سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 37

سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 37
سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 37

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

سلطان نے پوچھا ’’آمد کا سبب‘‘
’’نائب السلطنت کا فرمان‘‘
پھر سلطان مسکرا کر کھڑے ہو گئے اور اندرونِ محل کے دروازے کی طرف چلے۔عمررسیدہ خواجہ سراؤں نے لپک کر اطلاع کی۔کنیزوں کی رفتار مدھم ہو گئی اور گفتار مودب۔سلطان صحن ہی میں تھے کہ خاتون شام پیشوائی کو آئیں۔مزاج پرسی کی اور ان کو رات میں دیکھا ہوابیداری کا خواب ستانے لگا۔ محسوس ہوا جیسے جین نے استقبال کیا ہو۔ سلام کے جواب میں بہن کے سر پر ہاتھ پھیرا۔ دو چار رسمی باتیں کیں اور حمام کی طرف چلے۔ مزاج شناس غلام دوڑنے لگے۔ عربی دریچوں کے حلبی شیشوں پر یمنی پردے برابر کردئیے گئے۔ معطر پانی پڑتے ہی بدن کے رو میں جھجک کر کھڑے ہوگئے۔ غلام نے بدحواسی میں گرم کے بجائے سرد پانی کا لوٹا دے دیا تھا۔ مدتوں کی جانفشانی سے تھکا ہوا جسم کانپ اُٹھا۔ غصے کو ضبط کرکے دھیمی آواز میں فرمایا۔

سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 36 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’قتل کرنے کاارادہ ہو تو بتلادو‘‘
جلدی جلدی کپڑے پہنے اور سمور کی چادر اوڑھ کر باہر نکل آئے۔ زریں نقش و نگار سے آراستہ مرمریں محرابوں اور ہشت پہل ستونوں کے چمکیلے دالان میں گلابی دھوپ اپنے چمکیلے سنہرے پر پھیلائے لیٹی ہوئی تھی۔ وسط میں بچھے ہوئے چاند کے دیوان پر آکر بیٹھ گئے۔ شاہزادہ ظفر کفتان پر چاندی کے کمر بند میں ننھا سا نیمچہ باندھے سلام کو حاضر ہوا۔ اس سے مسکرا کر باتیں کیں۔ چند تولے شیرہ بادام کا ناشتہ کیا اور اسکی انگلی پکڑ کر آہستہ آہستہ چلتے ہوئے دیوان عام میں گئے۔
چھت پر محلول جواہرات کی نقاشی تھی۔ دیواروں پر سونے کی استرکار اینٹوں کی آرائش تھی اور زردقالینوں کی فرش پر چھوٹا ساآبنوسی تخت بچھا تھا اور دروازوں پر سائلین کے پردے کھڑے تھے۔ انہوں نے زردتکیوں سے پشت لگائی اور وزیر ابوبکر نے عرضیاں پیش کیں۔ ایک غلام ہاتھی دانت کا قلمدان لئے کھڑا تھا۔ عرضیاں پڑھتے رہے۔ ایک شخص گڑگڑاتا ہوا بڑھا۔ قالین پر پڑے ہوئے عبائے سلطانی کے دامن پر پاؤں رکھ کر کھڑا ہوگیا۔ پشت کی صف سے ایک غلام چاندی کا عصا لے کر نکلا اور اس کی گردن دبوچ لی۔ سلطان نے قلم روک کر غلام کو خشمگیں نگاہ سے دیکھا اور فرمایا
’’غرض مند اندھا ہوتا ہے‘‘
دوپہر کے وقت جب ایک ایک سوالی کا سوال پورا ہوچکا اور قحطان پر نگاہ پڑی تو اٹھ کھڑے ہوئے۔ اسے ساتھ لے کر چلتے چلتے حکم صادر فرمایا۔
’’گھوڑے تیا ر کریں‘‘
دستر خوان پر خاصہ چننے والے خواجہ سراسے فرمایا۔
’’آج طبیعت ٹھیک ہے اور پرہیز سے زبان بدمزہ ہو گئی ہے۔چاول اور دودھ کھانے کی خواہش ہے‘‘
دستر خوان پرچاولوں کی قابیں چن دی گئیں جن سے زعفران کی خوشبو آرہی تھی اور گاڑھے دودھ کے پیالے رکھے دیئے گئے۔قحطان اور ندیموں کو اصرار کر کے اپنے ساتھ بٹھایا۔مزے لے لے کر اور سیر ہو کر کھایا۔
ظہرکے بعد خلوتِ شاہی سے برآمد ہوئے۔بارگاہ کے سیاہ سنگین چبوترے کے نیچے محمل اور سونے کے ساز پہنے وہ درجنوں گھوڑے کھڑے تھے۔جن کاروئے زمین پر جواب نہ تھا۔قحطان کوحکم دے کر گھوڑا پسندکرایا اور خوداس ’’ابلق‘‘ کی پیشانی پر ہاتھ پھیرنے لگے جس کے سیمیں ایال گردن کے نیچے تک لٹک رہے تھے اور جو زریں رکا بیں پہنے تصویر کی طرح کھڑاتھا۔عالم اسلام کے سب سے بڑے شہسوار کی سواری سے مشرف ہونے کیلئے بجلی کی طرح تڑپنے لگا۔قصرکے پھاٹک سے نکلتے ہی دورویہ کھڑی ہوئی مملوک شہسواروں کی قطاریں حرکت میں آگئیں۔وہ دمشق کی آبادی سے کترا کر شہر پناہ کے مغربی دروازے کے محافظوں کے سلام لے کر شہر سے باہر آگئے۔ایک ہزارخاصہ براداروں نے ایک میل کے قطرکا حلقہ بنایااور سلطان اعظم کو اپنی حفاظت میں لے کرجنگل کی طرف چلے۔سلطان نے اشارے سے قحطان کو اپنے قریب کر لیا۔ندیم گھوڑے بڑھا کر ادھر ادھر ہو گئے۔
’’کل ہماری طعبیت بھی بحال نہیں ہوئی تھی اور ہم نے تم کو ٹھیک سے پہچانا بھی نہیں تھا۔تمہارے بال تو ہم سے بھی زیادہ سفید ہو گئے‘‘
’’موٹے ہو کر سچ مچ پادری ہونے لگے ہو۔‘‘
اور ایک قہقہ لگایا جس نے قحطان پر مسلط رعب سلطانی کو دھو ڈالا۔اور اس نے اپنے آپ کو گفتگو پر آمادہ کر لیا۔
’’اس خطرناک سفارت پر تمہارے انتخاب کے معنی یہ ہیں کہ ایلینورکو تم پر مکمل اعتماد ہے‘‘
سلطان اعظم !اس وقت سفارت کو تاریخ کی کتابوں میں پڑھاتھا۔فرانس وانگلستان کے درباروں میں برتتے ہوئے دیکھا لیکن اس کی نوعیت اور نزاکت کا اس وقت احساس ہوا جب آدابِ حکومت کے حجابوں میں جھلماتی ہوئی آنکھوں۔۔۔۔ شاہی آنکھوں نے ایک عورت کے دل کی پیامبری کا حکم دیا۔
عالم پناہا!اگر میں ادیب ہوتا۔۔خطیب ہوتا تو ان پرجلال اور خاموشی آنکھوں کی داستان آپ کے حضور پیش کر دیتا جسے میرے دل نے سنا تھا۔۔۔اگر میں مصور ہوتا تو وہ منظر کھینچ دیتا جسے میری نظروں نے دیکھا تھا۔
شہنشاہا!کاغذکا وہ ٹکڑاجسے میں نے حضور میں گزاراہے کئی راتوں کی جان لیوا بیداریوں میں مکمل ہواہے۔۔میرا سامانِ سفر تیار تھا۔میں روزصبح بارگاہِ خاص پر حاضر ہوتا اور ناکام پھر آتا۔۔اس صبح جب مجھے باریاب کیا گیا،آسمان سے زمین تک سرمئی دھند چھائی ہوئی تھی۔خواب گاہ کے فانوس روشن تھے،بے شکن بستر بیداری کا غماز تھا۔اور ملکہ حالیہ چاندی کی کرسی پر زرد محمل کا بے داغ شب خوابی لباس پہنے شانوں پرسمورکی چادر ڈالے کرسی کے دستے پر کہنی ٹیکے،ہتھیلی پر چہرہ لئے ساکت بیٹھی ہوئی تھیں۔۔عالم پناہا۔۔۔وقت ان کے حضور سے مودب گزرا ہے۔۔۔ماہ وسال کی گردش نے ان کے چہرے سے شوخی کے وہ پھول توڑلئے جو شوکت جہاں بانی کو زیب نہیں دیتے اور ان کی پر جلال شخصیت کو برگزیدہ دلکشی کا وہ تاج پہنا دیا جو کبھی کبھی کسی کسی خاکی کو عطا ہوتا ہے‘‘
’’شاہ فرانس سے ان کے تعلقات اس حد تک کیسے خراب ہو گئے کہ نوبت طلاق تک جا پہنچی؟
’’غلام کو حیرت ہے کہ سلطانِ اعظم یہ سوال فرما رہے ہیں‘‘
’’کیوں‘‘
’’ملکہ عالیہ وہ چند دن فراموش نہ کر سکیں جو انہوں نے دریائے زرفشاں کے کنارے مشرق کے ہونے والے شہنشاہ کی قربت میں گزار ے تھے۔وہ سپردگی جو انہوں نے سلطانِ اعظم پرنچھاورکر دی لوئی کو نصیب نہ ہو سکی۔فرانس پہنچنے کے چند ہی روز بعد انہوں نے تیسری صلیبی جنگ کا خواب دیکھا اور اس کی تعبیر کی جستجو نے لوئی کے شک کو یقین میں بدل دیا اور تعلقات ختم ہو گئے‘‘
’’جب تیسری صلیبی جنگ برپا ہوئی تب تو وہ مشرق میں ورودکر سکتی تھیں‘‘
’’ارشاد عالی درست ہے۔۔۔یہ ان کے منصوبے کا دوسرا حصہ تھا۔لیکن شہزادہ جون کو تنہا چھوڑنا آئین حکومت کے خلاف سمجھا گیا۔اگرملکہ عالیہ بھی رچرڈ کے ساتھ نظر بند ہو گئی ہوتیں تو انگلستان کا قصہ ختم ہو چکا ہوتا۔ان کی مو جودگی نے ہی تخت شاہی کو جون کے قدموں سے بچائے رکھا‘‘
شاداب پہاڑوں کی سر سبز گھاٹیاں،خوشبودار جھاڑیاں،گنگنائے ہوئے چشمے،بلبلوں کے گھنگھرو پہنے،ناچتی،ہوئی دبلی پتلی نہریں ،سلامی کیلئے خاموش کھڑے ہوئے دیوپیکر درختوں کی قطاریں سروصنوبر کے سبز پوش غلام زادے،بھیڑوں کے گلے،الغوزے کی تانوں میں مست چروا ہے،چکاروں کی ڈاریں،پرندوں کی اڑانوں کی سنسناہٹیں۔۔ہر وہ منظر موجود تھا،ان کے حضور سے گزر رہا تھا جس کی قبولیت کیلئے سلطان اعظم سوار ہوئے تھے۔لیکن گہرے خیالات میں ڈوبی ہوئی آنکھیں صرف ایک صورت دیکھ رہی تھیں جس کی رفتار نے ایشیا سے یورپ تک کہ نصف صدی کی پوری تاریخ پر اپنے نقش پاکی مہریں ثبت کر دی تھیں۔(جاری ہے)

سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 38 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں