مذہب کا غلط استعمال کیوں؟

مذہب کا غلط استعمال کیوں؟
مذہب کا غلط استعمال کیوں؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


”وہ جو خواب تھے میرے زہن میں 
نہ میں کہہ سکا نہ میں لکھ سکا“
سب سے پہلے تو اپنے قارئین کو یہ بتاتا چلوں کہ میرا یہ کالم جو اس وقت آپ پڑھ رہے ہیں وہ کالم نہیں ہے جو اس موضوع پر لکھنا چاہتا تھا کہ ”اس فضا میں تو فرشتوں کے بھی پر جلتے ہیں“تو پھر ہما شما کس کھاتے میں۔ اصل کالم تو تقریباًلکھ چکا تھا لیکن دوستوں نے سمجھایا کہ موجودہ نازک حالات کا تقاضہ ہے کہ کسی سے بحث نہ کریں اگر کوئی کہے کہ ہاتھی اڑتا ہے تو فوراًاس کی ہاں میں ہاں ملا دیں کہ اسی میں جان کی امان ہے، لہٰذا  یہ میری پوری زندگی کا سب سے محتاط کالم ہے مگر پھر بھی اپنی افتاد طبع کے ہاتھوں مجبور ہو کر جان کی امان پاؤں تو عرض کروں سے آغاز کرتے ہوئے کچھ گذارشات پیش کر رہا ہوں۔بات یہ ہے کہ گذشتہ کئی سالوں سے مذہب کا لبادہ اوڑھ کر جو عناصر وطن عزیز کی اینٹ سے اینٹ بجاتے رہے ہیں ان سے توہرگز ہرگز امید نہیں کی جا سکتی کہ وہ راہ راست پر آجائیں ہاں، البتہ ریاست اور ریاستی اداروں میں سے کوئی ہماری بات سننا چاہتا ہے تو عرض کئے دیتے ہیں پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمارے سیاست دانوں اور ریاستی اداروں کومذہب کے نام پر پے در پے ہونے والے سانحہ سیالکوٹ اور سانحہ خانیوال جیسے واقعات سے سبق سیکھنا چاہئے اور ہمیشہ کے لئے توبہ کر لینی چاہئے کہ آئندہ ایسے کسی لشکر کی پشت پناہی نہیں کی جائے گی حکومت چاہے کسی کی بھی ہو غیر ریاستی عناصر کو کھلی چھوٹ نہیں دی جائے گی،بلکہ ان کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نپٹا جائے گا۔


دوسری گزارش ہماری حکومت سے ہے کہ اب آپ کو اقتدار میں آئے چار برس ہونے کو ہیں خان صاحب خدارا یقین کر لیجیے کہ آپ اس ملک کے وزیراعظم ہیں اور اس ناتے آپ کی یہ زمہ داری ہے کہ ریاست کی حاکمیت کو ہر صورت قائم رکھا جائے کسی گروہ کے ہاتھوں چاہے وہ جیسا بھی مذہبی چورن بیچ رہا ہو ہرگز بلیک میل نہ ہوں یاد رکھیے جب ریاست مختلف جتھوں کے سامنے کمزور پڑتی ہے تو قانون اپنی موت آپ مر جاتا ہے انصاف کی کو نپلیں کمزور معاشروں میں نہیں کھلا کرتیں عدل کے بیج وحشت زدہ ماحول میں برگ وبارنہیں لا سکتے۔ کمزوری ہزار خرابیوں کی موجب بنتی ہے جو آخر کار زوال کی طرف لے جاتی ہے خدارا اپنی کشتی کے پتوار اپنے ہاتھوں میں رکھیں زیادہ نہ سہی تھوڑی بہت ہی مردم شناسی سیکھ جائیں کہ اسی میں آپ کا اور وطن عزیز کا بھلا ہے کمزوری چاہے ذاتی نوعیت کی ہو یا ادارہ جاتی آخر کار عبرت کی مثال بنا دیتی ہے جب ایک بار کسی جتھے کے سامنے سر نگوں ہوجائیں تو پھر چہار عالم شور مچ جاتا ہے توگِدھوں کے غول آپ پر جھپٹنے لگتے ہیں سب کو معلوم ہے کہ موجودہ اندوہناک صورت حال کا آغاز کب ہوا ہماری موجودہ کیفیت کا زمہ دار کوئی ایک ادارہ یا گروہ نہیں پوری کی پوری قوم اس گناہ میں شریک ہے ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ جب پہلی بار توہین مذہب کے نام پر کسی پاکستانی کا قتل ہوا تھا اسی وقت پوری ریاست اور تمام ریاستی اداروں کو حرکت میں آ جانا چاہئے تھا پوری سوسائٹی کو عملی طور پر اس قسم کی سفاکیت اور قانون شکنی پر اٹھ کھڑا ہونا چاہئے تھا، لیکن افسوس کہ یہاں تو ایسے واقعات کو گلوریفائی کیا جاتا ہے قاتلوں کے بارے میں طرح طرح کے افسانے تراشے جاتے ہیں جھوٹے خواب سنا کر عوام کا لہو گرما کر قاتلوں کو ولی کامل ثابت کیا جاتا ہے جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے چند دن کے بعد پھر سے توہین مذہب کے نا م پر قتل گاہ سجا کر جنت کمانے کا اہتمام کیا جاتا ہے حسب ِ عادت حکومت بیان دیتی ہے کہ کسی کوقانون ہاتھ میں لینے کی اجازت ہرگز نہیں دی جائے گی بندہ پوچھے آپ سے اجازت مانگ کون رہا ہے آپ نے تو خود چند ماہ قبل ایک انتہا پسند تنظیم جس کو آپ نے کالعدم قرار دیا تھا اس کے سامنے سر نگوں کر لیا۔اس تنظیم نے ریاستی اداروں کے اہلکاروں پر تشدد کیا قتل کیا لیکن آفریں ہے کہ ہماری حکومت نے ان کے دباؤ میں آکر انہیں نا صرف رہا کر دیا بلکہ تمام تر پابندیاں اٹھا کر ان کی کالعدمی بھی ختم کر دی،  

جس سے لا محالہ ان کے حوصلے بڑھ گئے کہ ہم کچھ بھی کر لیں ہمارا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔پاکستان میں توہین مذہب کے نام پر1947ء سے لے کر75 برسوں میں آج تک 1415 الزامات رپورٹ ہوئے، ہجوم کے ہاتھوں 91 افراد قتل ہوئے جس میں 73مرد اور 18 عورتیں شامل ہیں لیکن افسوس کہ ان 1415 واقعات میں سے 1289 اقعات محض گزشتہ دس سالوں 2011ء  سے2021ء میں ہوئے سوچنے والی بات یہ ہے کہ پچھلے 65 سالوں میں تو محض128 واقعات ہوئے،لیکن گزشتہ دس سالوں کے دوران توہین مذہب کے 1289 واقعات کیسے ہو گئے، جبکہ اس دوران توہین مذہب کاقانون بھی سخت سے سخت تر ہوتا گیا در اصل یہ اعدادوشمار تمام چیخ چیخ کر یہ پکار رہے ہیں کہ اس قسم کے زیادہ تر واقعات جھوٹے ہوتے ہیں محض شک کی بنا پر کسی کو پکڑ لیا جاتا ہے اور ہجوم اکٹھا کر کے بغیر صفائی کا موقع دیے ملزم کو نہائت سفاکیت کے ساتھ موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے زیادہ تر کیسوں میں یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ ہجوم کو اکٹھا کرنے کے لئے مساجد سے اعلا ن ہو تے ہیں کہ فلاں جگہ پر ایسا واقعہ ہو ہے اس لئے فوراً اکٹھے ہو جائیں تاکہ ملزم کو سزا دی جا سکے بس پھر وحشت اور درندگی کا کھیل شروع ہو جاتا ہے پولیس بھی بپھرے ہوئے ہجوم کے سامنے بے بس ہو جاتی ہے پھر جب میڈیا پر واقعہ رپورٹ ہوتا ہے تو اشک شوئی اور عالمی رائے عامہ کو دکھانے کے لئے چند دن ہماری حکومت پھرتیا ں دکھاتی ہے بیانات جاری کرتی ہے عدالتوں میں کیس چلنا شروع ہو جاتا ہے اگر خوش قسمتی سے کسی ایک آدھ قاتل کو سزا ہو بھی جائے تو اس قاتل کو ہیرو مان لیا جاتا ہے ہزاروں کی تعداد میں سادہ لو ح لوگ اس کی نماز جنازہ میں شرکت کر کے اپنے تئیں  ”ثواب دارین“ حاصل کرتے ہیں پھر اس قاتل کی قبر پر مزار بھی بن جاتا ہے اور اس قبر کا مجاور آنے جانے والوں کو عجیب و غریب جھوٹے روحانی قصے سنا کر یقین دلاتا ہے کہ یہ قاتل دراصل بہت بڑا ولی وقت ہے جاہل عوام ایسے بے سروپا افسانوں پر یقین کر لیتے ہیں اور لا شعوری طور پر ایسے کسی واقعے کا انتظار کرنا شروع کر دیتے ہیں، جس میں ان کو پتہ چلے کہ کسی نے توہیں مذہب کی ہے تو وہ اسے سزا دے کر ولایت کا مقام حاصل کر سکیں۔


اب بھی وقت ہے کہ تمام سیاسی پارٹیاں مذہب کے اس بڑھتے ہوئے غلط استعمال  کے سامنے بند باندھنے کے لئے ایک گرینڈ ڈائیلاگ کا اہتمام کریں سیاست کے لیے بہت وقت پڑا ہے، لیکن موجودہ نازک حالات کاتقاضا یہ ہے کہ وسیع تر قومی مفاد ات کی خاطر عقل و فہم کا مظاہرہ کیا جائے۔ لہٰذا راقم ہاتھ جوڑ کر اپنے تمام اداروں سے اپیل کرتاہے کہ غیر ریاستی جتھوں میں بھری ہوانکال دیں حکومتیں تو پہلے دن سے گو مگو کی کیفیت میں ہیں ان سے اس ضمن میں اچھائی کی توقع نہیں۔ آپ آج بھی اس قسم کے جتھوں لشکروں کو کنٹرول کر سکتے ہیں۔علاوہ ازیں اس ضمن میں فوری قانون سازی بھی کی جائے کہ اس قسم کے جرائم میں ملوث افراد کو آئندہ سر عام پھانسی کی سزا دی جائے گی، کیونکہ اگر جرم سرعام ہوا ہے تو سزا بھی سرعام ہونی چاہئے۔

مزید :

رائے -کالم -