں کسی نومولود کی اطلاع ملتی تھی۔ جانچنے پر معلوم ہوتا تھا کہ سانسیں چل رہی ہیں یا نہیں ؟؟۔۔
اس افسوسناک واقعے میں ایک لڑکی جس کی عمر 17یا 18 برس بتائی جا رہی ہے ، کی لاش ملی۔۔۔ زیادہ وقت نہیں لگا اور جلد ہی معلوم ہو گیا کہ موت کی وجہ کیا تھی اور لاش چھوڑ کر جانے والا کون تھا ؟ یہاں تک تو ٹھیک ، واقعہ ہوا، رپورٹ بھی ہوا اور مزید تفتیش جاری ہے مگر یہاں ہم بات کریں گے اس واقعے کے بعد ہونے والے ردِ عمل کی ۔۔۔ ہم جس معاشرے کا حصہ ہیں وہاں لوگوں کی تقسیم اگر وقت کی بنیاد پر کی جائے تو ایک وہ لوگ ہوں گے جو مصروف شیڈول کے حامل ہوں گے جو خبر سُن کے یا تو افسوس کا اظہار کر دیں گے اور پھر سے مصروف ہو جائیں گے۔۔ ۔ دوسرے وہ ہوں گے جن کے پاس کرنے کو تو کچھ خاص نہ ہو گا مگر تھڑوں ، سڑکوں اور گلی میں بیٹھے تبصرہ ضرور کریں گے۔۔۔ جس میں موردِ الزام لڑکی کو ٹھہرائیں گے اور ساتھ لمبی تقریر کر ڈالیں گے کہ بچی نے ماں باپ کی عزت کی پرواہ نہیں کی یا بچیوں کا زیادہ نہیں پڑھانا چاہیئے،جلد ہی شادی کر دینی چاہئے ورنہ یہ کچھ ہوتا ہے ۔۔۔
باقی میری نظر میں بچتے ہیں فیس بُک کے تبصرہ نگار جو کہ لبرل ہونے کی کوشش اور توازن قائم رکھنے کی کوشش میں میانہ روی کا مظاہرہ کرتے ہوئے لڑکے اور لڑکی دونوں کو ذمہ دار ٹھہرائیں گے اور رئیل مین ہونے کا ثبوت دیتے ہوئےاپنے جیسے اپنے ساتھیوں کی ذرا کھچائی بھی کر لیں گے مگر بات یہ ہے کہ کب تک تبصروں میں بات کو گھمایا جائے گا؟؟؟کیا اس قتل کو بھی خبروں کی زینت بنا کر چھوڑ دیا جائے گا ؟؟؟ جہاں جرم ہوتا ہے سزا تو ہوتی ہے مگر سزا کے ساتھ ساتھ معاشرے میں بہتری کے لئے آگاہی مہم بھی ہوتی ہے۔۔۔۔
جرم سے نفرت کرنی ہے تو مجرم کو سکھانا ہے ، سدھارنا ہے مگر بد قسمتی سے ہمارے معاشرے میں ہم نے اصلاح کی گنجائش نہیں چھوڑی اور معاشرہ تنزلی کی جانب بڑھتا گیا۔۔۔ جب بچے بچیاں سکول و کالج جاتے ہیں تو ان کی شخصیت میں ایک خلاء رونما ہوتا ہے جس کی وجہ ایک ماہرِ نفسیات کی تھیوری بھی ہے جس میں شخصیت میں تضاد" آئیڈیل سیلف اور رئیل سلیف "میں فرق کی وجہ ہے۔۔۔ یہ تضاد ایسی مثال قائم کرتا ہے کہ کوا چلا ہنس کی چال اور اپنی چال بھی بھول گیا۔۔۔
ایسے واقعات کا ذمہ دار کس بات کو ٹھہرائیں گے ؟ ؟؟دین سے دُوری ؟ جی نہیں ۔۔۔ تاریخ اٹھائی جائے بلکہ اخبارات کا مطالعہ کیا جائے یا حال ہی میں ایک لیک ہونے والی وڈیو کو دیکھا جائے تو دین سے دوری وجہ نہیں۔۔۔۔ ایسے واقعات میں ملوث لوگ کسی مدرسے کے بھی ہوسکتے ہیں اور کسی پاکیزہ جگہ کے بھی ۔۔۔ وقت پر شادی کو دیکھا جائے تو جی نہیں ؟ وقت پر شادی کرتے کرتے بعض اوقات غلط وقت پر کر دیتے ہیں جس کا نتیجہ اخبارات اور خبروں میں ہمیں نظر آتا ہے ۔۔۔ حل ۔۔ آگاہی ہے۔۔۔ بچے بچیوں کو صحیح اور غلط میں فرق بتایا جائے۔۔۔ ان کو ان کی حدود بنانے اور اس میں رہنا سکھایا جائے جس میں جبراً کچھ نہ ہو ۔۔۔۔ عملی طور پہ ان کی تربیت میں اس چیز کو شامل کیا جائے کہ وہ جو ہیں جیسے ہیں، اپنے ساتھ خوش رہیں نہ کہ رنگین دنیا کو آئیڈیالایز کرتے کرتے اپنی دنیا ہی کھو بیٹھیں۔ ۔۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔