پولیس کا مورال (1)       

پولیس کا مورال (1)       
پولیس کا مورال (1)       

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


پولیس کو میں نے ہمیشہ قریب سے دیکھا ہے۔ میرے ماموں سردار محمد چوہدری آئی جی پنجاب تھے اور میں بچپن سے ہی ان کے بہت قریب تھا۔ ان کی سروس کے اوائل کے دنوں سے مختلف عہدوں سے گذرتے ہوئے آئی جی بننے تک کے سفر میں زیادہ تر میں ان کے قریب ہی رہا۔ ان کا شمار پنجاب پولیس کی تاریخ کے نمایاں ترین سربراہان میں ہوتا ہے۔ اپنی سروس کے دوران بھی اور اپنی تصانیف ”جہانِ حیرت“ اور "The Ultimate Crime" میں بھی انہوں سے سب سے زیادہ زور پولیس کے مورال پر دیا ہے کیونکہ ایک ڈسپلنڈ فورس کا مورال بلند ترین ہوگا تو وہ بہتر پرفارم کرے گی۔ جب بھی کسی حکومت نے پولیس کا مورال گرانے کی کوشش کی ہے اس کا سب سے زیادہ نقصان پولیس، عوام اور  خود اس حکومت کو ہوا ہے کیونکہ بدامنی اور انارکی نے جنم لیا ہے۔ 


پنجاب پولیس کے موجودہ سربراہ آئی جی پنجاب راؤ سردار علی خان ہیں جن کا شمار دیانتدار اور پروفیشنل افسروں میں ہوتا ہے۔ پچھلے دنوں میری ان کے دفتر میں ان سے ملاقات ہوئی تو نہائت تپاک سے ملے۔ وہ سب سے خندہ پیشانی سے ملتے اور ان کی بات غور سے سنتے اور لوگوں کے جائز مسئلوں کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سائلین کے لئے ان کا رویہ ہمیشہ ہمدردانہ اور مشفقانہ ہوتا ہے۔ میرا ان سے ایک تعلق یہ بھی ہے کہ میرے چھوٹے بھائی ڈاکٹر منظور چوہدری ان کے کورس میٹ ہیں جن کا تعلق وزرات خارجہ سے ہے اورمیلان اٹلی میں قونصل جنرل کے فرائض انجام دے رہے ہیں، حال ہی میں انہیں آئیوری کوسٹ میں پاکستان کا سفیر لگایا گیا ہے۔ راؤ سردار علی خان کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں ڈاکٹر منظور چوہدری سے غالباً ایک سال جونئیر تھے لیکن سی ایس ایس میں بیچ میٹ تھے۔ ڈاکٹر منظور چوہدری کے ایک کلاس فیلو ڈاکٹر سجاد آہیر ٹورنٹو کینیڈا میں آباد ہیں۔ ان کا تعلق خوشاب کی نمایاں آہیر فیملی سے ہے اور ان کے ماموں ملک نسیم آہیر جنرل ضیاء الحق دور میں ملک کے طاقتور وزیر داخلہ تھے۔ ڈاکٹر سجاد آہیر نے ایک مرتبہ راؤ سردار علی خان کا واقعہ سنایا تھا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک سادہ مزاج اور دیانتدار افسر ہیں۔ کہنے لگے کہ خوشاب کی نمایاں سیاسی فیملی کی حیثیت میں ہر نئے آنے والے ڈی پی او سے ملاقات ہوتی تھی۔ ایک مرتبہ نئے آنے والے ڈی پی او نے انہیں گھر کھانے پر مدعو کیا جو کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں ایک سال جونئیر تھے۔ ان کا  عالی شان رہن سہن اور خاطر مدارت دیکھ کر وہ حیران رہ گئے۔

پھر ان کا تبادلہ ہو گیا اور ان کی جگہ راؤ سردار علی خان ڈی پی او خوشاب آ گئے۔ ان کے گھر دعوت پر مدعو ہوا اور ان کی ناقابل یقین حد تک سادگی دیکھ کر اور بھی زیادہ حیران ہوا۔ کھانے کی میز جو پچھلے ڈی پی او کی دعوت میں انواع و اقسام کے کھانوں سے بھری ہوئی تھی اور ڈرائنگ روم جو امارت کے مناظر پیش کر رہا تھا، اس کی جگہ عام گھریلو کھانا اور ڈرائینگ روم انتہائی سادہ، بالکل جیسے ایک ایماندار افسر کا ہوتا ہے۔ ڈاکٹر سجاد آہیر کی بتائی ہوئی باتیں کہ عام سائل کی بھی ڈی پی او تک آسان رسائی تھی، اور ویسے بھی چھوٹے بھائی کا کورس میٹ ہونے کی وجہ سے میں راؤ سردار علی خان کو پچھلے تیس برس سے جانتا تھا، اس لئے مجھے قطعاً حیرانی نہیں ہوئی جب میں نے ان کے دفتر میں سادہ لیکن پروفیشنل ماحول دیکھا، نہ ہٹو بچو کی آوازیں اور نہ ہی سائیلین کا رش، ہر چیز ایک سسٹم کے تحت سرعت کے ساتھ ہو رہی تھی۔ میں سوچ رہا تھا کہ شائد ہم نام ہونے کا اثر ہو کہ ماحول تقریباً ویسا ہی تھا جیسا مرحوم سردار محمد چوہدری کے زمانہ میں ہوا کرتا تھا۔ میری آئی جی پنجاب سے گفتگو کا غالب حصہ پولیس فورس کے مورال اور قانون کی حکمرانی پر رہا اور وہ دونوں معاملات میں کافی فکرمند نظر آئے اور مجھے لگا کہ ان کا زیادہ فوکس بھی انہیں دو نقطوں پر ہے۔


قانون کی حکمرانی ایک ایسا خواب ہے جو ہر پاکستانی دیکھتا ضرور ہے۔ ماضی کی حکومتوں پر الزام تھا کہ وہ پولیس کا سیاسی استعمال کرتی ہیں۔ بزدار حکومت میں بات اب سیاسی استعمال سے آگے بڑھ کر ذاتی استعمال تک پہنچ چکی ہے۔ وزیر اعلی پنجاب اور ان کے گرد موجود لوگ پورے پنجاب میں بار بار تمام افسران آر پی اور اور اضلاع کے ڈی پی اوز سمیت تبدیل کرا دیتے ہیں جن میں آئی جی کو اعتماد میں نہیں لیا جاتا۔ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس خلیل الرحمان خان نے 1989 میں ایک فیصلہ میں لکھا تھا کہ پولیس افسران کو فٹ بال بنایا جا رہا ہے۔ عثمان بزدار تو رونالڈو پلس ثابت ہوئے ہیں جو ہر دوسرے مہینہ پولیس افسران کو کک لگا کر فیلڈ کے ایک کونے سے دوسرے کونے میں پھینک دیتے ہیں۔ 1997 میں مرحوم سردار محمد چوہدری کی مشہور تصنیف "The Ultimate Crime" شائع ہوئی تھی جو آج بھی پولیس کا نظام سمجھنے کے لئے مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کتاب میں پنجاب پولیس کے درویش منش سابق سربراہ نے ان عوامل پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے جو پولیس سے متعلق عام تاثر اور ان کو درپیش مسائل پر براہ راست اثر انداز ہوتے ہیں۔    (جاری ہے)

میں نے گذشتہ ربع صدی میں یہ کتاب بارہا پڑھی ہے اور ہر مرتبہ نئے زاویوں سے اس پر غور کیا ہے۔ اگرچہ اس کتاب میں مرحوم نے پولیس کو درپیش بہت سے مسائل اور ان کے حل کے بارے میں گفتگو کی ہے لیکن ایک اہم ترین نقطہ ہمیشہ میرے ذہن پر نقش رہا ہے کہ اگر پولیس کی کارکردگی بہتر بنانا ہے تو اسے اعتماد دینا اور اس کا مورال بلند کرنا ہوگا۔ جب تک فرسودہ سوچ اور پولیس کوحکمرانوں کی طرف سے ذاتی استعمال کی روش ترک نہیں کی جاتی، اس وقت تک پولیس کا مورال بلند نہیں ہوگا۔ تمام تقرریاں میرٹ پر ہونا اور ناجائز دباؤ ڈالنے کی روایات کا خاتمہ کرکے پولیس کو ڈسپلنڈ فورس کی طرح چلانا ہوگا۔ 
حکمرانوں کی طرف سے پولیس سے ناروا سلوک کی بابت مجھے نصف صدی پرانا واقعہ یاد آجاتا ہے۔ پورے پچاس سال پہلے 1972 میں پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی         ”عوامی حکومت “ نئی نئی قائم ہوئی تھی۔ بھٹو مرحوم کے آبائی شہر لاڑکانہ میں پیپلز پارٹی کی مقامی قیادت کے ناروا سلوک کے خلاف پولیس نے مقامی طور پر ہڑتال کر دی تھی۔ بجائے اس کے کہ معاملہ کو افہام و تفہیم سے حل کیا جاتا، حکومت نے سختی کرنے کا فیصلہ کیا جس کے ردعمل میں ہڑتال سندھ کے دوسرے شہروں حیدرآباد، دادو اور سکھر تک پھیل گئی۔

دوسری طرف وفاقی وزیر داخلہ خان عبدالقیوم خان آئے دن صوبہ سرحد کی پولیس کو انڈر پریشر لانے کے لئے دھمکیاں دیتے رہتے تھے جس کی وجہ سے صوبہ سرحد کی پولیس بھی ہڑتال پر چلی گئی۔ سویلین مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ذوالفقار علی بھٹو نے آرمی چیف جنرل گل حسن کو حکم دیا کہ پشاور کی پولیس لائینز پر توپوں سے گولہ باری کی جائے، اسی طرح پاک فضائیہ کے سربراہ ائر مارشل رحیم خان کو حکم دیا کہ پولیس لائینز پر بمباری کی جائے۔ دونوں نے ان احمقانہ احکامات کو ماننے سے انکار کیا تو ان سے زبردستی استعفے لے لئے گئے۔ ہڑتال کا سلسلہ بڑھتے بڑھتے پنجاب پولیس تک پہنچ گیا تو گورنر پنجاب ملک غلام مصطفی کھر کے غیر ذمہ دارانہ رویہ سے صورت حال حکومت کے کنٹرول سے باہر ہو گئی۔ 27 فروری 1972 کو گورنر غلام مصطفی کھر جو صوبائی مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بھی تھے، نے ایک جلسہ عام سے خطاب میں دھمکی دی کہ اگر چوبیس گھنٹے میں ہڑتالی پولیس ملازمین ڈیوٹی پر واپس نہ آئے تو انہیں برطرف کردیا جائے گا اوراگر ساری پولیس کو بھی برطرف کرنا پڑا تو وہ کر دیں گے اور پیپلز پارٹی کے جیالے پولیس کا نظام اپنے ہاتھ میں لے لیں گے۔ اس سے پہلے کہ حالات مزید خراب ہوتے اور خون خرابہ ہوتا، پولیس کے سینئیر افسران صاحبزادہ روؤف علی خان اور سردار محمد چوہدری نے ذوالفقار علی بھٹو کو قائل کیا کہ معاملہ کو افہام و تفہیم سے حل کیا جائے اور جلتی پر مزید تیل چھڑکنے سے گریز کیا جائے۔ اس واقعہ سے یہ سبق ملتا ہے کہ پولیس کے معاملات ناجائز سختی کرنے سے نہیں بلکہ اس کا مورال بلند کرنے سے بہتر ہوتے ہیں۔ 


تاریخ اور تجربہ بتاتا ہے کہ جب بھی پولیس کا سربراہ اور دوسرے سینئیر افسران کا تقرر میرٹ پر ہوا اور انہیں سیاست میں نہیں گھسیٹا گیا، پولیس کا مورال بلند رہا اور اس کی کارکردگی بہتر رہی۔ اصل معیار میرٹ، سینیارٹی، شفافیت، قابلیت اور پیشہ ورانہ مہارت ہونا چاہئے۔ مجھے یاد ہے کہ پہلی مرتبہ مرحوم سردار محمد چوہدری کو اس وقت کے وزیر اعلی پنجاب میاں نواز شریف نے 1989 میں بلا کر آئی جی پنجاب بننے کی آفر کی تو انہوں نے یہ کہہ کر اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا کہ آپ آئی جی کا تقرر سینیارٹی کے اعتبار سے میرٹ پر کریں، جس پر اس وقت کے سینئیر افسر چوہدری منظور احمد کو آئی جی پنجاب مقرر کیا گیا۔ 1991 میں لاہور میں پنجاب اسمبلی کے سامنے ایک واقعہ پیش آیا کہ پنجاب اسمبلی کے ایک رکن جلال الدین ڈھکو کا ایک ٹریفک کانسٹبل نے قانون کی خلاف ورزی پر چالان کرنے پر جھگڑا ہو ا تووزیر اعلی پنجاب غلام حیدر وائیں نے آئی جی پنجاب کو عہدہ سے ہٹا دیا۔ یہ ایک انتہائی غلط فیصلہ تھا جس کی وجہ سے پولیس فورس کا مورال بہت نیچے آیا۔ اس وقت میاں نواز شریف وزیر اعظم پاکستان بن چکے تھے، انہوں نے سردار محمد چوہدری کو اسلام آباد طلب کرکے آئی جی پنجاب کا عہدہ سنبھالنے کا کہا تو انہوں نے ایک بار پھر انکار کیا۔ اس کے بعد جب ایک ہی دن میں تیسری بار میاں نواز شریف نے سردار محمد چوہدری کو آئی جی کا عہدہ سنبھالنے کا کہا تو انہوں نے اس شرط پر آمادگی ظاہر کی کہ ان کے کام میں سیاسی مداخلت نہیں کی جائے گی۔ اس کے بعد ہم نے دیکھا کہ سردار محمد چوہدری نے پنجاب پولیس میں میرٹ کا نظام قائم کیا اور اسے سیاسی مداخلت سے محفوظ رکھا۔ بعد میں آنے والے سالوں میں یہ شفافیت قائم نہ رہ سکی اور تمام حکومتوں نے سیاسی بنیادوں پر تقرریاں بھی کیں اور پولیس کو سیاسی مقاصد اور  ذاتی مقاصد کے لئے بھی استعمال کرتے رہے۔ اب بھی اگر پولیس کی کارکردگی بہتر بنانا ہے تو میرٹ، شفافیت، قابلیت اور پیشہ ورانہ مہارت کی بنیاد پر تقرریاں کرنا ہوں گی۔

موجودہ دور میں ہم نے دیکھا کہ وزیر اعلی عثمان بزدار نے پرائیویٹ عدالت میں پرائیویٹ جیوری احسن جمیل گجر کے کہنے پر ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کو ان کے عہدہ سے ہٹایا۔ایک اور واقعہ یہ کہ خیبر پختون خوا سے میرٹ پر محمد طاہر خان کو آئی جی لگایا گیا لیکن ایک سینئیرصوبائی وزیر کے دباؤ پر انہیں عہدہ سے ہٹا دیا گیا۔ اسی طرح ایک سینئیر اور میرٹ اور قابلیت کے اعتبار سے بہترین آئی جی پنجاب ڈاکٹر شعیب دستگیر کو بھی سیاسی بنیادوں پر عہدہ سے ہٹایا گیا۔ رونالڈو پلس حکومت میں یوں تو تمام سرکاری افسران کو فٹ بال سمجھا جاتا ہے لیکن پولیس کو اپنے ذاتی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کے لئے ککیں لگانے کا عمل دوسرے شعبوں سے زیادہ ہے۔ عام آدمی کو آئے دن اپنے مسائل کی وجہ سے پولیس سے واسطہ پڑتا ہے۔ اس کی شنوائی اسی صورت ممکن ہے کہ پولیس میرٹ پر عوام کے مسائل حل کرے۔ عوام کے لئے میرٹ کا یہ نظام اسی صورت قائم ہو سکتا ہے اگر پولیس کا اپنا نظام بھی میرٹ، شفافیت، قابلیت اور پیشہ ورانہ مہارت پر استوار ہو۔ پولیس کا نہ تو سیاسی کردار ہو اور نہ ہی حکمران اسے ذاتی مقاصد کے لئے استعمال کریں۔اسی صورت پولیس کا مورال بلند ہو گا اور وہ بہتر طریقہ سے عوام کی خدمت کر سکے گی۔ 

مزید :

رائے -کالم -