کراچی کی سڑکیں ،یوسفی اورہفتہ وار گرم مسالہ

کراچی کی سڑکیں ،یوسفی اورہفتہ وار گرم مسالہ
کراچی کی سڑکیں ،یوسفی اورہفتہ وار گرم مسالہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کراچی کے موسم اور ٹریفک کا کوئی اعتبار نہیں۔۔۔۔برف باری اور بارش کہیں بھی ہو سردی کراچی میں بڑھ جاتی ہے اسی طرح احتجاجی مظاہرہ کسی ایک سڑک پر ہوتو باقی سڑکیں’’آٹومیٹک سسٹم‘‘کے تحت جام ہوجاتی ہیں۔۔۔۔اتنی تو نئی بھرتیاں ٹریفک پولیس میں نہیں ہوتیں جتنی نئی گاڑیاں ہر ماہ سڑکوں پر دھواں چھوڑنے کیلئے کمپنیوں سے نکل آتی ہیں۔۔۔۔پاکستان وہ ملک ہے جہاں سورج پورا سال اپنی شعاعیں شدت کے ساتھ زمین پر پھینکتا رہتاہے لیکن ہم اس سے بجلی نہیں بناتے۔۔۔۔سولر پلانٹ نہیں لگاتے۔۔۔۔سولر گاڑیاں نہیں چلاتے۔۔۔۔ہمارے حکمران صرف پیسہ اور ہم صرف باتیں بناتے ہیں۔۔۔۔پاکستانی عوام بہت صابروشاکرقوم ہے جتنے اسکینڈل ہمارے پاس ہیں۔۔۔۔جتنے مسائل ہمیں درپیش ہیں۔۔۔۔جتنی بے روزگاری کا ہم شکارہیں۔۔۔۔تعلیم اور صحت کا جو حال ہمارے ملک میں ہے اس’’ حال‘‘ کو غور سے دیکھ لیں تو مستقبل بھی معلوم ہوجائیگا۔۔۔۔مسائل کا تذکرہ کیا جائے توصرف اقتباسات سے نصاب کی کئی کتابیں بن سکتی ہیں۔۔۔۔ہم ’’اولڈ از گولڈ‘‘کے چاہنے والے ہیں اس لئے سال تو نیاآگیا لیکن مسائل وہی پرانے ہیں۔۔۔۔پاناما کا ہنگامہ پھر شروع ہوچکا ہے۔۔۔۔۔پیٹرول پھر مہنگا ہونے کی تیاری کررہا ہے۔۔۔۔دودھ کے نرخ بڑھانے کرنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔۔۔۔نیپرا پر تنقید کرنے والے سی این جی مالکان نے اختیارات ہاتھ میں آتے ہی سی این جی کی قیمت بڑھادی ہے۔۔۔۔ٹرانسپورٹر ز کو یہ سہولت بھی حاصل ہے کہ چاہے ڈیزل مہنگا ہو یا سی این جی کرائے بڑھائے بغیر ان کا گذارہ نہیں۔۔۔۔کوئی اِن سے یہ بھی پوچھے کہ گاڑیاں کون سے ایندھن پر چلاتے ہیں؟حکومتوں کا حال بھی کراچی کی ٹوٹی پھوٹی سڑکوں جیسا ہے۔۔۔لاہور میں تو پھر بھی کام ہورہے ہیں لیکن کراچی کا کوئی پرسان حال نہیں۔۔۔۔یہاں تو آئی جی بھی عدالت کے حکم پر چھٹیوں سے واپس آتا ہے۔۔۔۔پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں یہ فرق تو بہر حال ہے کہ ن لیگ نے پورے پنجاب کو نہ سہی وسطی پنجاب کو مکمل بدل دیا ہے لیکن پیپلز پارٹی کو یہ توفیق کہاں ہوسکتی ہے ؟کسی نے پیپلز پارٹی پر کیا خوب تبصرہ کیا کہ ’’پیپلزپارٹی کی حیثیت اب پاکستانی سیاست میں ایک ماسی کی سی ہے جو صرف دال روٹی اور پرانا کپڑا لتا مل جانے کی آس میں ہی سر توڑ محنت کر رہی ہے‘‘۔

اس ہفتے کچھ ذکر مزاح کے پروفیسر ’’مشتاق احمد یوسفی ‘‘کا ہوجائے‘ ان کی پانچ کتابیں شائع ہوچکی ہیں جن میں چراغ تلے (1961ء )خاکم بدہن(1969ء) زرگزشت (1976ء) آبِ گم(1990ء)شامِ شعرِ یاراں (2014ء)شامل ہیں۔ڈاکٹر ظہیر فتح پوری کے مطابق ’’ہم اردو مزاح کے عہد یوسفی میں جی رہے ہیں۔‘‘ابن انشاء بھی مشتاق یوسفی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’ اگر مزاحیہ ادب کے موجودہ دور کو ہم کسی نام سے منسوب کر سکتے ہیں تو وہ یوسفی ہی کا نام ہے۔‘‘چراغ تلے میں ’’پڑئیے گر بیمار‘‘ ایسا مضمون ہے جو یوسفی کے مزاح کی نمائندہ تحریر کہلایا جا سکتا ہے۔ ہمارے مشرقی معاشرے میں ’’عیادت‘‘ کو آنے والے مریض کو کیسے کیسے تنگ کرتے ہیں اور مریض کو چاروناچار خوش اخلاقی کا مظاہرہ بھی کرنا ہوتا ہے۔ اس کی تفصیل باریک بینی سے بیان کی ہے۔ مثلاً اس مضمون میں ہر شخص کی ناقص طبعی معلومات کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’ سنا ہے کہ شائستہ آدمی کی پہچان یہ ہے کہ اگر آپ ا س سے کہیں کہ مجھے فلاں بیماری ہے تو وہ کوئی آزمودہ دوا نہ بتائے۔ شائستگی کا یہ سخت معیار صحیح تسلیم کر لیا جائے تو ہمارے ملک میں سوائے ڈاکٹروں کے کوئی اللہ کا بندہ شائستہ کہلانے کا مستحق نہ نکلے۔‘‘
مرغیوں کی گھر میں آمد پر یوسفی کو اپنا گھر اپنا نہیں لگتا تو لکھتے ہیں۔
یہ گھر جو میرا ہے تیر ا نہیں
پر اب گھر یہ تیرا ہے میرا نہیں
اور اگر پیروڈ ی دیکھنا ہو تو جابجا ایسی تحریف پیش کی گئی ہیں کہ یوسفی نے اس دقیق حربے کو ہر بدنظمی سے بچائے رکھا ہے۔
نہ کوئی خندہ رہا اور نہ کوئی خندہ نواز
مشتاق احمد یوسفی بینک میں اکاؤنٹنٹ تھے انہوں نے ایک جگہ لکھاہے کہ’’بینک میں لکھتے سب انگریزی میں تھے ‘گفتگو اردومیں‘ لیکن گالی ہر شخص اپنی مادری زبان میں ہی دیتا ‘‘
زبانِ غیر سے کیا شرح آرزوکرتے
اشفاق ورک لکھتے ہیں کہ ’’یہ مصرع جب بھی سنیں گے آتش یاد آئے نہ آئے مشتاق یوسفی یاد ضرور آئے گایعنی چوری اور دماغ زوری‘‘
مشتاق یوسفی کا یہ جملہ آپ کبھی نہیں بھلا سکتے کہ ’’مرد کی آنکھ اور عورت کی زبان کا دم سب سے آخر میں نکلتا ہے‘‘۔مشتاق یوسفی پر لکھنے کیلئے پورا میگزین کم پڑسکتا ہے اس لئے تھوڑے پر گذاراہ کیجئے۔سوشل میڈیا پر اس ہفتے کیا’’ پاگل پن ‘‘ہوتا رہا آپ بھی ملاحظہ فرمائیں۔
مکس پلیٹ
حالات و واقعات سے لگ رہا ہے جمہوریت کے کمزور ہونے کی باتیں پھرشروع ہونے والی ہیں اور اب جمہوریت کو نئے الیکشن کے ’’وٹامن بی کمپلیکس ‘‘کی ضرورت ہے*چونسٹھ سالہ عمران خان فرما رہے ہیں کہ پینسٹھ سالہ جاوید ہاشمی عمر کے جس حصے میں ہیں اس میں بندے کا دماغی توازن ٹھیک نہیں رہتا*میڈیا والوں کے پاس پانامہ کے اتنے ثبوت ہیں کہ اس کیس کی تو کارروائی بعد میں ہونی چاہئے سزا پہلے ہوجانی چاہئے*جس صوبے میں مریض بستر نہ ملنے سے اسپتال کے ٹھنڈے صحن میں ٹھٹھرکر مر جاتے ہوں‘ وہاں سڑکیں، پل، میٹرو اور ٹرین جیسے منصوبے بے معنی کہلاتے ہیں*مرد کے دل میں دوسری عورت کی اور عورت کی الماری میں نئے سوٹ کی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے*پاکستان کی خارجہ پالیسی اب پرندوں (تلور) کے ذمہ ہے‘ داخلہ پالیسی پہلے ہی درندے (شیر) چلا رہے ہیں اور فضائی پالیسی چرندوں(بکروں) پر چل رہی ہے*غیرمسلموں کو آئندہ اپنے تہواروں پرشراب کی بجائے بھنگ سے کام چلانا چاہیے تاکہ نشہ بھی چڑھ جائے اور جان بھی بچ جائے*قیامِ پاکستان کے بعد ہمیں جناح جیسا فقید المثال رہنما تو نہ مل سکا مگر ہم نے کئی قائدِ اعظم بنا لئے* Push اور Pull پر دروازے سے جھگڑا متوسط طبقے کا مسئلہ ہے امیر آدمی کو دیکھ کہ چوکیدار دروازہ خود کھول دیتا اور غریب کو بھگا دیتا ہے *پاکستانی ایچ آر منیجر اس لیول پر ہیں کہ اگر اسٹیو جاب مائیکروسافٹ میں انٹرویو دینے آتا تو کہہ دیتے آپ کا تجربہ اس جاب سے ریلیونٹ نہیں ہے *دنیا میں سب سے سخت جان پاکستانی ہیں روز غذا کے نام پر زہر کھاکر بھی زندہ ہیں۔

.

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -