زندگی
تحریر ۔۔۔۔سدرہ خٹک (اسلام آباد )
زندگی اللہ تعالی کی عظیم نعمت ہے، زندگی پانی کا بلبلہ ہے ، اللہ عز و جل نے ہمیں پیدا کیا اور ہمیں دنیا میں وجود بخشا تاکہ ہمیں آزمائے اور ہمارا امتحان لے، دین میں انسانی زندگی کےدو رخ متعین کردیےگئے ہیں ایک راستہ نیکی کا اچھائی کا، دوسراراستہ برائی بدی کا،اب جوانسان ایمان کے ساتھ اللہ کا تقویٰ اختیار کرے اسے جنت میں داخلے کی نوید سنائی گئی اور جو گمراہی اورغلط راستہ کو اختیار کرے گا ، اسے دوزخ میں داخلے کی سزا بارے بتایا گیا، انسان کی زندگی کتنی ہی لمبی کیوں نہ ہو ، وہ ختم ہونے والی اور زوال پذیر ہے، بقاء وہمیشگی آخرت کی زندگی کو ہے جو ابدی ہے، ہم ہر روز، ہر گھنٹہ بلکہ ہر لمحہ اپنی موت کے قریب ہوتے جارہے ہیں سال، مہینے اور دن گزرنے پر ہم کہتے ہیں کہ ہماری عمر اتنی ہوگئی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ایام ہماری زندگی سے کم ہوگئے، زندگی عمل کے لیے ہے ، اخلاص اچھے عمل کا سبب ہے اور ہمارا امتحان اس عمل میں ہے۔ اگر زندگی نہ ہوتی تو عمل کا موقع نہ ملتا اور اگر آخرت نہ ہوتی تو محاسبہ نہ ہوتا۔ لہٰذا امتحان کے بعد اس کا نتیجہ یا تو اس آزمائش میں کام یاب ہونا ہے یا ناکامی کا منہ دیکھنا ہے۔ دنیا “دارالعمل “یعنی عمل کا گھر ہے اور آخرت دارالبدل ہے۔ دنیا دارالفنا اور خاتمے کا گھر ہے اور آخرت دارالبقاء ہے۔ دنیا دھوکے کا گھر ہے اور آخرت دارالسُرور یعنی خوشی کا گھر ہے، ایک حدیث پاک میں دنیا کو آخرت کی کھیتی بھی قرار دیا گیا ہے، دنیا کی نعمتیں اور ان نعمتوں سے مستفید ہونا دائمی نہیں عارضی ہے، یعنی ابتدائے افزائش سے ہی موت کی یاد دلائی گئی ہے، آخرت منزل اور دنیا سفر ہے، آخرت قیام اور دنیا راستہ ہے۔ آخرت مقصد اور دنیا مقصد کے حصول کے لیے واسطہ اور وسیلہ ہے۔
ہر شخص کو چاہئے کہ وہ دنیاوی زندگی اور اس کے وقتی آرام کو اپنی منزل مقصود نہ سمجھے، کیونکہ اس دنیاوی فانی زندگی کے بعد ایک ایسی زندگی شروع ہونے والی ہے، جہاں کبھی موت واقع نہیں ہوگی، جہاں کی راحت اور سکون کے بعد کبھی کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔قرآن وحدیث کی روشنی میں ہر مسلمان کا یہ ایمان وعقیدہ ہے کہ ایک دن ایسا ضرور آئے گا، جب دنیا کا سارا نظام ہی درہم برہم ہوجائے گا، آسمان پھٹ جائے گا، سورج لپیٹ دیا جائے گا،ستارے ٹوٹ ٹوٹ کر گر پڑیں گے اور حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر دنیا میں آنے والے تمام انس وجن کو اللہ کے دربار میں ایسی حالت میں حاضر کیا جائے گا کہ ہر نفس کو صرف اور صرف اپنی ذات کی فکر ہوگی کہ اس کا نامۂ اعمال کس ہاتھ میں دیا جائے گا، اس کے بعد انہیں دنیاوی زندگی کے اعمال کی جزا یا سزا دی جائے گی، درحقیقت انسان کا اپنا جسم اور زندگی اس کی ذاتی ملکیت نہیں بلکہ اﷲ تعالیٰ کی عطا کردہ امانت ہیں۔ زندگی اللہ تعالیٰ کی ایسی عظیم نعمت ہے جو بقیہ تمام نعمتوں کے لیے اساس کی حیثیت رکھتی ہے۔
اس نفسانفسی کے دور میں تقریباً ہرشخص پریشان، اضطراب بےچینی کاشکار ہے ۔ملک میں بڑھتی ہوئی بےروزگاری غربت بھوک افلاس بیماریوں کےباعث خودکشی کرنےپر مجبورہے۔ لوگ اپنےہاتھوں اپنی زندگی کےچراغ گل کررہے ہیں، اسی لیے اسلام نے جسم و جاں کے تحفظ کا حکم دیتے ہوئے تمام افرادِ معاشرہ کو اس امر کا پابند کیا ہے کہ وہ بہرصورت زندگی کی حفاظت کریں۔ اسلام نے ان اسباب اور موانعات کے تدارک پر مبنی تعلیمات بھی اسی لیے دی ہیں تاکہ انسانی زندگی پوری حفاظت و توانائی کے ساتھ کارخانہِ قدرت کے لیے کار آمد رہے۔ یہی وجہ ہے اسلام نے خودکشی کو حرام قرار دیا ہے،اسلام کسی انسان کو خود اپنی جان تلف کرنے کی ہرگزاجازت نہیں دیتا۔
معاشرے میں لوگوں میں خوشیاں بانٹنے، مایوس لوگوں میں امید کےچراغ روشن کرنے ، مایوسیوں کو امید میں بدلنےکے لیے ہر فرد کو اپنی ذمہ داری ادا کرنا ہوگی، انسان اگر کسی کو کوئی خوشی نہ دے سکیں تو دکھ بھی نہ دے۔ ماہرین نفسیات کا کہنا ہےکہ زندگی کو خوشگوار بنانے کےلیے ضروری ہےکہ زندگی میں اکتاہٹ نہ آنے دیجئے ، ذکر اذکار کو اپنی زندگی کا لازمی حصہ بنائیں کیونکہ دلوں کا اطمینان اور سکون صرف اور صرف اللہ تعالی کے ذکر میں ہے۔
۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں.