سید علمدار حسین گیلانی مرحوم

سید علمدار حسین گیلانی مرحوم

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app




سید علمدار حسین گیلانی مدینتہ الاولیاءملتان میں 12۔ دسمبر 1919ءکو پیدا ہوئے۔پیدائش کے وقت خاندان کے بزرگوں نے ان کا نام سید ابوالحسن تجویز کیا مگر بعدازاں علمدارحسین رکھ دیا گیا۔ ان کے خاندان کا تعلق غوث الاعظم سید عبدالقادر جیلانی کے ساتھ ہے۔ ابتدائی تعلیم ملتان اور مظفرگڑھ سے حاصل کی اور 1941ءمیں ایمرسن کالج ملتان سے گریجویشن کی۔ اس سے قبل اس خاندان کے ایک فرد غلام محی الدین گیلانی نے 1927ءمیں گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجویشن کی تھی۔
سید علمدار حسین گیلانی نے اوائلِ جوانی سے ملکی سیاست میں حصہ لینا شروع کردیا تھا۔ کالج کی تعلیم کے دوران ہی انہوں نے اپنے خاندان کے بزرگ سید زین العابدین اور سید غلام نبی شاہ کے ساتھ مل کر ملتان میں مسلم لیگ کو منظم کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ سید غلام نبی شاہ اگست 1942 ءسے لے کر 1949ءتک مسلم لیگ سٹی ملتان کے صدر کے طور پر اپنے فرائض سرانجام دیتے رہے تھے۔
سید علمدار حسین گیلانی کی شادی جمال دین والی ضلع رحیم یار خان کے جاگیردار غلام میراں شاہ کی صاحبزادی کے ساتھ ہوئی۔ غلام میراں شاہ کے ایک بیٹے مخدوم زادہ سید حسن محمود ریاست بہاولپور کے وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں وہ متعدد بار پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ سید علمدار حسین گیلانی کا شمار جلد ہی مسلم لیگ کے سینئر لیڈروں میں ہونے لگا۔ ان کی دعوت پر خواجہ ناظم الدین، نوابزادہ لیاقت علی خان، حسین شہید سہروردی ، آئی آئی چندریگر ، ملک فیروز خاں نون، مادرِملت مس فاطمہ جناح، سردار عبدالرب نشتر اور راجہ غضنفر علی خاں نے ملتان کا دورہ کیا اور گیلانی خاندان کی رہائش گاہ ”الجیلان“ میں قیام کیا۔
1951ءکے عام انتخابات میں وزیراعظم پاکستان نوابزادہ ولایت علی خاں نے ”الجیلان“ میں مسلم لیگ ورکرز کنونشن کی صدارت کی۔ انہوں نے کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے سید علمدار حسین گیلانی اور ان کے دو بھائیوں ولایت حسین گیلانی اور رحمت حسین گیلانی کو مسلم لیگ کی ریڑھ کی ہڈی قرار دیا۔ ان انتخابات میں سید علمدار حسین گیلانی نے لودھراں سے مسلم لیگ کے ٹکٹ پر حصہ لیا اور کامیابی حاصل کی۔ 1953ءمیں ملک فیروز خان نون پنجاب کے وزیراعلیٰ منتخب ہوئے تو ان کی کابینہ میں سید علمدار حسین گیلانی صحت اور بلدیات کے وزیر کی حیثیت سے شامل ہوئے اس وقت پنجاب کابینہ میں رانا عبدالحمید، مظفرعلی قزلباش، علی اکبر خان، شیخ مسعود صادق اور سردار محمد خاں لغاری شامل تھے۔
سید علمدار حسین گیلانی نے ملتان ، میانوالی ، مظفرگڑھ اور ڈیرہ غازی خاں کے ضلعی ہیڈکوارٹرز میں ہسپتال تعمیر کروائے۔ میو ہسپتال لاہور اور ساملی سینی ٹوریم مری کی توسیع میں اہم کردار ادا کیا۔ نشتر ہسپتال ملتان اور نشتر میڈیکل کالج ملتان کے قیام کے لئے پلاننگ میں حصہ لیا۔ اس زمانہ میں ڈاکٹروں کی بہت قلت تھی اور عام لوگوں کے لئے علاج معالجہ کی سہولت نہ ہونے کے برابر تھی۔ سید علمدار حسین گیلانی نے وکٹوریہ ہسپتال بہاول پور میں میڈیکل سکول کی بنیاد رکھی اور ایل ایس ایم ایف کی کلاسز کا اجراءکروایا ان کے برادرِ نسبتی مخدوم زادہ حسن محمود ان دنوں ریاست بہاولپور کے وزیراعلیٰ تھے۔ انہوں نے میڈیکل سکول کے قیام کے لئے ہر قسم کی بنیادی ضروریات بلا تاخیر مہیا کردیں۔ اس سکول سے فارغ التحصیل ہونے والے طلباءکے لئے دوسال تک دیہاتی علاقوں میں کام کرنا لازمی قرار دیا گیا تھا۔ پنجاب کے صوبائی وزیر ہاسنگ کی حیثیت سے انہوں نے گلبرگ لاہور اور مری کی ڈیویلپمنٹ کے لئے بہت تگ و دو کی۔ 1954ءمیں سید علمدار حسین گیلانی پنجاب کے وزیر بلدیات تھے۔ اس دور میں(قیام پاکستان کے بعد) پنجاب میں اولین بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہوا۔ انہوں نے پورے پنجاب کے بلدیاتی اداروں کو اپنے اپنے علاقوں میں لائبریریاں قائم کرنے کے لئے احکامات جاری کئے۔
سید علمدار حسین گیلانی نے انجمن اسلامیہ ملتان کے زیر ا ہتمام طلباءاور طالبات کے لئے تعلیمی ادارے قائم کرنے کے لئے زبردست جدوجہد کی۔ انجمن اسلامیہ ملتان، رضا شاہ پبلک سکول، اسلامیہ ہائی سکول دولت گیٹ، اسلامیہ ہائی سکول عام خاص باغ، اسلامیہ ہائی سکول حرم گیٹ، شوکت حسین کے جی سکول، غلام مصطفےٰ شاہ گرلز کالج، علمدار حسین کالج، ولایت حسین اسلامیہ کالج، اور گیلانی لاءکالج چلارہی ہے۔

سید علمدار حسین گیلانی نے مارچ 1940ءمیں قراردادِ پاکستان پر دستخط کرنے کا اعزاز حاصل کیا ۔ مارچ 1956ء میں انہوں نے پاکستان کے اولین آئین پر بھی دستخط کئے تھے۔ انہوں نے بطور وزیر بیرون ملک دورو ںکے دوران چرچل، آئزن ہاور، ڈیگال، شاہ عبدالعزیز، مازے تنگ، چواین لائی اور سرآغاخان سے ملاقات کی تھی۔ ایک غیر ملکی دورے کے موقع پر سید علمدار حسین گیلانی کے ساتھ شیخ مجیب الرحمان بھی وفد میں شامل تھے۔
 1953ءمیں جب وہ وزیر صحت /بلدیات اور ہاسنگ تھے تو ان کے محکمہ کے پارلیمانی سیکریٹری چودھری فضل الہٰی تھے جو 14۔ اگست 1973ءکو صدرِ پاکستان منتخب ہوئے۔ اس دوران سردار عطاءمحمد خاں لغاری اور سردار عاشق محمد خاں لغاری ان کے محکمہ میں سرکاری ملازم تھے۔ بعدازاں سردار عطاءمحمد خاں لغاری پنجاب صوبائی اسمبلی کے رکن اور سردار عاشق محمد خاں لغاری قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔
1958ءمیں جنرل ایوب خان نے مارشل لاءنافذ کیا تو بدنامِ زمانہ قانون”ایبڈو“ کے تحت بے شمار سیاستدانوں کو سات سال تک سیاست میں حصہ لینے سے نااہل قرار دے دیا گیا۔ ان سیاستدانوں میں سید علمدار حسین گیلانی بھی شامل تھے۔ ”ایبڈو“ کی پابندی کے باوجود 1964ئ/1965ءکے صدارتی الیکشن میں جنرل ایوب خان کے مقابلہ میں انہوں نے مس فاطمہ جناح کا ساتھ دیا۔ دسمبر 1970ء میں انہوں نے قیوم لیگ کے ٹکٹ پر اپنی زندگی کے آخری الیکشن میں حصہ لیا اور پی پی پی کے امیدوار نواب صادق حسین قریشی سے ہار گئے اس کے بعد وہ عملی سیاست سے دستبردار ہوگئے۔ 9۔ اگست 1978ءکو ان کا انتقال ہوا۔ اس دن ماہِ رمضان کی تین تاریخ تھی۔
سید علمدار حسین گیلانی کے بڑے بیٹے سید یوسف رضاگیلانی 2008ءتا 2012ءپاکستان کے وزیراعظم رہے ہیں۔ ان کے چھوٹے صاحبزادے سید احمد مجتبےٰ گیلانی ان دنوں پنجاب اسمبلی کے رکن ہیں۔ ان کے ایک پوتے علی موسیٰ گیلانی ایم این اے ہیں اور دوسرے پوتے عبدالقادر گیلانی 19جولائی کو ایم این اے منتخب ہوئے ہیں۔
ملتان کے بعد لاہور ان کا پسندیدہ شہر تھا۔ جب بھی لاہور آتے تو داتا دربار اور دربار میاں میر پر فاتحہ خوانی کے لئے ضرور جاتے۔ ہر سال تین رمضان کو بی بی فاطمہ کے یومِ پیدائش کے حوالے سے اپنے خاص خاص دوستوں کی دعوت کرتے اور اپنے ہاتھ سے کھانا تیار کرکے دوستوں /مہمانوں کو کھلاتے۔ دوستوں کی خاطر تواضع کرکے وہ بہت خوش ہوتے تھے۔

1958ءمیں سید علمدار حسین گیلانی اور سردار محمد خاں لغاری” ایبڈو“کا شکار ہو گئے تھے۔ لغاری کے بارے میں یہ بات زبان زدِ عام تھی کہ وہ عام لوگوں کے کام نہیں کرواتے تھے۔ لغاری ایک دن انہیں ملنے کے لئے آئے تو گیلانی مرحوم عام لوگوں کے کاموں کے لئے افسروں کے نام سفارشی خط لکھوانے میں مصروف تھے۔ لغاری نے ازراہِ مذاق کہا کہ گیلانی صاحب آپ کے انہی سفارشی خطوط نے آپ کو” ایبڈوزدہ“ کیا ہے۔ اور آپ کو نااہل قرار دیا جاچکا ہے۔ گیلانی مرحوم نے جواب دیا کہ آپ تو سفارشی خط جاری نہیں کرتے تھے آپ کیوں ”ایبڈو“کا شکار ہوگئے ہیں۔ آپ سے ہم اچھے ہیں کہ لوگوں کے کام کروانے کے بعد” ایبڈو“ کا شکار ہوئے ہیں۔  ٭

مزید :

کالم -