جناب رفیق ڈوگر خوش بخت ٹھہرے۔۔۔!!!
لاہور کے نیک نام اور وضع دار اخبار نویس جناب رفیق ڈوگر خوش بخت ٹھہرے۔۔۔زمانے ان پر رشک کرتے رہیں گے۔۔۔اللہ کے انعام یافتہ بندوں میں سے تھے۔۔۔اپنی آنکھوں سے" انعمت علیہم "کے مفہوم کا نظارہ کیا اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا تمغہ سینے پر سجائے اللہ کے حضور پیش ہوگئے۔۔۔!!!
صدیوں پہلے مصر میں جناب امام شرف الدین بوصیری رحمتہ اللہ علیہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان مبارک میں قصیدہ بردہ شریف لکھا تو ان پر ابر کرم ایسے برسا کہ" خزاں زندگی" بہار ہو گئی ۔۔۔اس شہرہ آفاق نعتیہ کلام کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ امام بوصیری کو کوڑھ یا فالج کی بیماری نے اپاہج کر دیا۔۔۔تمام تدبیریں ناکام ہو گئیں۔۔۔انہوں نے سوچا ساری زندگی بادشاہوں کے قصیدے لکھے کیوں نہ شاہ مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور گلہائے عقیدت پیش کرکے شفائے کاملہ کی بھیک مانگی جائے۔۔۔قصیدہ لکھا تو ایک رات خواب میں آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی۔۔۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قصیدہ سنا تو بہت خوش ہوئے۔۔۔رحمت والی کالی کملی ان پر ڈال دی اور اپنا دست مبارک ان کے بدن پر پھیرا تو وہ شفا یاب ہوگئے۔۔۔چادر مبارک کی مناسبت سے ہی اسے قصیدہ بردہ شریف یعنی چادر والا قصیدہ کہتے ہیں۔۔۔!!!!!
زہے نصیب کہ ہمارے عہد میں بھی ایک ایسا ہی ایمان افروز واقعہ رو نما ہوا۔۔۔سیرت نگار صحافی جناب رفیق ڈوگر صاحب کو تین دہائیاں پہلے کینسر کا مرض تشخیص ہوا۔۔۔ڈاکٹروں نے کہہ دیا کہ بس اب زندگی "چار دیہاڑے" ہی ہے۔۔۔انہوں نے بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے کرم مانگا تو عطائوں کی بارش ہو گئی۔۔۔پھر جیسے ہی ورق ورق سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم لکھتے گئے ۔۔۔ "مرجھائی زندگی" مہکتی گئی۔۔۔!!!عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے معطر دل کو چھو لینے والی یہ کہانی انہی کے قلم سے ملاحظہ فرمائیے۔۔۔
ڈوگر صاحب اپنی سیرت کی کتاب الامین کے دیباچے میں لکھتے ہیں:"یہ اللہ کا کرم ہے جس نے ناچیز بے علم اور بے وسیلہ کو اپنے حبیب، رہبر انسانیت ،خاتم الانبیا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک کے بارے میں لکھنے کی توفیق اور ہمت دی۔۔۔بندہ اپنے رب کے کس کس کرم کا شکر ادا کرے؟فروری 1991میں شیخ زاید ہسپتال لاہور میں میرے بائیں گھٹنے کا آپریشن ہوا۔۔۔.ایک دوپہر ڈاکٹر جی اے شاہ آئے۔۔۔ان کے ہاتھ میں ایک رپورٹ تھی۔۔۔”آپ کو کینسر ہے“۔۔۔.میں خاموش رہا۔۔۔!!!!وہ بتا کر چلے گئے۔۔۔اس وقت کمرے میں اکیلا تھا۔۔۔مگر نہیں اللہ بھی اپنے بندے کے ساتھ تھا۔۔۔شام کو ڈاکٹر کے نائب آئے۔۔۔”کینسر کی یہ قسم بڑی تیزی سے جسم میں پھیلتی ہے۔۔۔.گھٹنے کے اوپر سے ٹانگ کاٹ دی جائے تو آپ کو دس سال مل سکتے ہیں ورنہ دو اڑھائی سال مشکل ہیں۔۔۔خاموش رہنے اور سننے کے سوا کوئی چارہ ہی کیا تھا؟۔۔۔”ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں اپنے گھر والوں سے مشورہ کرکے جلد فیصلہ کریں“۔۔۔.”ڈاکٹر صاحب جس خدا نے مرض پیدا کئے ہیں وہ شفا دینے پر بھی قادر ہے“۔۔۔۔ ”کیا مطلب ؟“۔۔۔”میرا ایمان ہے کہ اللہ کے پاس شفا ہے۔۔۔مجھے یقین ہے وہ مجھے شفا دے گا“۔۔۔ہسپتال کی تنہائی میں اپنے اعمال کا جائزہ لے کر میں نے اپنے خدا سے دعا کی تھی۔۔۔”میرے اللہ میرے پاس تو کچھ بھی نہیں۔۔۔نہ اس دنیا میں نہ اس کے بعد والی دنیا کے لئے۔۔۔.تیرے پاس کس چیز کی کمی ہے۔۔۔کچھ مہلت عطا فرما“۔۔۔میں نے کسی کو کچھ نہیں بتایا۔۔۔نہ مرض کے بارے میں نہ اللہ سے درخواست کے بارے میں۔۔۔اپنے گھر والوں کو بھی نہیں۔۔۔ ڈاکٹروں کے سوا ایک دو دوستوں کو علم تھا۔۔۔بندہ اپنے دکھوں سے دوسروں کو کیوں پریشان کرے؟۔۔۔وقت گزرتا گیا۔۔۔اللہ کریم سے کیا وعدہ کیسے پورا کروں۔۔۔؟؟؟؟
میں سوچتا رہا۔۔۔میرے پاس تو کچھ نہیں۔۔۔چودہ سو سال سے سیرت پاک ﷺ پر لکھا جارہا ہے۔۔۔وہ لکھتے رہے جو علم و عمل والے تھے۔۔۔بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔۔۔.میں تو بے علم ہوں۔۔۔.کیا لکھوں کیسے لکھوں؟؟؟دعاکرتا رہا۔۔۔سیرت کی کتابیں پڑھتا رہا۔۔۔شاید کوئی راستہ مل جائے۔۔۔اللہ نے راستہ دکھایا، ،ہمت دی ،رہنمائی کی اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی پر ایک جلد مکمل ہو گئی۔۔۔بندہ اپنے خالق و مالک کے کس کس کرم کا شکر ادا کرے؟۔۔۔.جس نے ہمت بھی دی اور شفا بھی دی۔۔۔کسی علاج کے بغیر۔۔۔.ایک بھی گولی کھائے بن۔۔۔بلاشبہ مرض دینے والا شفا دینے پر قادر بھی ہے۔۔۔.وہ اپنے ناچیز اور بے وسیلہ بندوں کی دعائیں سنتا ہے اور قبول فرماتا ہے۔۔۔دعا کریں اللہ کوشش کو قبول فرمائے، دعاکریں اللہ کریم میری خامیوں اور کوتاہیوں کو معاف فرما دے۔۔۔سوچتا رہا اپنی دعا اور شفا کے بارے میں لکھوں نہ لکھوں؟تشہیر کرم کہیں تشہیر ذات نہ سمجھ لی جائے۔۔۔خیال آیا یہ تو بندے کے خالق ومالک کے کرم اور قدرت کی بات ہے۔۔۔بندے پر خالق کے اکرام و انعام کا ذکر تو اس کا شکر ہے۔۔۔خالق اپنے بندے سے اس کرم کے ذکر پر ناراض نہیں ہو گا۔۔۔.وہ نیتوں کا جاننے والا ہے۔۔۔دعا کریں وہ اپنے بندے پر اپنے کرم کے دروازے کھلے رکھے۔۔۔ میں نے کوشش کی ہے واقعات سیرت کو ان کی تاریخی ترتیب میں رکھا جائے۔۔۔اگر کہیں وحی اور معجزے کی بات آئے تو ان موضوعات پر مضمون نہ باندھے جائیں ۔۔۔اس سے پڑھنے والے کی توجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور اصل واقعات سے ہٹ جاتی ہے۔۔۔حوالے اورتشریحی نوٹس کم ازکم دیئے جائیں۔۔۔صرف اسی صورت میں جب ان کا دینا لازم ہو ۔۔۔جس ماحول اور معاشرے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت پاک ہوئی۔۔۔جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچپن گزارا۔۔۔جوانی کی عمر کو پہنچے اور دین حنیف کی تکمیل کا مشن پورا کیا۔۔۔ان کی تفصیل دی جائے تاکہ پڑھنے والے کو اندازہ ہو سکے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کی تعمیر کس ماحول میں ہوئی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے توحید کا مشن کس معاشرے میں پورا کیا تھا۔۔۔.اور کن کن قوتوں اور رویوں کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سامنا رہا تھا۔۔۔پاکستان کی نوجوان نسل عربی سے نا بلد ہے۔۔۔اس لئے قرآنی آیات اور احادیث شامل نہیں کی گئیں۔۔۔صرف ان کا اردو ترجمہ دیا گیا ہے تاکہ نوجوان نسل اس کی طرف راغب ہو۔۔۔.انداز اور زبان عام فہم رہے۔۔۔ علمی اور فقہی اصطلاحات سے بیان کو بوجھل نہ کیا جائے تاکہ عام آدمی کو پڑھنے اور سمجھنے میں آسانی رہے۔۔۔قرآنی آیات کا ترجمہ مختلف تراجم کے موازنہ کے بعد وہ دیا ہے جو مجھے عربی کے مفہوم کے قریب ترین معلوم ہوا۔۔۔ہر واقعہ لکھنے سے پہلے سیرت کی مختلف کتب کا تقابلی جائزہ لیتا تھا۔۔۔اگر کوئی قرآنی آیات کسی واقعہ سے متعلق ہوں یا سیرت پاک کا کوئی واقعہ کسی قرآنی آیت سے متعلق ہو تو اس آیت یا آیات کے بارے میں مختلف تفاسیر اور قرآن کے تراجم کے تفسیری نوٹس دیکھ کرجو کچھ سمجھ آئے لکھا جائے۔۔۔میں بے علم آدمی ہوں۔۔۔ قرآن وحدیث کی کہیں تعلیم حاصل نہیں کی۔۔۔ اس لئے اگر سمجھنے میں غلطی ہو گئی ہو تو آپ دعا فرمائیں اللہ تعالیٰ مجھے معاف فرما دے۔۔۔ہو سکے تو آگاہ فرمائیں تاکہ آئندہ ایڈیشن میں غلطی درست کردی جائے۔۔۔اللہ کے کرم ،اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت اور پڑھنے والوں کی دعائوں کا طالب ہوں۔۔۔اب تک جو کچھ بھی لکھا رفیق ڈوگر کے نام سے لکھا۔۔۔الامین پر نام محمد رفیق ڈوگر دیا جا رہا ہے۔۔۔اگست1991۔۔۔!!!"
نعت ہو کہ سیرت نگاری۔۔۔مدحت رسول صلی اللہ علیہ وسلم بڑے مقدر کی بات ہے۔۔۔جس خوش بخت کو یہ اعزاز مل جائے وہ مر کر بھی نہیں مرتا۔۔۔.رفیق ڈوگر صاحب بھی الامین لکھ کر امر ہو گئے۔۔۔!!!!
نوٹ: یہ لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں