تحریکات ختم نبوت کی خود ساختہ تاریخ کا تجزیہ
اللہ تعالیٰ کے آخری نبی حضرت محمد مصطفیﷺ کی شان ِ ختم نبوت کے احترام اور تحفظ ناموس رسالت کا تقاضا تو یہ ہے کہ نبی کریمﷺ کی ذات اقدس سے وابستہ کوئی واقعہ تحقیق و جستجو کے بغیر شائع اور بیان نہ کیا جائے۔ ہمارے اسلاف کا طرز عمل یہی رہا ہے کہ نبی کریمﷺ کی حدیث شریف بیان یا تحریر کرتے وقت نبی کریمﷺ کے الفاظ مبارک بیان کرنے کے بعد یہ جملہ ضرور لکھتے اور بیان کیا کرتے تھے، یعنی”او کما قال علیہ الصلوٰة والسلام“ جو الفاظ لکھے یا بیان کئے گئے ہیں یہی تھے یا ”جیسا کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا تھا“، اس طرح احتیاط کا تقاضا بھی پورا ہو جاتا تھا اور کسی کو انکار اور حرف ِ شکایت کا بھی موقع نہ دیا جاتا تھا، لیکن آج افسوس کے ساتھ اس حقیقت کا مجھے بارثانی اظہار کرنا پڑ رہا ہے کہ اسلامی جمہوری پاکستان میں دینی جماعتوں اور اسلامی تنظیموں کی باگ ڈور نوجوانوں اور ناتجربہ کار افراد کے ہاتھوں میں آ گئی ہے ان کی خدمت میں راقم الحروف نے کئی بار عرض کیا ہے کہ حسب فرمان الٰہی، یعنی ”اگر تمہیں معلومات حاصل نہیں ہیں، تو جو اہل علم و ادراک موجود ہیں ان سے معلومات دریافت کر لینی چاہئیں۔ اس سے حقائق بھی مسخ نہ ہوں گے اور لوگوں کو حرف شکایت زبان پر لانے کا موقع بھی نہ مل سکے گا، چنانچہ نوجوان اور ناتجربہ کار مذہبی قیادت کے ہاتھوں پاکستانی عوام کو جو خمیازہ بھگتنا پڑا وہ تو رہا اپنی جگہ عقیدہ¿ ختم نبوت کا تحفظ اور جھوٹی نبوت پر ایمان لانے والے گروہ قادیانیوں کو اسلامی تعلیمات اور علامہ اقبال ؒ کے مطالبے کے مطابق غیر مسلم قرار دینے کے سلسلے میں1953ءاور1974ءکو ملک کے تمام مکاتب فکر کے علماءو مشائخ نے تحفظ ختم نبوت کے نام سے جو ہمہ گیر تحریکیں برپا کی تھیں، ان کی تاریخ ایسے خود ساختہ اور من مانے انداز میں لکھی گئی ہے کہ ان تحریکوں کے عینی شاہد ”سر گرفتہ“ ہو کر رہ گئے ہیں، ختم نبوت کے نام سے پہلی تحریک1953ءکی تھی، جس کے بانی مشرقی اور مغربی پاکستان کے تمام مکاتب فکر اور مسالک کے علماءو مشائخ تھے، جن میں سے مرکزی قائدین کے اسماءگرامی یہ ہیں۔
مولانا ابو الحسنات سید محمد احمد قادری خطیب جامع مسجد وزیر خان لاہور، صدر مجلس عمل آل مسلم پارٹیز کنونشن مولانا عبدالحامد بدایونی بانی صدر جمعیت علمائے پاکستان کراچی، امیر شریعت سید عطاءاللہ شاہ بخاری قائد و بانی مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان، مولانا قاضی احسان احمد شجاع آبادی بانی امیر مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان، مولانا سید محمد داﺅد غزنوی بانی امیر جمعیت اہلحدیث پاکستان، مولانا محمد اسماعیل سلفی ناظم اعلیٰ جمعیت اہلحدیث پاکستان، مولانا حافظ محمد امین خلیفہ حضرت ترنگزئی (پشاور) علامہ کفایت حسین صدر مجلس تحفظ حقوق شیعہ پاکستان، سید مظفر علی شمسی سیکرٹری جنرل تحفظ حقوق شیعہ پاکستان، حضرت شیخ المشائخ پیر غلام محی الدین ؒ (بابو جی) سجادہ نشین گولڑہ شریف، شیخ المشائخ مولانا حافظ قمر الدین سیال شریف، شیخ التفسیر مولانا احمد علی لاہوری، شیخ المشائخ صاحبزادہ سید فیض الحسن شاہ سجادہ نشین آلو مہار شریف، مولانا مفتی محمد دین، پیر سرسینہ شریف، مولانا راغب احسن ایم اے (مشرقی پاکستان، ڈھاکہ)، مولانا امین احسن اصلاحی قائم مقام امیر جماعت اسلامی پاکستان علامہ سید محمد سلیمان ندوی، مولانا احتشام الحق تھانوی، مولانا عبدالستار خان نیازی، مولانا اختر علی خاں ایڈیٹر ”زمیندار“، مولانا سید نور الحسن شاہ بخاری ناظم اعلیٰ تنظیم اہل سنت و الجماعت پاکستان اور دیگر شخصیات اس تحریک ختم نبوت1953ءکے داعی اور بانی حضرات ملک کی ممتاز اور باعظمت شخصیات تھیں، ان کے اقدامات نہ تو غیر شعوری اور جذباتی تھے اور نہ ہی ان کے پیش نظر کوئی مادی منفعت کا حصول تھا اور نہ ہی یہ عظیم شخصیات کسی سیاست دان کے اقتدار کے لئے آلہ ¿ کار کے طور پر مقدس نام استعمال کرنے کی گھٹیا اور مذموم حرکت کے ارتکاب پر آمادہ ہو سکتی تھی۔
اِسی طرح 1974ءکی تحریک ختم نبوت کا معاملہ ہے، اس وقت اگرچہ1953ءکے بزرگ قائدین اللہ کو پیارے ہو گئے تھے، لیکن اس کے قائدین میں شیخ الحدیث مولانا محمد یوسف بنوری مولانا غلام غوث ہزاروی، مولانا مفتی محمود، مولانا شاہ احمد نورانی، آغا شورش کاشمیری اور دیگر حضرات کے نام قابل ذکرہیں، ان دونوں تحریکوں میں سے صرف1953ءکی تحریک ختم نبوت میں ہزاروں عشاق وجاں نثاران ناموس رسالت نے جام شہادت نوش کیا اور لاکھوں فرزندان اسلام نے ہتھکڑیاں اور بیڑیاں پہن کر قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کی تھیں۔
تحریک ختم نبوت کی اس مقدس جدوجہد کو بدنام کرنے کے لئے اس دور کے حکمرانوں نے قادیانیوں کے ساتھ مل کر پنجاب میں فساد برپا کیا تھا جسے فسادات پنجاب کا عنوان دے کر جسٹس منیر اور جسٹس ایم آر کیانی پر مشتمل ایک تحقیقاتی کمیٹی قائم کی گی تھی، جس کی رپورٹ بھی حکومت کی طرف سے شائع ہو گئی ہے۔ اس رپورٹ میں اُٹھائے گئے اعتراضات کا تو جماعت اسلامی، مولانا مرتضیٰ احمد خاں میکش، انجمن احمدیہ ربوہ نے تحریری صورت میں جواب دے دیا ہے، لیکن یہ عجیب ستم ظریفی ہے کہ جس جماعت (مجلس تحریک ختم نبوت ) نے1953ءکو ایک عظیم الشان تحریک کی صورت میں تاریخ ساز کارنامہ انجام دیا تھا اس کی جانب سے منیر انکوائری کمیٹی کے، امیر جماعت اسلامی مولانا مودودی ؒ کے اور مختلف اخبارات میں کالم نگاروں اور دیگر اہل ِ قلم کے اعتراضات اور معاشرے میں پھیلائے گئے شکوک و شبہات کا تحریری صورت میں ”تاایں دم“ قطعاً کوئی جواب نہیں دیا جا سکا ہے، مختلف اداروں کی طرف سے گزشتہ صدی کے دوران جو کتابیں اور رسالے وغیرہ چھپ چکے تھے۔ مجلس ختم نبوت کی طرف سے انہیں پچاس جلدوں میں از سر نو شائع کیا گیا ہے اور اس کے سیکرٹری اشاعت مولانا اللہ وسایا کا میرٹھ سے طبع شدہ 1903ءکا رسالہ شحنہ بھی اب از سر نو شائع کرنے کا پروگرام ہے۔ یہاں پر یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہ رسالہ اہلحدیث مکتب فکر کے مولانا شوک اللہ میرٹھی کا تھا، ان کی اولاد میں سے مولانا عبداللہ گورداسپوری تھے اور بقول ”مولانا اللہ وسایا“ اب ان کے صاحبزادہ ڈاکٹر بہاﺅ الدین اور ان کے صاحبزادہ محمد سہیل اس میدان کار زار میں سرگرم عمل ہیں“۔ (مطبوعہ روزنامہ ”اسلام“)
ڈاکٹر بہاﺅ الدین وہی شخصیت ہیں،جنہوں نے تحریک ختم نبوت کے نام سے اہلحدیث پرچے الاعتصام لاہور کے مختلف شماروں میں علمائے دیو بند کے خلاف قسط وار مضامین لکھے ہیں۔ خصوصاً شمارہ مورخہ8دسمبر 2000ءمیں لکھا ہے کہ”مولانا گنگوہی ؒ سے نہ ہو سکنے والے اور مولانا کشمیری (محمد انور شاہ کشمیری) سے خواب میں ہونے والے مناظروں کے سوا دیو بندی احباب کوئی قابل ذکر مباحثہ، مناظرہ یا مباہلہ پیش نہیں کر سکتے، جو ان کے بزرگوں نے مرزا کی زندگی میں اس کے ساتھ کیا ہو۔ مرزا صاحب مر گئے، تو دیو بندی مورخین نے اِدھر اُدھر نظر دوڑائی تاکہ کوئی ایسا شخص تلاش کریں، جس نے مرزا کے ساتھ کوئی مناظرہ وغیرہ کیا ہو تاکہ وہ اسے اپنا سکیں اور پیر صاحب گولڑہ شریف پر ان کی نگاہ ٹک گئی، پیر صاحب دیو بندی تو نہ تھے اور نہ ہی انہوں نے دیو بند میں تعلیم حاصل کی تھی، لیکن وہ مولانا احمد علی سہارنپوری کے شاگرد اور مولانا حاجی امداد اللہ صاحب کے مرید تھے، یہ دونوں بزرگ خود دیو بندی نہیں تھے، لیکن استاد اور پیر ہونے کے ناطے دیو بندی حضرات انہیں اکابرین میں شمار کر لیتے ہیں (ہفت روزہ الاعتصام لاہور8دسمبر 2000ئ)
علاوہ ازیں ڈاکٹر بہاﺅالدین نے اسیران مالٹا شیخ الہند مولانا محمود حسن اور شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ کی ذات ِ گرامی پر توہین آمیز تنقید کی ہے۔ قارئین حضرات ہی فیصلہ کریں کہ ان باتوں کا تحریک ختم نبوت کے ساتھ کیا تعلق ہے؟
جہاں تک عالمی مجلس ختم نبوت کی شائع کردہ کتاب تحریک ختم نبوت 1953ءکا تعلق ہے تو اس کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ سی آئی ڈی کی رپورٹوں کو کتابی صورت میں شائع کر دیا گیا ہے۔ اس میں مشاہداتی حوالے کم ہیں اور شنیدہ واقعات کی بھرتی کی گئی ہے، مثلاً کتاب کے صفحہ139 پر لکھا ہے ”جب دولتانہ کی وزارت کے دور میں ختم نبوت کی تحریک منظم ہوئی اور چل نکلی تو ممدوٹ صاحب اور نظامی صاحب کے دولتانہ صاحب کو گرانے اور پچھاڑنے کا وقت آن پہنچا۔ ویسے بھی نوائے وقت میں مرزائیوں کے شیئرز تھے، مال روڈ لاہور کی دوائیوں کی ایک بہت بڑی دکان فضل دین اینڈ سنز کے مالکان اسی گروہ سے تعلق رکھتے تھے اور وہ ”نوائے وقت“ کے حصہ دار تھے، خود نظامی صاحب پر بھی میاں انور علی آئی جی پولیس نے انکوائری کمیشن کے سامنے یہ الزام عائد کیا تھا کہ وہ لاہوری مرزائی ہیں، گو اگلے روز نظامی صاحب نے تردیدی درخواست دی کہ وہ نہ لاہوری اور نہ قادیانی مرزائی ہیں، لیکن ”نوائے وقت“ پر مرزائیوں کا اثر تھا یہ ایک مسلمہ حقیقت تھی، (تحریک ختم نبوت 340)
سوال یہ ہے کہ تحریک ختم نبوت کے تاریخ نویس اور عالمی مجلس ختم نبوت کے موجودہ سیکرٹری نشرو اشاعت نے ادارہ ”نوائے وقت“ اور فضل دین اینڈ سنز والوں سے رابطہ قائم کر کے ان کے عقائد و نظریات معلوم کرنے کی زحمت گوارا کی تھی؟ جبکہ روزنامہ ”نوائے وقت“ کے بانی ایڈیٹر حمید نظامی صاحب اکثر آغا شورش کاشمیری کے دفتر چٹان میں آیا کرتے تھے اور مجھے بھی اس مجلس میں شریک ہونے کا موقع ملتا رہتا تھا۔ حمید نظامی صاحب نے کبھی قادیانیوں کے حق میں گفتگو نہیں کی تھی، مَیں نے جب بھی قادیانیوں کی بدعنوانیوں اور اسلام و ملک دشمنی کا ان سے تذکرہ کیا۔ نظامی صاحب نے ”نوائے وقت“ میں ہمیشہ قادیانیت کی مخالفت میں لکھا تھا، پنجاب کے گورنر سر فرانسس موڈی نے جب ر بوہ کی زمین مرزائیوں کے نام الاٹ کی تھی، تو میرے توجہ دلانے پر نظامی صاحب نے ”نوائے وقت“ میں ”ریاست اندر ریاست“ کے زیر عنوان اداریہ لکھا تھا۔ اس سلسلے میں انہوں نے میرے خط کے جواب میں لکھا تھا کہ جو زمین حکومت نے اپنی حماقت سے مرزائیوں کو الاٹ کر دی ہے، شاید وہ واپس نہ لے سکے باقی نکات ذہن میں رکھوں گا۔ علاوہ ازیں قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ تحریک ختم نبوت 1953ءکے دوران جب حکومت پنجاب نے تحریک کا ترجمان روزنامہ ”آزاد“ جبراً ایک سال کے لئے بند کر دیا اور مجھے گرفتار کر کے جیل میں قید کر دیا تھا تو رہائی کے بعد حکومت نے روزنامہ ”آزاد“ کا ڈیکلریشن دینے سے انکار کر دیا تھا، چنانچہ مَیں نے مولانا مرتضیٰ احمد خاں میکش سے روزنامہ ”نوائے پاکستان “ لے کر ترجمان تحریک ختم نبوت کے طور پر شائع کرنے کا اہتمام کیا تھا۔
”نوائے پاکستان“ کی افتتاحی تقریب میں حمید نظامی، مولانا وارث کامل، غلام دستگیر نامی، آغا شورش کاشمیری، مولانا عبید اللہ انور اور دیگر عظیم شخصیات نے شرکت کی تھی اور ”نوائے پاکستان“ کے پہلے شمارے میں خیر مقدمی تاثر لکھنے والی شخصیات میں حضرت امیر شریعت سید عطاءاللہ شاہ بخاری، شیخ التفسیر مولانا احمد علی لاہوری، مولانا ابوالحسنات سید محمد احمد قادری صدر مجلس عمل، مولانا سید محمد داﺅد غزنوی صاحبزادہ سید فیض الحسن مولانا مظہر علی اظہر اور آغا شورش کاشمیری کے ساتھ حمید نظامی ایڈیٹر روزنامہ ”نوائے وقت“ کا خیر مقدمی خراج تحسین بھی شامل ہے۔ اس کے باوجود نامعلوم ”تحریک ختم نبوت “ نامی کتاب میں حمید نظامی کو کیونکر مرزائیوں کے زیر اثر قرار دیا گیا ہے، نیز یہ بھی یاد رہے کہ روزنامہ ”نوائے وقت“ فیصل آباد کے بیورو چیف کمال نظامی کے والد ماجد محمد بشیر نظامی سانگلہ ہل ختم نبوت کے سیکرٹری تھے۔ ان کی وفات پر جنازہ مولانا تاج محمود نے پڑھایا۔ بہرنوع عالمی مجلس ختم نبوت کی کتاب ”تحریک ختم نبوت “ 1953ءمیں اور بہت سی قابل اعتراض معلومات درج ہیں۔ اب اس کے ساتھ ہی انٹرنیشنل ختم نبوت کے سیکرٹری جنرل مولانا زاہد محمود قاسمی کے شائع کردہ مضمون” تحریک ختم نبوت “ کے زیر عنوان اسی جماعت کے ترجمان ”صدائے ختم نبوت “ چناب نگر میں ملاحظہ فرمائیں۔
”ایک بار آغا شورش کاشمیری، ذوالفقار علی بھٹو وزیراعظم پاکستان سے ملاقات کے لئے گئے، آپ کے ساتھ سید عطاءاللہ شاہ بخاری ؒ بھی تھے، وہاں جا کر انہوں نے اپنی ٹوپی اتار کر ذوالفقار علی بھٹو کے قدموں میں ڈال کر فرمایا۔ اے بھٹو: آج تک مَیں نے اپنی ٹوپی کسی کے قدموں میں نہیں ڈالی اور اپنا سر اس کے قدموں میں ڈال کر رونے لگے اور فرمایا ” کہ آج تک میرا سر کسی کے آگے نہیں جھکا اور روتے ہوئے سر اٹھایا اور اپنا دامن پھیلاتے ہوئے کہا کہ اے بھٹو! اسے شورش کی جھولی نہ سمجھ اسے فاطمہ بنت محمدﷺ کی جولی سمجھ، آج مَیں تم سے بھیک مانگنے آیا ہوں کہ خدا کے لئے قادیانیوں کو کافر قرار دے دے۔ اس وقت بھٹو مرحوم نے وعدہ کیا تھا کہ قادیانیوں کو کافر قرار دوں گا“ (صدائے ختم نبوت14نومبر2013ئ)
ان مندرجات بالا پر سوائے ”استغفار“ اور کیا پڑھا جا سکتا ہے۔ انٹرنیشنل ختم نبوت کے سیکرٹری جنرل مولانا زاہد محمود قاسمی کوارڈی نیٹر برائے دیو بندی مکتب فکر حکومت پنجاب کو یہ معلومات ضرور حاصل ہونی چاہئے تھیں کہ حضرت امیر شریعت سید عطاءاللہ شاہ بخاری تو 1961ءمیں وفات پا چکے تھے اور 13سال بعد 1974ءکو تحریک ختم نبوت کے حوالے سے آغا شورش کاشمیری کے ساتھ مو¿دب حالت میں بھٹو صاحب وزیراعظم پاکستان کی خدمت میں کس طرح بغرض ملاقات حاضر ہو سکتے ہیں؟ نیز اس وقت حضرت شاہ صاحب خاموشی کے ساتھ قیام پذیر رہے اور شورش کاشمیری کی روتے ہوئے فریاد پر بھٹو صاحب نے قادیانیوں کو کافر قرار دینے کا فیصلہ کر لیا اور یقین دلایا تھا“ (کیا خوب انکشاف ہے!)۔
جبکہ ذوالفقار علی بھٹو شہید نے تو چند ماہ قبل اپنے اخباری بیان میں کہا تھا کہ مَیں وہ اقدام کرنے لگا ہوں، جس کے لئے علامہ اقبال ؒ اور سید عطاءاللہ شاہ بخاری جدوجہد کرتے رہے اور اگر1974ءکی تحریک ختم نبوت کے وقت امیر شریعت سید عطاءاللہ شاہ بخاری ؒ زندہ ہوتے تو شورش کاشمیری انہیں اپنے ساتھ لے جانے کی حرکت کا ارتکاب نہ کر سکتا، بلکہ ذوالفقار علی بھٹو تو خود سر کے بل امیر شریعت ؒ کی خدمت میں حاضری پر فخر محسوس کرتا۔
اس سلسلے میں اکثر علمائے کرام اور لیڈران ختم نبوت ایک طرف یہ کہتے ہوئے ”رطب للسان“ رہتے ہیں کہ علمائے کرام کے زبردست دباﺅ کے تحت ذوالفقار علی بھٹو قادیانی مسئلہ حل کرنے پر مجبور ہو گیا اور دوسری جانب آغا شورش کاشمیری کی گریہ زاری کی حالت میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی فریاد پرمبنی صرف ایک ملاقات میں ہی بھٹو نے مسئلہ حل کرنے کا یقین دلا دیا تھا، ان لوگوں کو معلوم نہیں کہ قادیانی مسئلے کے حل کی طنابیں صرف چند پاکستانی علماءیا کسی ایک حکمران کے ہاتھوں میں نہیں ہیں۔ قادیانیت کو اگر بیرونی غیر مسلم ممالک نے پروان چڑھایا ہے تو مسلم ممالک نے اس فتنہ، قادیانیہ کی بابت سدباب کے بھی فیصلے کئے ہیں، چنانچہ 8اپریل 1974ءکو عالم اسلام کے200کے قریب علمائے کرام اور مفتیان عظام نے مکہ معظمہ میں رابطہ عالم اسلامی کے اہم اجلاس میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا مطالبہ کیا اور پاکستان کی وزارت مذہبی امور کے سیکرٹری تجمل حسین ہاشمی نے اس اجلاس میں اعلان کیا تھا کہ حکومت پاکستان رابطہ عالم اسلامی کی قرارداد اور فیصلے کی تائید کرتی ہے، گویا حکومت سعودیہ کی مساعی ¿ حسنہ بھی قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے میں شامل تھیں، عالمی اور انٹرنیشنل تحریک ختم نبوت کی جماعتوں کو اس تاریخ ساز فیصلے کی روشنی میں حقائق پر مبنی تاریخ مرتب کرنی چاہئے تاکہ آئندہ نسل کو ہماری غلط بیانی اور خود ساختہ واقعات پر مشتمل تاریخ پڑھ کر اس کے مصنفین کو مغلضات کے ساتھ ایصال دُشنام نہ کرنا پڑے۔
یاد رہے کہ رابطہ عالم اسلامی منعقدہ مکہ مکرمہ 8اپریل 1974ءکے اجلاس کی کارروائی روزنامہ ”الندوہ“ مکہ معظمہ میں شائع ہوئی تھی، جسے ہفت روزہ ”چٹان“ لاہور نے6مئی1974ءکے شمارے میں شریک اشاعت کیا تھا۔ تحریک ختم نبوت کے نام سے چندہ لینے والی تنظیموں کی ذمہ داری ہے کہ وہ مکہ معظمہ کے پرچے ”الندوہ“ کو منگوا کر اُس کے مندرجات کی روشنی میں ازسر نو تحریک ختم نبوت کی تاریخ مرتب کر کے شائع کرنے کا فریضہ انجام دیں اور اپنی مذہبی اور اخلاقی ذمہ داری پوری کریں۔ انہیں خود ساختہ واقعات کو تاریخ قرار دینے سے گریز کرنا چاہئے۔