مسلماں کے لہو میں ہے سلیقہ دلنوازی کا
سوشل میڈیا پر اَپ لوڈ کئے گئے بعض حقائق اگر بے بنیاد ہوتے ہیں تو بعض چشم کشا اور سبق آموز بھی ہوتے ہیں۔۔۔ ایک ایسا ہی کلپ انگریزی زبان میں ایک دوست نے بھیجا جس کا ترجمہ درج ذیل ہے:
’’دوسری جنگ عظیم میں جب جرمنی کو شکست ہو گئی تو 20لاکھ جرمن خواتین اتحادی ٹروپس کے ہاتھوں زنا بالجبر (Rape) کا شکار ہوئیں۔ ان میں سے بعض کی لاشیں بازاروں اور گلیوں میں پڑی سڑتی رہیں۔ یہ وہ جرمن دوشیزائیں تھیں جنہوں نے فاتح اتحادی ٹروپس کے سامنے اپنا جسم سرنڈر کرتے وقت ذرا سی بھی مزاحمت کی تھی۔
اتحادی ٹروپس نے ہر اُس لڑکی / خاتون کو بے دردی سے قتل کرنے میں ایک لمحہ کی دیر بھی نہ لگائی جس نے ان کے مطالبے کے سامنے سر تسلیم خم کرنے میں ذرا سی بھی پس و پیش کی۔ جرمنی نے 1950ء کے عشرے کے وسط تک ان 37000بچوں اور بچیوں کو ’خالص‘ جرمن شہری قرار دے دیا جن کی ماں تو جرمن تھی لیکن باپ کا پتہ نہ تھا کہ وہ کون ہے۔
اس معاملے کی باقاعدہ تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا کہ روسیوں نے دس لاکھ جرمنی خواتین کی آبرو ریزی کی، امریکیوں نے 1,90,000کی، برطانویوں نے 45000کی اور فرانسیسیوں نے 50,000کی۔۔۔‘‘
اس کلپ پر تبصرہ کرتے ہوئے کلپ کے آخر میں یہ اضافہ بھی کیا گیا تھا کہ محکوم و مفتوح جرمن خواتین پر یہ مظالم ڈھانے والے آج ہمیں ’’انسانی بنیادی حقوق ‘‘ اور ’’حقوقِ نسواں‘‘ کی پامالی کا ذمہ دار گردانتے ہیں!‘‘
تاریخِ جنگ و جدال میں بعض ضرب الامثال ایسی ہیں جن کو زمان و مکان (Time and Space) کا کوئی تغیر بھی جھوٹا ثابت نہیں کر سکا۔ ان میں ایک مقولہ / ضرب المثل یہ بھی ہے : ’’جنگ میں سب سے پہلا شکار نسوانی عصمت کا ہوتا ہے!‘‘۔۔۔ یادش بخیر، میں جب مرحوم جنرل حکیم ارشد قریشی کی کتاب : ’’1971ء کی پاک بھارت جنگ‘‘ کا اردو ترجمہ کر رہا تھا تو ان سے ہفتہ میں ایک ملاقات ضرور ہوتی تھی۔ پاکستان کے دشمنوں نے جن میں نہ صرف انڈین بلکہ مغرب کا اکثر و بیشتر میڈیا شامل ہے اس پراپیگنڈے کو خوب خوب ہوا دی کہ 25مارچ 1971ء کو جب بنگلہ دیش (اس وقت مشرقی پاکستان) کے خلاف پاکستان آرمی نے ملٹری ایکشن کیا تو جانی اور مالی نقصانات کے علاوہ 30لاکھ بنگالی خواتین کو ریپ بھی کیا۔
اس موضوع پر جنرل مرحوم کے پاس بھی کافی مطبوعہ مواد موجود تھا اور میرے پاس بھی بہت سی ایسی کتابیں تھیں جو اس جنگ پر اس وقت تک لکھی گئی تھیں۔ ان کا حوالہ دے کر ہم دونوں بھارتی اور مغربی میڈیا کے اس سراسر غلط اور اشتعال انگیز پراپیگنڈے کا ابطال کیا کرتے تھے۔ جنرل حکیم ارشد کی اسی کتاب میں ایک باب بالخصوص اس موضوع پر مختص کیا گیا ہے جس میں خود بنگالی مصنفین کی کتابوں کا حوالہ دے کر ثابت کیا گیا ہے کہ پاکستان آرمی کے خلاف 30لاکھ بنگالی خواتین کو ریپ کرنے کا الزام کسی بھی حوالے سے ثابت نہیں ہوتا۔
اس باب میں بعض معروف مغربی مورخوں کی تحریریں بھی موجود ہیں جن میں یہ استدلال تو کیا گیا ہے کہ نسوانی عصمت، جنگ کا پہلا شکار ہوتی ہے، لیکن ساتھ ہی یہ بھی یاد دلایا گیا ہے کہ پاکستانی فوج مشرقی پاکستان کی اس جنگ میں فاتح نہیں، مفتوح فریق تھی۔ فاتح ٹروپس کامیابی کے نشے میں بدمست ہو کر یہ گھناؤنا کھیل کھیل سکتے ہیں لیکن 1971ء کی جنگ میں انڈین فورسز حملہ آور بھی تھیں اور فاتح بھی تھیں تو پاکستانی ٹروپس پر 30لاکھ بنگالی عورتوں کی عصمت دری کرنے کا الزام کیسے لگایا جا سکتا ہے؟ لیکن ستم یہ بھی ہے کہ اس جنگ کی تاریخ لکھنے والے کئی امریکی اور برطانوی مورخین نے اس تعداد (30لاکھ) کی تائید کی ہے۔۔۔ کاش اس وقت یہ کتاب جس کا ایک پیراگراف اس کالم کے شروع میں درج کیا گیا ہے، شائع ہو گئی ہوتی اور مغربی دانشوروں، لکھاریوں اور مصنفوں کو آئینہ دکھاتی!۔۔۔اس کتاب کا عنوان ہے: ’’خاموش جرائم‘‘ (Crimes Unspoken) اور مصنفہ کا نام پروفیسر مریم جِب ہاٹ (Mirium Gebhardt) ہے۔ اس کو مشہور زمانہ پبلشنگ ہاؤس سائمن اینڈ شستر نے 2015ء میں شائع کیا تھا۔
دوسری عالمی جنگ میں اتحادی (Allies) کون تھے اور ان کے مقابل جن ملکوں کی افواج کو محوری (Axis) کہا جاتا تھا وہ کون تھے ان سوالوں کے جواب کی اگرچہ وضاحت کی ضرورت نہیں لیکن پھر بھی یاد دہانی کے لئے بتا رہا ہوں کہ محوریوں میں صرف تین ممالک تھے جن میں جرمنی، جاپان اور اٹلی شامل تھے۔ اٹلی تو اس جنگ کے خاتمے سے تین برس پہلے (1942-43ء) ہتھیار ڈال چکا تھا۔ جبکہ باقی دو میں سے جرمنی نے یکم مئی 1945ء کو ہتھیار ڈال دیئے تھے کیونکہ 30اپریل 1945ء کو برلن میں ہٹلر نے خودکشی کر لی تھی۔ جرمنی کے سرنڈر کے بعد صرف جاپان وہ واحد محوری ملک تھا جس نے 14اگست 1945ء تک جنگ جاری رکھی۔ یعنی وہ جرمنی کی شکست کے ساڑھے تین ماہ بعد تک (یکم مئی سے 14اگست تک) برسرِ پیکار رہا۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں،6 اور 9اگست 1945ء کو امریکہ نے ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرا کر جاپانی شہنشاہ کو مجبور کر دیا تھا کہ وہ بطور سپریم کمانڈر غیر مشروط طور پر اتحادیوں کے سامنے سرنڈر کر دے۔
14اگست 1945ء کو اتحادیوں کی طرف سے جنرل میکارتھر نے بحرالکاہل میں ایک طیارہ بردار بحری جہاز پر جاپان کی عسکری قیادت سے سرنڈر کی دستاویز پر دستخط کروائے تھے!
جہاں تک اتحادیوں کا تعلق ہے تو وہ جرمنی،جاپان اور اٹلی کے علاوہ دنیا کے دوسرے تمام ممالک سے عبارت تھے۔ ان میں بڑے بڑے اور مشہور ممالک کے نام امریکہ، روس، برطانیہ اور فرانس تھے۔برصغیر چونکہ اس وقت برطانوی ایمپائر کا حصہ تھا اس لئے لاکھوں ہندوستانی فوجیوں نے بھی اس جنگ میں برطانیہ کی طرف سے شرکت کی تھی۔۔۔ ایک اور حقیقت جو شائد کئی قارئین کو معلوم نہ ہو وہ یہ تھی کہ 30اپریل 1945ء کو جب ہٹلر نے اپنی محبوبہ کے ساتھ برلن میں اپنے بنکر میں خودکشی کر لی تھی تو اس وقت تک برلن (جو جرمنی کا دارالحکومت تھا اور آج بھی ہے) میں کوئی بھی اتحادی فوجی داخل نہیں ہوا تھا۔ البتہ روس کی افواج برلن کے مضافات میں پہنچ چکی تھیں اور رشین توپخانے اور فضائیہ کی بمباری کی گھن گرج سن کر ہی ہٹلر نے خودکشی کا اقدام کیا تھا۔ اگلے روز یکم مئی کو سب سے پہلے جو اتحادی فوج برلن میں داخل ہوئی وہ روسی فوج تھی، امریکی، برطانوی یا فرانسیسی نہیں!
یہ دوسری عالمی جنگ 6سال تک جاری رہی اور اس میں امریکہ کے 4لاکھ، فرانس کے 6لاکھ اور برطانیہ کے ساڑھے 4لاکھ ٹروپس کام آئے۔ لیکن جہاں تک روس کا تعلق ہے تو اس کے جانی نقصانات دو کروڑ 70لاکھ تھے! ۔۔۔ یہ ایک ایسی چشم کشا اور ہوش ربا حقیقت ہے جس کا علم اکثر قارئین کو نہیں۔
کالم کے آغاز میں جو پیراگراف دیا گیا ہے اس کی مصنفہ پروفیسر مریم جِب ہاٹ (Miriam Gebhardt) نے کافی ریسرچ کے بعد اس کتاب میں لکھا ہے کہ مغربی مصنفین جو روسی ٹروپس پر الزام لگاتے رہے ہیں کہ چونکہ برلن میں سب سے پہلے وہی داخل ہوئے تھے اس لئے ان کو جرمن خواتین کو ریپ کرنے کے زیادہ مواقع میسر آئے، غلط ہے۔۔۔ مصنفہ کی کتاب کا پہلا فقرہ یہ ہے: ’’جب دوسری عالمی جنگ ختم ہوئی تو لاکھوں ہزاروں جرمن خواتین اتحادی ٹروپس کی ہوس پرستی کا نشانہ بنیں‘‘۔۔۔ یہ کتاب چونکہ 2015ء میں شائع ہوئی اور تب ’’1971ء کی جنگ‘‘ کے مصنف جنہوں نے خود اس جنگ میں حصہ لیا(جنرل حکیم ارشد قریشی) کا انتقال ہو چکا تھا اس لئے وہ اس کا حوالہ اپنی کتاب کے اس باب میں نہ دے سکے جس کا ذکر میں سطورِ بالا میں کر آیا ہوں۔
پروفیسر مریم نے اس کتاب کو لکھنے سے پہلے جو تحقیقی کام کیا وہ از بس قابلِ تعریف ہے۔ وہ لکھتی ہے: ’’سب سے پہلے جن تین جرمن خواتین کی آبرو ریزی کی گئی ان میں ایک شادی شدہ اور ادھیڑ عمر کی تھی۔۔۔ دوسری شادی شدہ نہ تھی اور اکیلی ایک فلیٹ میں رہ رہی تھی۔۔۔ اور تیسری 17سال کی ایک دوشیزہ تھی۔ ان تینوں کو امریکیوں نے ریپ کیا۔ وہ فتح کے نشے میں مخمور تھے۔ میں نے ان ہزاروں لاولد بچوں اوربچیوں کا ریکارڈ بھی چیک کیا ہے جو اس ’’جنگ کی اولاد‘‘ کے نام سے یاد کئے جاتے ہیں۔
یہ سب حرامی بچے تھے اور ان کے باپ کا علم کسی کو بھی نہ تھا۔ دورانِ تحقیق مجھے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر کسی خاتون کو 100مرد بھی ریپ کریں تو ان میں سے ایک مرد کے لطفے سے وہ خاتون حاملہ ہو گی۔ اس حساب سے میں نے یہ اندازہ لگایا ہے کہ ایک لاکھ 90ہزار امریکی سولجرز نے جرمن خواتین کو ریپ کیا۔۔۔ ایک اور بات جس کا مجھے پتہ چلا وہ یہ تھی کہ سب سے زیادہ ریپ، فرانسیسی ٹروپس نے کئے اور سب سے کم برطانوی سولجرز نے۔۔۔ برطانوی سولجرز کی کم تعداد اس سبب سے نہیں تھی کہ وہ کسی ضابطہ ء اخلاق کی پابندی کر رہے تھے بلکہ وجہ یہ تھی کہ برطانوی فوج کے NCOs(نان کمیشنڈ آفیسرز) اپنے جوانوں کو باہر شہروں میں جانے کی کھلی اجازت نہیں دیتے تھے۔ برطانوی فوجیوں کا یہ ڈسپلن ان کی راہ میں حائل نہ ہوتا تو وہ بھی باقی اتحادیوں سے ’’پیچھے‘‘ نہ رہتے۔‘‘
تاہم نجانے کیوں روسی وار آرکا نیوز میں یہ بات باقاعدہ تحریر کی ہوئی ہے کہ روسیوں نے20 لاکھ جرمن خواتین کو ریپ کیا لیکن پروفیسر مریم لکھتی ہے کہ اس کی تحقیق کے مطابق یہ تعداد20لاکھ نہیں5لاکھ تھی۔
اب رشین میڈیا نے اپنے ٹروپس پر لگائے گئے الزامات کو مبالغہ آمیز قرار دیا ہے۔ ان کا استدلال ہے کہ چونکہ رشین فوجی سب سے پہلے برلن میں داخل ہوئے اس لئے ان کو جرمن دفاعی ٹروپس کی طرف سے مزاحمت کا زیادہ سامنا کرنا پڑا۔
کوئی بھی سپاہی بیک وقت دشمن سے لڑتے ہوئے کسی خواتین کی عزت نہیں لوٹ سکتا۔یہ ’’کام‘‘ مکمل فتح کے بعد کا ہے۔ برلن میں امریکی اور فرانسیسی افواج، روسی فوج کے بعد داخل ہوئیں اس لئے قیاس یہی ہے کہ رشین ٹروپس کو جرمن مزاحمتی ٹروپس کا سامنا کرنا پڑا، جبکہ امریکی اور فرانسیسی فوجی جب برلن میں داخل ہوئے تو جرمن مکمل طور پر ہتھیار ڈال چکے تھے۔ جرمن ٹروپس جنگی قیدی بنائے جا چکے تھے یا مار دیئے گئے تھے۔اس زدو خورد اور کشت و خون کے دوران زنا بالجبر کا سرزد ہونا بعید از قیاس ہے۔
مغربی افواج نے اپنا دامن بچانے کے لئے روسی ٹروپس پر جرمن خواتین کی اجتماعی آبرو ریزی کا الزام ثابت کرنے کے لئے کئی فلمیں بھی بنائیں۔ ان میں سب سے معروف فلمLiberators and Liberated تھی۔۔۔ لیکن دنیا جانتی ہے کہ امریکی اس قسم کی پراپیگنڈہ فلمیں بنانے کے فن میں اپنا جواب نہیں رکھتے۔
میں نے مریم جِب ہاٹ کی کتاب کا جزوی مطالعہ کیا ہے۔ یہ348 صفحات پر مشتمل ہے اور اس میں مصنفہ نے برلن کے گردو نواح میں خود جا جا کر ایک ایک گاؤں سے ان واقعات کی تفاصیل اکٹھی کی ہیں، سب سے زیادہ معلومات مریم کو گرجا گھروں کے معمر پادریوں کی طرف سے ملیں۔
میں سوچتا ہوں آج آزادی ء نسواں اور بنیادی انسانی حقوق کے غیر مسلم علمبرداروں کے مقابلے میں مسلم افواج نے ساتویں اور آٹھویں صدی عیسوی میں ایران، عراق، روم، شام، مصر اور افغانستان تک کو فتح کیا۔ لیکن اِن مسلم افواج پر مفتوح غیر مسلم اقوام کی خواتین پر دست درازی کا کوئی ایک واقعہ بھی شاذ ہی پڑھنے کو ملتا ہے۔۔۔۔ یہی وجہ تھی کہ یہ ممالک مسلمانوں کے اخلاق سے متاثر ہو کر جوق در جوق حلقہ بگوش اسلام ہو گئے تھے!۔۔۔
مسلماں کے لہو میں ہے سلیقہ دلنوازی کا
مروّت حسنِ عالمگیر ہے مردانِ غازی کا