پاک بھارت تعلقات میں کشیدگی

پاک بھارت تعلقات میں کشیدگی

  

پاک بھارت تعلقات اتنے اتار چڑھاﺅ کا شکار ہیں اوران کے بارے میں ایک بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ اگر یہ ممالک ایک قدم آگے بڑھاتے ہیں تو دو قدم پیچھے ہٹانا لازمی ٹھہرتا ہے۔ آزادی کے بعد سے ان کے ہاں یہی سنہری فارمولہ مستعمل ہے۔ کتنی ستم ظریفی ہے کہ بڑ ی محنت ، مشقت اور صبر آزما جدوجہدکے ساتھ پاک بھارت تعلقات کی ادق پہاڑی کی چوٹی پر پہنچا جاتا ہے کہ ”متوقع طور پر “ کوئی غیر متوقع واقعہ آپ کو پھر سے نیچے دھکیل دیتا ہے۔ بھارتی وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ ، جن کو پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے لئے اٹھائے جانے والے اقدامات کا کریڈٹ دیا جا سکتا ہے، کا کہنا ہے کہ ” ہمسائے “ کے ساتھ دوستی کا سفر بہت سے ”واقعات “ سے لبریز سفر کی مانند ہے آپ کچھ آگے بڑھتے ہیں، پھر کوئی انوکھا موڑ، کوئی حادثہ، کوئی غلط قدم (سانپ سیڑھی کے کھیل جیسا)آپ کو پھر تہہ تک پہنچا دیتا ہے۔ اس کے بعد پھر ایک نئے سفر کا آغاز ہوجاتا ہے۔

آج پاک بھارت تعلقات ایک مرتبہ پھر صفر درجے پر کھڑے ہیں۔ لائن آف کنٹرول پر پاکستانی فوجیوں کے ہاتھوں ایک بھارتی فوجی کے مبینہ طور پر سرقلم کرنے کے حوالے سے بھارت میں جذبات بہت برہم ہیں ۔ اب ہو سکتا ہے کہ ان کے نازک تعلقات کو معمول پر آنے میں کچھ وقت لگ جائے۔ اس دوران ٹی وی کے شور مچانے والے میزبانوں، ریٹائرڈ جنرلوں، سفیروں اور” آن لائن“ نفرت کے شعلوں کو ہوا دینے والے شیوسینا کے انتہا پسندوں نے مل کر حب الوطنی کے جذبات کوایسا بھڑکایا ہے کہ پورے ملک میں پاکستان کوفوری طور پر سبق سکھانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ بی جے پی کی رہنما سشما سوراج کا کہنا ہے کہ ایک بھارتی سپاہی کے بدلے میں دس پاکستانی سپاہیوںکے سر لائے جائیں۔ ان حالات میں یہ بات قابل فہم ہے کہ بھارتی حکومت کو بھی، جس نے لائن آف کنٹرول پر ہونے والے تصادم پر ابتدائی طور پر محتاط لہجے میں بات کی تھی، کو سخت بیانات دینا پڑے۔ وزیر ِ اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ کا کہنا ہے کہ اسلام آباد کے اس گھناﺅنے فعل کے بعد تعلقات معمول کی سطح پر نہیںرہ سکتے۔ ان کا کہنا ہے کہ لائن آف کنٹرول پر ہونے والا ”غیر معمولی“ واقعہ بھارت کے لئے قابل ِ قبول نہیں ہے۔مشہور اخبار ”دی ہندو“ کے رپورٹر کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر من موہن سنگھ کی پاکستانی پالیسی پر ہونے والے تابڑ توڑ حملے اپنا اثر دکھانا شروع ہو گئے ہیں۔

من موہن سنگھ کی وارننگ کے بعد بھارتی آرمی چیف، بکرم سنگھ، کی طرف سے بھی سخت بیانات آئے۔ آرمی چیف نے فوجی دستوں کو حکم دیا کہ وہ ”لائن آف کنٹرول پر کسی بھی اشتعال انگیزی کی صورت میں جارحانہ حکمت ِ عملی اپنائیں“....گزشتہ دنوںہونے والے دہلی آبروریزی کے لرزہ خیز کیس اور بدعنوانی کے الزامات کے نتیجے میں ہونے والی تنقید اور میڈیا ، ہندتوا گروہوں، جو اس کے خون کے پیاسے ہوچکے ہیں، کی طرف سے پڑنے والے دباﺅ کی وجہ سے کانگرس حکومت پچھلے قدموں پر جانے پر مجبور ہو گئی ہے،چنانچہ اس کی طرف سے آنے والے بیانات ظاہر کرتے ہیں کہ اب یہ پاکستان کے ساتھ سختی سے نمٹنا چاہتی ہے اور اس ضمن میں بی جے پی کے مقابلے میں کسی کمزوری کامظاہرہ کرنے کی متحمل نہیںہوسکتی۔

اس پس ِ منظر میں پاک بھارت تعلقات میں بہتری کی خواہشات کو شدید دھچکا لگا ہے۔ اب دہلی نے پاکستانیوں کے لئے آسان ویزے کے حصول اور معمر افراد کے لئے سرحد پر ویزے کی سہولت دینے کے ارادے کو التوا میں ڈال دیا ہے۔ اس سے یہ بات عیاںہوتی ہے کہ فوجی دستوں کے درمیان کسی بھی قسم کے تصادم کی صورت میں جب سرحد کے دونوں طرف موجود انتہا پسند جنگجو اپنے پنجے تیز کر لیتے ہیں تو پہلا خون ان دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان عوامی رابطوں کا ہوتا ہے،چنانچہ حالیہ پاک بھارت کرکٹ سیریز کے دوران دکھائی دینے والا جوش اور پاکستانی فن کاروں کی ممبئی فلم انڈسٹری میں پذیرائی سمیت بہتری کے بہت سے امکانات خطرے میں ہیں۔ اسی دوران پاکستان کے ہاکی کے نو کھلاڑیوں کو بھی، جنہوں نے انڈین ہاکی لیگ میں شرکت کرنا تھی، بھی دباﺅ کی وجہ سے کھیلے بغیر واپس جانا پڑا۔ ان حالات میں بھارت میں اس ماہ کے آخر میں ہونے والے خواتین کے کرکٹ ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم کی شمولیت بھی ناممکن دکھائی دیتی ہے۔ پاکستانی فن کاروں ، علی ظفر، جاوید بشیر اور میکال حسن کے شو منسوخ کر دیئے گئے ہیں۔

یہ سب کچھ بہت افسوس ناک ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ دونوںممالک کے درمیان بہتر تعلقات کی عوامی خواہش انتہائی سوچ رکھنے والوں کی بھینٹ چڑھ گئی ہے۔ سرحد کے دونوں طرف کچھ گروہ چاہتے ہیںکہ یہ دونوں ممالک دشمنی میں الجھے رہیں ، اس دوران میڈیا بھی جلتی پر تیل گرانے میں کسی سے پیچھے نہیں رہتا۔ بھارتی ٹی وی شو دیکھنے سے یہ بات عیاںہوجاتی ہے اور ارناب گوسوامی کے تبصرے سننے کے بعد صحافتی قدروں کا خون ہوتا محسوس ہوتا ہے۔ ان کے سامنے ”فاکس نیوز“ کے تبصرے واقعی” غیر جانبدار“ لگتے ہیں۔ موجود بحران کے دوران ”ٹائمز ناﺅ“کے میزبان ، جس کے ساتھ چند سابق سفیر اور دفاعی ماہرین بھی بیٹھے ہوئے تھے، کی ایک سابقہ پاکستانی ائیر مارشل سے جھڑپ ہوگئی۔ ہمارا ہیرو بہت غصے میں تھا اور جب 1971 ءکی جنگ میں ہونے والی شکست اورنوے ہزار پاکستانی فوجیوں کے جنگی قیدی بن جانے کی توہین یاد دلائی گئی توائیر مارشل صاحب نے بڑے دھڑلے سے بتایا کہ کس طرح اُس نے1965ءمیں انڈیا پر جارحانہ طریقے سے بمباری کی۔

اس ”بحث “ میں فریقین نے ایک دوسرے کو ماضی کو دہرانے کی دھمکی دی اور ایک یا دو مرتبہ ایٹمی حملے کا ذکر بھی کیا گیا۔ اس پروگرام میںکہے گئے الفاظ اتنے ناقابل ِ یقین تھے کہ پروین سوامی، جس کو بھارت میں پیش آنے والے ہر افسوس ناک واقعے کے پیچھے اسلامی انتہا پسندوںکا ہاتھ نظر آتا ہے ، کا کہنا ہے کہ اس پروگرام میں گوسوامی حد سے بڑھ گیا تھا، تاہم آج کل کے ماحول میں، جبکہ تناﺅ بہت زیادہ ہے، ”ٹائمز ناﺅ“جلتی پر تیل گرانے کی بھرپور کوشش کررہا ہے۔ گوسوامی لوگوں کی دکھتی رگ کو چھیڑکراُن کو تاﺅ دلانے کا ماہر ہے، تاہم وہ اس میدان میں اکیلا نہیںہے ۔ یہ میڈیا کا ایک افسوس ناک پہلو ہے کہ اس نے امن کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ آج سرحد کے آر پار بہت کم صحافی معاملات کو ٹھنڈے دماغ سے سوچنے کے عادی نظر آتے ہیں۔ کیا اُن کو احساس ہے کہ ٹی وی ریٹنگ اور اخباری سرکولیشن بڑھانے کا خبط کتنا مہنگا پڑ سکتا ہے ؟حالیہ کشیدگی کو پاکستانی رد ِ عمل نے بھی ہوا دی۔ بھارت میں ہونے والے رد ِ عمل کو پاکستانی میڈیا دکھانے میں ناکام رہا، اس کی بجائے اس کی توجہ داخلی طور پر ہونے والے سیاسی ہنگامے اور لانگ مارچ پر رہی۔ پاکستانی دانشور اس بات پر سوچ بچار کرتے ہوئے جان ہلکان کرتے رہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے لانگ مارچ کے پیچھے کون ہے؟ ان کی ڈور کس کے ہاتھ میں ہے ،جبکہ عین اس وقت جب ہزاروں افراد جناح ایونیو میں دھرنا دیئے ہوئے تھے، سپریم کورٹ کی طرف سے وزیر اعظم کو گرفتار کرنے کا حکم آیا ۔ یہ اس قوم کا حال ہے جس کو لائن آف کنٹرول پر بہت سنگین تناﺅ کا سامنا تھا اور فائرنگ کے واقعات کوئی معمول کی کارروائی نہیں تھے، کیونکہ ان ایٹمی قوت کی حامل دوریاستوں کے درمیان 2003ءمیںہونے والے فائر بندی کے معاہدے کی یک لخت خلاف ورزی کی گئی تھی۔

کچھ دفاعی ماہرین کا یہ بھی کہنا تھا کہ بھارتی فوجی کا سرقلم کرنا کسی تیسری قوت، جیسا کہ تحریک طالبان، کا کام ہے ،کیونکہ طالبان پاکستانی فوجیوں کے بھی سرقلم کرچکے ہیں ۔بہرحال جس کسی نے بھی ایسا کیا ہے، یہ انسانیت اور مذہب کے اصولوںکی خلاف ورزی ہے، کیونکہ لاش کی بے حرمتی نہیںکی جانی چاہیے ، چاہے وہ دوست ہو یا دشمن۔ دوسری طرف بھارت کے معتبر اخبار ” دی ہندو “ کا کہنا ہے ” یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے، کیونکہ طرفین فائر بندی کی خلاف ورزی کا ارتکاب کرتے رہتے ہیں۔ ہمیں یہ بات تسلیم کر لینی چاہیے کہ زیادتی کا ذمہ دار صرف پاکستان ہی نہیںہوتا ہے۔ اب اس بات پر زور دینے کی ضرورت نہیں کہ پہل کس نے کی ۔ اصل زور اس پر دیا جانا چاہیے کہ لائن آف کنٹرول پر امن کیسے قائم ہو اور کشیدگی کا خاتمہ کیسے ہو “؟

اب مزید کچھ کہنے کی گنجائش نہیں ہے۔ وقت ہاتھوںسے نکلا جارہا ہے ،لہٰذا انڈیا اور پاکستان کو بقائے باہمی کی خاطر کشیدگی سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اس وقت پاکستان اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزررہا ہے۔ ایک جمہوری حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرتے ہوئے انتخابات کی طرف جارہی ہے۔ اس وقت سرحد پر تناﺅ امن اور جمہوریت کے لئے نقصان دہ ہو گا۔ انڈیا کو بھی سوچنا چاہیے کہ ایک مستحکم پاکستان ہی اس کے مفاد میں ہے۔

 نوٹ ! اس کالم کے جملہ حقوق بحق رائٹ ویژن میڈیا سنڈیکیٹ پاکستان محفوظ ہیں۔ اس کی کسی بھی صورت میں ری پروڈکشن کی اجازت نہیں ہے۔

مزید :

کالم -