وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال کو بڑا جھٹکا ،سپیکرعبدالقدوس بزنجو نے طبل جنگ بجا دیا
کوئٹہ(ڈیلی پاکستان آن لائن)سپیکربلوچستان اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجو نے کہا ہے کہ وزیراعلی جام کمال خان پارٹی اور صوبائی حکومت کو چلانے میں ناکا م ہوچکے ہیں،ان کی ناکامی نے صوبے کو بدحالی کا شکاربنادیا ہے، اس سے بدتر حکومت صوبے کی تاریخ میں کبھی نہیں آئی، وزیراعلی ہاؤس میں اب عوام تو دور کی بات خود وزرا بھی نہیں جاسکتے، اگر وزیراعلی مجھے سیریس نہیں لیتے تو بحیثیت سپیکر میرے الفاظ کی بھی کوئی اہمیت نہیں ہوگی،ہم پارٹی کے اندر تبدیلی کی بات کر رہے ہیں، اس پارٹی کو ہر صورت عوامی پارٹی بنا کر دم لیں گے،وزراء اور وزیراعلیٰ کے بیانات سے سپیکر کے عہدے کا استحقاق مجروح ہوا ہے، میں نے تحریک استحقاق جمع کروائی ہے۔
نجی ٹی وی کے مطابق میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئےسپیکر صوبائی اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجو نے کہا کہ وزیراعلی بلوچستان جام کمال پارٹی اور صوبائی حکومت کو چلانے میں ناکا م ہوچکے ہیں،مجھ پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ میں غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح کہوں ،اس سے کوئی ناراض ہوتا ہے یا خوش وہ میرے لئے معنی نہیں رکھتا، پچھلی بار جب پارٹی میں اختلافات تھے تو چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی آئے اور انہوں نے اس میں اہم کردار ادا کرتے ہوئے اختلافات ختم کرنے کی کوشش کی تھی اور یہی کہا کہ 6سے 8مہینے حکومت کو دیکھیں، اگر بہتری نہیں آتی تو پھر آپ اپنا احتجاج ریکارڈ کروائیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعلی جام کمال شاید یہ نہیں جانتے کہ سپیکر پورے ہاؤس کا سربراہ ہوتا ہے ،میں نے تحریک استحقاق جمع کرائی ہے، اب یہ استحقاق کمیٹی کا کام ہے وہ اس کو کیسے دیکھتے ہیں؟استحقاق کمیٹی وزیر اعلیٰ اور وزرا کو اس حوالے سے کبھی بھی طلب کر سکتی ہے ،میں نے اس حکومت سے پہلے بھی اختلاف کیا تھا، اگر وزیراعلی مجھے سیریس نہیں لیتے تو بحیثیت سپیکر میرے الفاظ کی بھی کوئی اہمیت نہیں ہوگی، باپ پارٹی کے بیشتر اراکین ناراض ہیں، وقت آنے پر سب سامنے آئیں گے۔ انہوں نے کہا کہ سپیکر کسی ایک جماعت کا نہیں بلکہ ایوان میں موجود تمام جماعتوں کیلئے یکساں ہوتا ہے اورجب آپ سپیکر بن جاتے ہیں تو آپ پارٹی سے بالاتر ہو کر سوچنے لگتے ہیں، ہم پارٹی کے اندر تبدیلی کی بات کر رہے ہیں، اس پارٹی کو ہر صورت عوامی پارٹی بنا کر دم لیں گے، آپ سب جانتے ہیں کہ وزیراعلی ہاؤس میں اب عوام تو دور کی بات خود وزرا نہیں جاسکتے۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعلی ہاؤس میں عام عوام کا داخلہ بند کیا گیا ہے، آج کوئی بھی جائے وہاں عوام کیلئے دروازے بند کئے گئے ہیں ،یہ چیزیں ہیں جس کے باعث ہم نے پہلے بھی آواز اٹھائی تھی اور آج پھر اٹھا رہے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ پارٹی کے اندر تبدیلی آئے، اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر ہمیں حکومت بنانے میں کوئی مشکلات نہیں ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اپوزیشن نے ہمیں مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے اور وہ بتا چکے ہیں کہ اگر ہم 10ارکان اپنے ساتھ لے آئیں تو حکومت کی تبدیلی کوئی مشکل مرحلہ نہیں ہوگا ۔انہوں نے کہا کہ سپیکر کے خلاف بات کرنا آئین کے خلاف بات کرنا ہے، ایم پی ایز اور سینیٹرز کو بات کرتے وقت سوچنا چاہئے،سپیکر پارٹی سے بالاتر ہوتا ہے کیونکہ سپیکر پورے ہاؤس کاہوتا ہے ایک پارٹی کا نہیں، میں نے تحریک استحقاق جمع کرا یا ہیں پہلے بھی جب ہم نے وزیراعلی کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائے تھے تو شرو ع میں میں اکیلا تھا بعد میں دوسرے دوست ساتھ دینے آگئے، آج بھی میں اکیلا کھڑ ا ہوں بلوچستان کے عوام کے حق کیلئے نکلا ہوں، اللہ کی مدد کی ضرورت ہے، تمام پارٹیوں کو ساتھ لیکر بلوچستان کی مفاد میں ایک بہتر حکومت بنانا چاہئے کیونکہ اپوزیشن کے اراکین بھی الیکشن لڑھ کر آئیں ہیں، پارٹی کے اندر تبدیلی لے آئیں گے بلوچستان عوامی پارٹی کو بلوچستان کی نمائندہ جماعت بنا کر دم لیں گے۔