شیروں کا شکاری ، امریکہ میں مقیم شکاری اور شاعر قمر نقوی کی شکار بیتیاں ..۔ قسط 10

شیروں کا شکاری ، امریکہ میں مقیم شکاری اور شاعر قمر نقوی کی شکار بیتیاں ..۔ ...
شیروں کا شکاری ، امریکہ میں مقیم شکاری اور شاعر قمر نقوی کی شکار بیتیاں ..۔ قسط 10

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

میرا خیال تھا کہ ہنڈی کو ہی مستقل کیمپ بنایا جائے، لیکن جب وہاں پہنچ کر حالات کا جائزہ لیا تو پالی پور جانا بہتر نظر آیا، پالی پور کو مستقر بنانے میں فائدہ یہ تھا کہ اطراف کی ساری آبادیوں سے ہر وقت اطلاعات ملتی رہتیں۔ یوں بھی میں جہاں پہنچتا، وہاں کے لوگوں کو اب تک یہ بتاتا آیاتھا کہ شیر کے بارے میں کوئی اطلاع ملے تو فوراً مجھے پہنچائی جائے۔ ہنڈی میں رات کو ٹھہر کر صبح ہم لوگ پالی پور کے لئے روانہ ہوگئے۔
ہنڈی سے پالی پور تک بیل گاڑی کا راستہ تھا۔ جب بیل گاڑی پر سامان لادا جاچکا تو بیلوں کو ہنکانے کے لئے کوئی مقامی آدمی راضی نہ ہوا۔ انہوں نے کہا کہ آدم خور، گاڑیوں کو خاص طور پر تاکتا اورنشانہ بناتا ہے۔ یہ بات خود مجھے معلوم تھی اور واقعی گاڑی بان کے لئے خاصا خطرہ تھا لیکن میں نے گاڑی بان کو یقین دلایا کہ ایک تو شیر اس گاڑی پر حملہ کرے گا ہی نہیں اور اگر ایسا ہوا بھی تو ہم لوگ اس ملاقات کے اشتیاق میں ہی یہاں اتنی مشقت اٹھاکے آئے ہیں۔ غرض بڑی بحث وتحقیق کے بعد اس نے بیلوں کی راس سنبھالی اور وہ بھی اس شرط پر کہ میرا ملازم دلاور اس کے ساتھ بیٹھے۔ دلاور بخوشی اس کے ساتھ بیٹھ گیا اور عبدالرحیم ہمارے ساتھ پیدل چلنے لگا۔

شیروں کا شکاری ، امریکہ میں مقیم شکاری اور شاعر قمر نقوی کی شکار بیتیاں ..۔ قسط 9 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ہم لوگ ہنڈی کے شاداب کھیتوں، نالوں اور پہاڑی کھائیوں سے نکل کر گھنے جنگل، جھاڑیوں اور رحمتوں کی پسندیدہ جگہوں پر چلنے لگے۔ گاڑی بان بڑی مستعدی سے کلہاڑی اپنے سامنے رکھے ا س طرح بیٹھا تھا کہ چشم زدن میں مدافعت کے لئے تیار ہوجائے گا۔ اس کے چند فٹ پیچھے دلاور بارہ بور کی دو نالی بندوق ہاتھوں میں لئے بیٹھا تھا۔ میں، مسعود اور محمود گاڑی کے پیچھے پیچھے پندرہ بیس گز کے فاصلے سے چل رہے تھے۔
ہم لوگ ہنڈی سے چھ بجے صبح چلے تھے اور اب آٹھ بج رہے تھے لیکن شیر نظر نہ آیا۔ البتہ اس پگڈنڈی پر بے حساب ماگھ ضرور نظر آئے۔ ہنڈی کی طرف آتے ہوئے بھی اور واپس پالی پور یا نہار موڑ کی طرف جاتے ہوئے بھی۔ میں اس سے یہی نتیجہ اخذ کرسکا کہ یہ رحمتو کے ہی ماگھ ہیں۔ شیر کے پَیر کے نشان کو ماگھ کہتے ہیں۔ اور ماگھ کو دیکھ کر بعض تجربہ کار اور پرانے شکاری شیر کی جنس، عمر ، قدوقامت اور وزن کا صحیح اندازہ کرلیتے ہیں۔ میں ماگھ کو دیکھ کر صرف اس کی جنس اور قدوقامت کا ہی اندازہ کرسکتا ہوں۔ چنانچہ میں نے فیصلہ کیا کہ رحمتو قدوقامت میں کچھ غیر معمولی جسم نہیں۔ میرا یہ قیاس مرلی اور عبدالرحیم کے بیانات کی بھی تصدیق کرتا تھا۔
نہار موڑ کے قرب پہنچ کر ہم لوگ اور زیادہ محتاط ہوگئے۔ اس مقام پر اس آدم خور نے کئی جانیں لی تھیں۔ یہاں سے ہم نے وہ مثلث چٹان بھی دیکھی جو رحمتو کے غار کے سامنے اس کی مسند کا کام دیا کرتی تھی۔ اس وقت وہاں ویرانی کا عالم تھا۔ نہار موڑ سے میں نے گاڑی کو پالی پور کی طرف چلنے دیا۔ مسعود اور محمود کو ہوشیاری کے ساتھ گاڑی سے بیس پچیس گز ہٹ کر چلتے رہنے کی تاکید کی اور خود عبدالرحیم میری اس حرکت پر متعجب بھی تھا اور کسی قدر خوفزدہ بھی۔ اس نے مجھ سے کہا بھی کہ شیر کی کچھار میں کوئی نہیں جاتا، پھر شیر بھی آدم خور! میں نے ہوں ہاں کرکے اسے ٹال دیا۔
یہاں برگد اور پیپل کے کئی بڑے بڑے درخت پہاڑ کے عین دامن میں واقع ہیں اور درختوں کے نیچے فالسے اور کروندے کے چھوٹے بڑے درخت اور جھاڑیاں پھیلی ہوئی ہیں۔ اس جگہ ماگھ کے نشانات زیادہ نظر آئے اور میں نے اسی وقت فیصلہ کیا کہ مچان بندھوانے اور بیٹھنے کے لئے یہی جگہ مناسب ہے۔
گھنٹہ ڈیڑھ مختلف جگہوں پر گھومنے اور نالوں اورکھائیوں کا جائزہ لینے کے بعد میں ایک نالے کے کنارے کنارے پالی پور کی طرف چل دیا۔ عبدالرحیم اب تک خاموشی سے میری حرکات کا جائزہ لے رہا تھا اور غالباً اسے دوسرے شکاریوں کے ،مقابلے میں میری حرکات زیادہ تسلی بخش نظر آئیں، جس کا اس نے زبانی اظہار تو نہیں کیا البتہ چہرے سے اس کے دلی جذبات کا اظہار ہوتا تھا۔
تھوڑی دور چل کر میں ایک جگہ ٹھہرگیا۔ یہاں ایک پگڈنڈی نالے کے دوسرے کنارے سے نالے کے اندر اتری تھی اور جس کنارے پر میں تھا وہاں سے نکل کر پالی پور کی طرف چلی گئی تھی۔ اس پگڈنڈی کے عین کنارے پر میں ٹھہرا تھا اور ٹھہرنے کی وجہ یہ تھی کہ پگڈنڈی پر رحمتو کے تازہ ماگھ موجود تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ میرے وہاں پہنچنے کے چند ہی سیکنڈ پہلے شیر وہاں سے گزرا ہے۔ میں نے وہاں ٹھہرتے ہی اپنی دونالی چار سو پچاس ایکسپریس کے دونوں گھوڑے چھڑادئیے۔ اس کے بعد عبدالرحیم کو اشارہ کیا کہ جھک کر ماگھ کا جائزہ لے۔
عبدالرحیم نے ماگھ کو ایک نظر دیکھا اور سیدھے ہوتے ہوتے اپنی بارہ بور کی دونالی بندوق کے گھوڑے چڑھالئے۔ اس کی اس حرکت پر میں اپنی مسکراہٹ چھپا نہ سکا اور وہ ایسے خطرناک موقعے پر مجھے مسکراتا دیکھ کر غالباً کافی متعجب ہوا ہوگا کیونکہ اس نے کئی دفعہ حیرت بھری نظروں سے مجھے دیکھا۔(جاری ہے )

شیروں کا شکاری ، امریکہ میں مقیم شکاری اور شاعر قمر نقوی کی شکار بیتیاں ..۔ قسط 11 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں