انور قدوائی کے ذکر سے تذکارِ صحافیان دگر
پاکستان کے ایک ممتاز صحافی انورِ قدوائی 23 دسمبر 2016ء کو رات تقریباً سات اور آٹھ بجے کے درمیان اس دارِ فانی سے رخصت ہو گئے۔ وہ گزشتہ کئی برس سے روز نامہ ’’جنگ‘‘ میں کام کر رہے تھے 23 دسمبر کو بھی وفات پا جانے سے چند لمحات پہلے تک بالکل ہشاش بشاش تھے وہ جمعتہ المبارک کا دن تھا اور صبح وہ حسبِ معمول تیار ہو کر اپنے دفتر پہنچ گئے شام کو لوٹے تو گھر میں اپنی بیگم اور دیگر اہل خانہ کی موجودگی میں کھانا تناول کیا اور اپنی طبیعت کے بارے میں کسی تکدر تک کا اشاردہ نہ دیا مگر کھانے کی میز سے اٹھ کر جب وہ اپنے کمرے میں پہنچ کر واش روم جانے لگے تو محسوس کیا کہ جیسے ان کو چکر آنے لگے چنانچہ انہوں نے اپنے بیٹے کو آواز دی جنہوں نے اٹھا کر ان کو واش روم پہنچایا اور کچھ دیر کے بعد وہ خود واش روم سے باہر آئے مگر پسینے میں شرابور تھے غالباً ان کو ہارٹ پرابلم ہو چکی تھی، سب اہل خانہ بھی یوں ان کے گرد جمع ہو چکے تھے اس وقت انور قدوائی پورے ہوش میں تھے اور اپنے بیٹے کو اشارہ کیا کہ ان کے تن سے ان کی جیگٹ جدا کر دی جاتی تاہم طبیعت سنبھلنے کے بجائے زیادہ بگڑ جانے کے انداز پیدا ہونے لگے تو ان کو ہاسپیٹل پہنچایا گیا مگر راستے ہی میں ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کر چکی تھی کیونکہ ڈاکٹر نے معائنہ کرنے کے بعد اس افسوسناک خبر کا اعلان کیا کہ انور قدوائی کو اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئے دس منٹ ہو چکے تھے چنانچہ وہ خبر کھل گئی اور انور قدوائی کے رشتے دار اور دوست احباب ان کے گھر 389 جہاں زیب بلاک علامہ اقبال ٹاؤن پہنچنا شروع ہو گئے ہم بھی گزشتہ 32 برس سے ان کے پڑوسی چلے آ رہے ہیں وہ سٹریٹ نمبر 10 اور ہم 412 جہاں زیب بلاک سٹریٹ نمبر 11 میں رہ رہے ہیں یہ ایک ایسی قربت تھی کہ گھروں سے نکلتے ہوئے یا گھروں کو جاتے ہوئے ہماری روزانہ ملاقات بلکہ ملاقاتیں ہو جاتی تھیں ہماری ان سے پرانی دوستی تھی جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے صدر ایوب خاں کے زمانہ حکومت میں انور قدوائی ابھی صحافت میں نہیں آئے تھے مگر میں 1959ء ہی سے لاہور کی اے کلاس صحافت میں موجود تھا۔ اس زمانے میں ابھی واپڈا ہاؤس نہیں بنا تھا اور جس بلڈنگ کو گرا کر واپڈا ہاؤس کی تعمیر کے لئے پلاٹ تیار کیا گیا اس میں فرسٹ فلور پر روزنامہ ’’مغربی پاکستان‘‘ کا دفتر اور پریس کلب قائم تھا۔ پاکستان کے ممتاز اور اَجل صحافی حاجی صالح محمد صدیق ’’مغربی پاکستان‘‘ کے چیف ایڈیٹر اور جناب شیخ شفاعت مینجنگ ایڈیٹر تھے۔ اسی فلور پر ایک انشورنس کمپنی کے دفاتر بھی تھے اور اس گروپ آف بلڈنگز میں اسمبلی ہال کے سامنے میٹرو ہوٹل بھی تھا۔ پریس کلب کے ٹھیک نیچے دو شراب خانے بھی تھے اور بعض شوقین صحافی اور خوش ذوق قلمکار و دانشور اوپر سے بالٹی لٹکا کر ان شراب خانوں سے اپنی مطلوبہ اشیا منگوا لیا کرتے تھے اس زمانے میں مال روڈ ابھی سنگل ہوتی تھی اور اسے ابھی بان�ئ پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے اِسم گرامی سے بھی موسوم نہیں کیا گیا تھا وہ اس وقت ہوا تھا جب چودھری محمد حسین لاہور کے میئر منتخب ہوئے، اس دور میں مال روڈ کے دونوں طرف سبز قطعات ہوتے تھے جبکہ مال روڈ پر 14 شراب خانے تھے روپیہ ابھی سولہ آنے کا تھا اور پوری بڑی بوتل بغیر لائسنس کے 28 روپے میں مل جاتی تھی اس لئے مال روڈ کے ساتھ ساتھ چھوٹے چھوٹے سبزہ زاروں میں خوش فکروں کی محافل جمی رہتی تھیں۔ ہماری بھی ایک منڈلی جس میں کچھ صحافی اور کچھ وکلاء ہوتے تھے شام سے شروع ہو کر رات گئے تک مال روڈ پر خراماں خراماں مٹر گشت کرتی تھی جس کے ایک باقاعدہ اہم رکن انور قدوائی بھی بن چکے تھے، وہ لانبے قد کے ایک رعنا انسان تھے، کھل کر گفتگو کرتے تھے اور فضا کو قہقہہ بار بنا دینے میں اہم کردار ادا کرتے تھے اس وقت ان کی مونچھیں جواب بڑھاپے کا انداز اختیار کر چکی تھیں اس طرح ہوتی تھیں جس طرح کی مونچھیں آج کل انور قدوائی کے چھوٹے بیٹے حفیظ انور کے چہرے پر مزین ہیں مگر بلا شبہ وہ اپنے شباب کا بہترین زمانہ گزار چکے تھے جس کا اندازہ غالباً عطاء الحق قاسمی کو بھی تھا کیونکہ انور قدوائی کا جنازہ اٹھنے سے پہلے انہوں نے انور قدوائی کے بڑے بیٹے امان انور سے کہا کہ انور قدوائی کی عمر خبر میں 72 برس آئی ہے تو یہ ٹھیک ہے امان انور نے کہا کہ ہم نے تو شناختی کارڈ پر درج ان کے سنِ پیدائش سے اندازہ کیا ہے اس وقت ہمیں ممتاز صحافی جناب ظفیر ندوی کے چھوٹے بھائی خالد یاد آئے جن سے ’’امروز‘‘ میں رفاقت کے دوران ایک بار ہم نے پوچھا کہ خالد آپ کی عمر اس وقت کیا ہو گی تو انہوں نے فرمایا کہ اصل عمر بتاؤں یا شناختی کارڈ والی۔ خیر مال روڈ پر گھومنے والی ہماری جس منڈلی کا ذکر ہو رہا تھا اس میں اکثر روزنامہ ’’پاکستان ٹائمز‘‘ کے سجاد کرمانی اور نوائے وقت والے رانا جہانگیر بھی شامل ہو جاتے تھے چنانچہ ان حضرات کی ترغیب پر ہی انور قدوائی نے صحافت کا رخ کیا اور روز نامہ ’’نوائے وقت‘‘ کے ایک سابق چیف رپورٹر اور سابق ڈی جی پی آر ملک محمد حسین نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ انور قدوائی ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں ’’لائم لائٹ‘‘ میں آئے اور بعدازاں کافی عرصے بعد نوائے وقت سے ’’جنگ‘‘ میں چلے گئے گویا انہوں نے انہی دو قابل ذکر اخباروں میں کام کیاوہ اچھے قلم کے مالک تھے اس کا اندازہ ان کے کالموں سے بھی ہو جایا کرتا تھا اور اس مضمون سے بھی ہوا جو 1999ء میں میرے قومی رباعیات کے مجموعہ ’’قرطاسِ وطن‘‘ پر انہوں نے سپردِ قلم کیا، پان بڑے شوق سے کھاتے تھے مگر ان کو سگریٹ پیتے ہوئے میں نے نہیں دیکھا، جب گھر میں پہنچ جاتے تھے تو عموماً گھر کے ہی ہو جاتے تھے۔ واقعتااب وہ اعصابی طور پر تھک چکے تھے کیونکہ انہوں نے اپنے گھر میں وہ ذکر کر بھی دیا تھا کہ ’’اب مجھ سے یہ کام نہیں ہوتا‘‘ مگر ان کی بیگم نے ان کو فرمایا کہ جب تک میں ہوں، آپ جاب نہ چھوڑیں کیونکہ میں آپ ہی سے پیسے لیتی ہوں، ہماری گھریلو خواتین کی اس ضرورت کی وجہ سے نجانے کتنے عالی دماغ بالآخر تھک کے مٹی کی چادر اوڑھ کر سو گئے ہیں، میں انور قدوائی کا دیرینہ دوست ہوں اور میں اس کی جدائی کو بہت محسوس کر رہا ہوں اس لئے بھی کہ اب جہاں زیب بلاک علامہ اقبال ٹاؤن وہ نہیں رہا جو 32 برس پہلے تھا انور قدوائی کے گھر سے پانچ فٹ کے فاصلے پر وقار گردیزی رہتے تھے جنہوں نے اپنی عمر کا زیادہ حصہ پاکستان ٹائمز میں گزارا، نوائے وقت والے قیوم اعتصامی اور کوہستان والے محمد فاضل فوٹو گرافر اسی گلی کے رہائشی تھے۔ بدر الاسلام بٹ، ہمایوں ادیب اسی گلی کے بائیں، مشرق کے چیف ایڈیٹر ضیاء الاسلام انصاری اور دائیں مڑیں تو پاکستان ٹائمز کے چیف ایگزیکٹو نسیم احمد کا گھر تھا اور ان کے گھر کے سامنے چھوٹے سے سبزہ زار کے اس پار سید سلطان عارف، کارٹونسٹ میر صاحب، رؤف اور پاکستان ٹائمز والے مجید شیخ کے گھر ہیں پی یو جے کے ایک عمر تک صدر رہنے والے اشرف طاہر کا گھر بھی جہاں زیب بلاک کے اسی حصے میں تھا اور ساتھ والی گلی میں نوائے وقت کے سابق چیف نیوز ایڈیٹر وحید قیصر اور حمید اصغر نجید کے گھر کے ساتھ تاج الدین حقیقت کا گھر ہے۔ حمید اصغر نجید ایک ٹریفک حادثے کا شکار ہو گئے تھے، ان کے گھر کے ساتھ ہی ذرا آگے ’’امروز‘‘ کے چیف نیوز ایڈیٹر حیدر علی اور مشرق والے جعفر علی سید اور صحافیوں کے لیڈر اور ڈان کے سابق بیورو چیف آئی ایچ راشد اور اس کے سامنے ان کے چھوٹے بھائی فوٹو گرافر یاسین کا گھر ہے جبکہ ان سے تھوڑی دور مشرق کے عروج کے زمانے میں اس کے فلم ایڈیٹر حسن رضا خان رہتے تھے گلی نمبر 8 میں پاکستان کے ممتاز آرٹسٹ ڈاکٹر اعجاز انور کے والد مشہور زمانہ کارٹون ’’ننھا‘‘ بنانے والے وہ انور علی رہتے تھے جنہوں نے پاکستان ٹائمز اور سول اینڈ ملٹری گزٹ میں اپنے ’’ننھا‘‘ کی اشاعت سے تاریخی مقبولیت حاصل کی۔ انور قدوائی والی گلی ہی میں ریاض ملک اور ان کے سامنے میرے گھر کے ساتھ مشرق والے ندیم انبالوی تھے جو حادثاتی طور پر اس دنیا سے رخصت ہوئے میرے گھر کے ساتھ ہی ملک محمد حنیف کا گھر ہے مگر وہ غالباً فروخت کر گئے اسی گلی میں اے پی پی کے سابق بیورو چیف دوست محمد یوسفی، جمیل احمد اور مشرق والے چاچا رفیق کے مکان تھے ان کے پیچھے یعنی گلی نمبر 12 میں مشرق کے چیف ایڈیٹر عزیز مظہر اور مشرق ہی کے عظیم صحافی افتخار مرزا، محبوب سبحانی اور شبلی ایم کام کے مکان ہیں پاکستان ٹائمز کے سابق چیف ایڈیٹر اور صحافیوں کے لیڈر مقبول شریف کا ایک مکان تو اس گلی میں تھا مگر انہوں نے کبھی وہاں رہائش اختیار نہ کی ان سے کچھ دور اپنے دور کے البیلے صحافی رانا طلعت محمود رہتے تھے۔ جہاں زیب بلاک کی مسجد کے عقب میں روزنامہ ’’پاکستان‘‘ کے سابق صحافی ممتاز گیلانی رہتے ہیں جو برصغیر کے عظیم شاعر الطاف مشہدی کے بھانجے ہیں گلی نمبر 13 میں ’’امروز‘‘ والے عزیز اثری رہا کرتے تھے جبکہ ان سے دو تین گلیاں آگے پاکستان کے عظیم آرٹسٹ اور صحافی اسلم کمال اور ماہر تعلیم و نقاد ڈاکٹر سلیم اختر رہتے ہیں اور ان کے قریب ہی افسانہ نگار و ایڈیٹر نصیر اے شیخ اور عمر بھر محکمہ تعلیم کی خدمت کرنے والے ماہر تعلیم اور قرآن مجید کے مترجم علامہ غلام شبیر بخاری کی رہائش تھی۔ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے سابق پروفیسر اور رباعی کے شاعر عمر فیضی اور امریکہ میں رہائش پذیر پاکستان کے ممتاز صحافی اکمل علیمی کے چچا پروفیسر حسن بھی رہتے تھے۔ مشرق کے صحافی اور کئی انگریزی کتابوں کے مترجم محمد یحییٰ بھی انور قدوائی کے گھر سے بیس فٹ ہی دور رہتے ہیں۔ ڈاکٹر اجمل نیازی یا ان کی بیگم کا مکان بھی عزیز اثری والی گلی میں ہے ،پروفیسر اے۔ آر خالد جہاں زیب بلاک کی رونق تھے مگر کوئی ایک برس قبل جوہر ٹاؤن منتقل ہوگئے۔عثمان فوٹو گرافر بھی یہیں مقیم ہیں ملک امیر اعوان (پاکستان ٹائمز) اور اس اخبار کے چیف رپورٹر اصغر بٹ بھی جہاں زیب بلاک کے مکین تھے۔ملک محمد حسین، ریاض بٹالوی اور محمود بٹ آرٹسٹ بھی اس بستی میں رہنے کی سہولت تو رکھتے تھے مگر انہوں نے یہاں رہائش اختیار نہ کی البتہ کچھ یگانہ روز گار صحافی اور قلم کار اور نقاد جہاں زیب کے قریبی بلاک یعنی ستلج بلاک کی رونق رہے بھی اور کچھ ہیں بھی ان میں ڈاکٹر انور سدید، اشرف قدسی وحید فاطمی، طاہر لاہوری، سعید ساحلی، پروفیسر شفیق، یگانہ روزگار ایڈیٹر، دانشور اور بان�ئ پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کے شیدائی منیر احمد منیر اور ایکسپریس والے مظہر منہاس شامل ہیں۔ بہر حال اس مضمون میں جن شخصیات کا ذکر کیا گیا ہے ان میں سے انور قدوائی سے پہلے 36 صحافی، نقاد، دانشور، ماہرین تعلیم، قلمکار اور پروفیسرز وفات پا چکے ہیں تو میں کیا عرض کروں کہ گلشنِ جہاں زیب بلاک کیا تھا اور کیا رہ گیا ہے میں کم و بیش ان تمام لوگوں کے آخری سفر میں شامل ہوا ہوں تو اب کیا بتاؤں کہ اب میرا کیا حال ہے کیونکہ میں ان میں سے ایک ایک کے ساتھ کام کرتا رہا ہوں۔ ملتا رہا ہوں گفتگو کرتا رہا ہوں اور اب شاید وہ جنت الفردوس میں منتظر ہیں یا اپنے اپنے اعمال کا جھنجھٹ نمٹا رہے ہیں۔
آسماں ’’ان‘‘ کی لحد پر شبنم افشانی کرے