علاج کے لئے ہسپتال داخل ہوں  

 علاج کے لئے ہسپتال داخل ہوں  
 علاج کے لئے ہسپتال داخل ہوں  

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 صحت انصاف کارڈ کا بہت چرچا ہے سوچتی ہوں جن کو کارڈ ملا مانو ان کی تو صحت ہی سنور گئی۔ اس کارڈ کی اتنی تشہیر ہوئی ہے کہ دل چاہتا ہے یہ کارڈ مجھے جلد از جلد مل جائے۔   پھر میں بھی کارڈ کے کوائف کے مطابق کسی ترجیحی یا ثانوی علاج میں شامل کسی بیماری میں مبتلا ہو جاؤں تاکہ صحت  کارڈ انصاف کے ساتھ استعمال کر سکوں۔ کہ کسی بھی چیز کا حق تو تبھی ادا ہوتا ہے جب اس کے ساتھ انصاف کیا جائے۔ لیکن سوچتی ہوں اگر مجھے کوئی ایسی بیماری نہ لگی جس میں مجھے ہسپتال میں داخل نہ ہونا پڑا تو سمجھو کارڈ بنانے والوں کی ساری محنت اکارت چلی جائے گی۔صحت کارڈ کی ویب سائٹ پر کارڈ سے متعلق تمام تفصیل درج ہے۔ لیکن ہر کوئی ویب سائٹ وزٹ نہیں کرتا اس لئے پمفلٹ بھی شائع کیئے گئے ہیں ۔

اس سے پہلے کہ میں صحت کارڈ کے فوائد بتاؤں اس کارڈ کی بنیادی بات ذہن نشین کر لیں، کہ یہ کارڈ صرف خاندان کے سربراہ کے نام ہے، خاندان کے دیگر افراد سربراہ کی اجازت سے ہی کارڈ استعمال کر سکیں گے۔  میری کم فہمی کا عالم دیکھئے جو سمجھتی تھی کہ علاج صرف علاج ہوتا ہے، صحت کارڈ کی وجہ سے پہلی بار پتہ چلا کہ ثانوی اور ترجیحی علاج بھی ہوتا ہے۔  زچگی ثانوی علاج والی بیماریوں میں شامل ہے۔ خاندان کے سربراہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ گھر کی بیبیوں کو سمجھادے کہ ایک وقت میں ایک سے زائد بی بی حاملہ ہونے کی کوشش ہرگز نہ کرے کہ زچگی (نارمل ڈلیوری یا سیزیرین)  کی مد میں آنے والے اخراجات کی رقم سالانہ صرف  ساٹھ ہزار ہے، جبکہ کسی بھی نجی ہسپتال میں اس پر ساٹھ ہزار سے زیادہ کا خرچہ آجاتا ہے، لہٰذا خاندان کی دیگر بیبیاں اگر صحت کارڈ کی سہولت حاصل کرنا چاہتی ہیں تو پھر اپنی باری آنے تک مانع حمل ادویات استعمال کرتی رہیں۔


کسی حادثے کی صورت میں  حادثے کا شکار ہونے والا صحت کارڈ کی شرائط کے مطابق زخمی ہو، یعنی  اتنا زخمی ضرور ہو کہ علاج کے لئے اسے ہسپتال میں داخل ہونا پڑے،کہ بنا داخل ہوئے علاج ہرگز نہیں ہوگا۔  وہ بیماریاں جنھیں ترجیحی علاج میں شامل کیا گیا ہے،ان میں دل اور جگر کے علاوہ چھ بیماریاں مزید ہیں، اور ان میں سے کسی مرض میں مبتلا ہونے پر  سالانہ تین لاکھ کی خطیر رقم سے علاج ہوگا، لیکن بیچ میں مسئلہ پھر وہی پڑتا ہے کہ علاج کی غرض سے اتنا بیمار ہونا ضروری ہے کہ ہسپتال میں داخل ہوا جا سکے۔ اسی طرح اگر گردوں یا کینسر کی بیماری پہلے، دوسرے سٹیج پر ہے تو پھر معذرت، محکمہ مرض اور مریض کا ذمہ دار نہیں۔ مریض جہاں اور جس ڈاکٹر سے چاہے علاج کروائے  اور ادویات جیسے تیسے خود خریدے۔  ہاں اگر صحت کارڈ سے علاج کروانا ہے تو پھر گردوں یا ایسے کسی بھی پیچیدہ مرض کا آخری سٹیج پر ہونا ضروری ہے کیونکہ صحت کارڈ کے پمفلٹ اور ویب سائٹ پر واضح لکھا ہے، کہ دل، گردے، پھیپھڑے ناکارہ ہونے کی صورت میں مریض کو فوری ہسپتال میں داخل کیا جائے۔

ہوسکتا ہے آخری سٹیج کی شرط اس لئے ہو تاکہ صحت کارڈ سے مریض کے کفن دفن کا اہتمام بھی کیا جا سکے،  کیونکہ دس ہزار آخری رسومات کے لئے بھی تو مختص ہیں۔ لیکن یاد رہے یہ آفر صرف ہسپتال میں مرنے والوں کے لئے ہے۔ کینسر یا جگر ایسے پیچیدہ  امراض میں مبتلا مریضوں کو انتباہ کیا جاتا ہے کہ صحت کارڈ کے ترجیحی علاج کے لئے مختص رقم تین لاکھ  جونہی پوری ہو  (ویسے تو یہ چند دنوں میں ہی ختم ہو جائے گی) مریض کو شفایاب ہوجانا چاہئے کہ اس سے زیادہ رقم مریض پر خرچ نہیں ہوگی۔ دوسرے لفظوں میں سالانہ تین لاکھ کے حساب سے جتنا ٹھیک ہوسکتے ہیں ہوجائیں، باقی اگلے برس پھر سہی۔  کمزور دل حضرات یہ بھی یاد رکھیں کہ سرکاری کارڈ سے فائدہ اٹھانا ہے تو چیزوں کو اتنا خراب نہ ہونے دیں کہ ان کی پیوند کاری کی نوبت آسکے۔ کہ پیوند کاری کی صورت میں بھی محکمہ ذمہ دار نہیں ہوگا۔


مریضوں کے لئے یہ خوشخبری بھی بڑی اہمیت رکھتی ہے کہ ہسپتال سے اخراج کے بعد ایک بار ان کا معائنہ مفت ہوگا، لہٰذا مریض پوری کوشش کرے کہ ایک ہی وقت میں سارا بیمار پڑ جائے۔
سب سے اہم بات یہ بھی یاد رکھیں کہ جو خواتین شوہروں سے جھگڑے کے دوران خود کوجان بوجھ کر زخمی کر لیتی ہیں ان کو علاج اپنے ذاتی پیسوں سے کروانا ہوگا ۔ لہٰذا خواتین شوہروں سے جھگڑے کے دوران خود اور مخالف کو زخمی کرنے سے گریز کریں کہ مرہم پٹی کروانے کے لئے پھر پڑوسن سے ادھار لینا پڑے گا۔ 


ایک اور اہم نکتہ جو مجھے بہت پسند آیا، وہ یہ تھا کہ خود کشی کرنے والوں کو بچانے کی ہرگز کوشش نہیں کی جائے گی۔ بلکہ مرے پر سو درے والا حساب ہوگا۔ یعنی ان کو مرنے کے لیئے چھوڑ دیا جائے گا۔ کہ ایسوں کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہیئے۔  سو محبت میں ناکامی کی صورت میں خودکشی کرنے والے سوچ سمجھ کر یہ قدم اٹھائیں کہ اگر تو ان کا ارادہ اس قدم سے صرف محبوب کی توجہ مطلوب ہے تو پھر ناکامی ان کا منہ دیکھے گی اور یہ سچ مچ جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ کہ ایسے لوگوں کو بچانے کی سہولت کارڈ کی شرائط میں نہیں ہے۔ زیادہ تر لوگ مردانہ کمزوری اور بانجھ پن کے علاج کے لئے بالترتیب حکیموں اور پیروں فقیروں سے رجوع کرتے ہیں، یقین کامل ہے کہ وہ اسی طریقے پر قائم رہیں گے۔ حاملہ ہونے کے طریقے انٹرنیٹ پر تھوک کے حساب  سے دستیاب ہیں۔ اس لئے ان بیماریوں کو صحت پروگرام میں شامل نہ کر کے عقلمندی کا بہترین ثبوت دیا گیا ہے ضروری انتباہ: آسان الفاظ میں خبردار کیا جاتا ہے کہ بیماری کوئی بھی ہو صحت کارڈ تبھی کار آمد ہے جب آپ شدید بیمار ہو کر ہسپتال میں داخل ہوسکیں، بغیر داخل ہوئے آپ کو ڈاکٹر فری چیک کرے گا نہ مفت ادویات ملیں گی۔ 

مزید :

رائے -کالم -