موت کی سرخ لہر ابھر رہی ہے

موت کی سرخ لہر ابھر رہی ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app





حالیہ دنوں میں میںامریکی ریاست کلوریڈو میں ایک چوبیس سالہ نوجوان جیمز ہومز کے ہاتھوں ہونے والی ہلاکتوں کے بعدبہت سے لوگوں نے ٹوئیٹر پیغامات میں امید ظاہر کی ہے کہ ایک درجن سے زائد افراد کاقاتل کوئی مسلمان نہیں تھا.... جبکہ کچھ نے سوال اٹھایا ہے کہ جیمز ہومز کو ایک دہشت گرد کی بجائے صرف ایک ”گن مین “ کیوں کہا جارہا ہے؟اگرچہ الفاظ کے معانی میں تفاوت سے مقتولین کو کوئی فرق نہیں پڑتا ،مگر عام طور پر ایک دہشت گرد اس شخص یا گروہ کو کہا جاتا ہے جو بے گناہ شہریوںکو اندھا دھند نشانہ بنا کر دہشت پھیلاتا ہے۔ اس کے پیچھے کوئی سیاسی یا نظریاتی مقصد ضرور ہوتا ہے۔ دوسری طرف اےک اکیلا اسلحہ بردار شخص جو بلاوجہ ، بغیر کسی رنجش کے، افراد کو قتل کرتا ہے،وہ ایک جنونی قاتل تو قرار دیا جاسکتا ہے، مگر دہشت گرد نہیں۔
اگرچہ دہشت گردی کوئی نیا مسئلے نہیں ہے ، اس کا سلسلہ تمام دنیا میں پھیلتا جا رہا ہے۔ اس میں انفرادی سطح پر بھی کارروائیاں ہو رہی ہیں اور گروہی طور پر بھی۔ پوری دنیا میں دہشت گرد، جرمنی کے نیو نازی گروہوںسے لے کر پاکستان کے اسلامی انتہاپسندوں تک، بہت سے گروہ منظم طریقے پر سرگرم ِ عمل ہیں۔حالیہ دنوںمیں بی بی سی نے ایک جرمن گروپ، جو خود کو ”نیشنل سوشلسٹ انڈرگراﺅنڈ “ کہتا ہے، کے بارے میں رپورٹ پیش کی ہے۔ اس گروہ نے گزشتہ دس سال کے دوران سات ترکوں، ایک یونانی باشندے اور ایک جرمن پولیس افسر کو قتل کیا ہے۔ اگرچہ قتل کی تمام وارداتوں میں مماثلت تھی، مگر جرمن پولیس ان وارداتوں کا سراغ لگانے میںناکام رہی، حتی کہ گزشتہ نومبر کوہونے والی ایک ناکام بنک ڈکیٹی نے حقائق سے پردہ اٹھانے میں مدد دی۔

ایسا لگتا ہے کہ جرمن پولیس نے ان وارداتوں کا سنجیدگی سے سراغ لگانے کی کوشش ہی نہیںکی تھی اور وہ اسے کسی گمنام ترک مافیا کی کارروائی سمجھتی تھی۔ اس کے بعدوفاقی ایجنسی کے ایجنٹوں کو پتا چلا کہ اٹھنے والے شور کی وجہ سے کچھ دستاویزات کو تلف کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اس سے دائیں بازو کے کچھ ہمدردوں کے نام سامنے آئے۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ایک نسل پرست کارکن نے کہا کہ وہ قتل کی ان وارداتوں کے محرک کو سمجھ سکتا ہے اور اسے قاتل سے ہمدردی ہے۔ اس کے بعد اس نے اسی زبان میں وہی بے معانی باتیں شروع کردیں جو دائیں بازو کے انتہا پسند گروہ کرتے ہیں۔ نازی اصطلاح ”نیشنل سوشلسٹ جرمن ورکرز پارٹی “ کا جرمن زبان میں مخفف ہے اور یہ نام ایڈولف ہٹلر نے اپنی پارٹی کو دیا تھا۔
یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ نازی پارٹی کو جرمنی میں ان حالات میں عروج ملا، جب پہلی جنگ ِ عظیم میں شکست کے بعد جرمنی کی معاشی حالت بہت خراب تھی۔ اس کی کرنسی اپنی قدر اس حد تک کھوچکی تھی کہ ڈبل روٹی خریدنے کے لئے رقم سے بھرا ہو بریف کیس لے جانا پڑتا تھا۔بے روزگاری عام تھی اور متوسط طبقے کے جرمن باشندے جسم وجان کا رشتہ برقرار رکھنے کے لئے ہاتھ پاﺅں ماررہے تھے۔ جرمنی کے معاشی انحطاط کی وجہ اتحادی فاتحین کی طرف سے عائد کیا گیاسخت زرِ تلافی تھا، چنانچہ برلن سے لندن ، پیرس اور واشنگٹن کی طرف بھاری بھرکم رقوم منتقل کی جارہی تھیں۔ اس کسمپرسی کی صورت ِ حال کو ہٹلر نے بیرون ِ ممالک کے اتحادیوں اور اندرون ملک یہودیوں کے خلاف اشتعال میں بدل دیا، چنانچہ لاکھوں جرمن ہٹلر کے ہم آواز بن کر اس کے پرچم تلے جمع ہو گئے۔ نازی پارٹی نے 1932 ءکے انتخابات میں 37.3 فیصد ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی اور ہٹلر جرمنی کا چانسلر بن گیا۔ اس کے اگلے سال نازی پارٹی نے تشدد سے ڈرا دھمکا کر اپنی کامیابی کو 43.9 فیصد تک پہنچا دیا ،جبکہ ہزاروں اشتراکی کارکنوں کو جیل میں ڈال دیا گیا اور دائیں بازو کے نمائندوں میں سے کئی ایک کو ہلاک کر دیا گیا۔
دیکھا جا سکتا ہے کہ معاشی گراوٹ کی وجہ سے کسی ”دوسرے “ کے خلاف نفرت اور غصے کے جذبات سیاسی اور سماجی رویوں میں تبدیلی کا باعث بن سکتے ہیں۔ آج جب سرمایہ دارانہ نظام معاشی دباﺅ کا شکار ہے تو تاریخ سے سبق سیکھنا برمحل ہوگا ۔ بہت سے یورپی ممالک میں بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے، جبکہ سماجی فوائد کے پیمانے سمٹ رہے ہیں تو دائیں بازو کی قوتیں غصیلے جذبات کا نشانہ دوسرے ممالک سے آنے والے تارکین وطن کو بنا رہی ہیں۔ فرانس میں ”نیشنل فرنٹ “ کو تاریخ میں سب سے زیادہ انتخابی پذیرائی ملی ہے ۔ ان کو عام طور پر نسل پرست عناصر سمجھ کر رد کر دیا جاتا تھا، مگر اب ان کو بیس فیصد ووٹ پڑ گئے ہیں۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ فرانسیسی معاشرے میں یہ جماعت مقبول ہو رہی ہے اور اس کا سب کو پتا ہے کہ یہ جماعت تارکین ِ وطن پر کیسی سختی عائد کرنا چاہتی ہے۔ یونان میں یورپی یونین اور آئی ایم ایف کی طرف سے عائد کردہ سخت شرائط کی وجہ سے غربت کی شرح بہت زیادہ ہے۔ لاکھوںیونانی ملازمت کھوجانے کے خطرے سے دوچار ہیں اور وہاں بھی مہاجرین کے خلاف غصے کے بادل چھا رہے ہیں، جبکہ ایک نازی گروپ ”گولڈن ڈان“ اس غصے کو بھڑکا رہا ہے۔
سیکولر پورپ میں اب تشدد کا عنصر ان غیر ملکی افرادکے خلاف ابھر رہا ہے جو سفید فام نہیں ہیں۔ چونکہ رنگ اور نسل امتیاز کا باعث ہیں، ا س لئے مختلف نسلی گروہوںکے درمیان کشیدگی بڑھتی جارہی ہے۔ دوسری طرف اسلامی ممالک میں عقیدہ شناخت کی سب سے بڑی وجہ ہے ، اس لئے وہ لوگ جو اکثریت کے عقیدے سے تعلق نہیں رکھتے، ان کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان میں اقلیتوں پر حملوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ اہل ِ تشیع کو، جن کا مسلک ملک میں غالب اکثریت سے مختلف ہے، بھی نشانہ بنایا جارہا ہے۔ عراق میں ہزاروں عیسائی اپنا گھر بار چھوڑ کر بھاگ چکے ہیں، جبکہ مصر میں Copts کو کئی عشروںسے نسلی امتیاز کا سامنا ہے۔ اب شمالی مالی میں انتہا پسند عام افراد پر قہر ڈھا رہے ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ بڑھتی ہوئی عدم رواداری کئی وجوہات کی بنا پر تشدد کی راہ ہموار کررہی ہے۔ بعض صورتوں میں ، جیسا کہ کشمیر اور چیچنیا میں قوم پرستی پر تشدد آزادی کی جدوجہد کا روپ دھار لیتی ہے۔ بلوچستان میں بھی ایک محدود پیمانے پر، مگر نہایت خونی علیحدگی پسندی کی تحریک جاری ہے۔ سوویت یونین کے زوال اور سرد جنگ کے خاتمے کے بعد ہم میں سے بہت سوں کا خیال تھا کہ دنیا ایک محفوظ جگہ بن جائے گی، مگر دوعشروں کے بعد آج ہم بہت کچھ گنوا کر اس نتیجے پر پہنچے ہیںکہ دو ایک جیسی سپر پاورز میں تناﺅ عالمی استحکام کا باعث تھا اور کشیدگی وہیں نظر آتی تھی، جہاں یہ ممالک پراکسی جنگ لڑرہے تھے۔ باقی دنیا نسبتاً سکون میں تھی۔
آج جبکہ دنیا اسلحہ سے بھری ہوئی ہے، ایسا لگتا ہے کہ معاملات نمٹانے کا سب سے پہلا ، نہ کہ آخری، طریقہ تشدد ہی ہے۔ تمام نظریاتی گروہ جہاں بھی ہیں اور جیسے بھی ہیں،کی بنیاد پر، عام لوگوں پر اپنے نظریات بزور ِ مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ سیاسی بنیادوں پر اسلام کو بھی بہت سے انتہا پسند گروہوں نے انتہا پسندی کے رنگ میں ڈھال دیا ہے، تاہم دنیا میں تشدد کی واحد وجہ مذہب ہی نہیںہے، جیسا کہ ناروے کا ایک قاتل اندرس بریویک (Anders Breivik).... جس نے ستر سے زائد افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا، کے پاس ایسا کرنے کا کوئی مذہبی محرک نہیں تھا۔ ہم سب کو اس رجحان میں اضافے پرفکر مند ہوناچاہیے۔ مغرب میں سیکیورٹی فورسز کے ذہن پر اسلامی فوبیا اس قدر سوار ہے کہ وہ اپنے معاشرے میں پروان چڑھنے والے خطرناک عناصر، جیسا کہ جیمزہومز، کو نظر انداز کر دیتی ہیں۔ ایسے افراد کو اپنے معاشروں ہتھیار بھی نہایت آسانی سے دستیاب ہوجاتے ہیں اور وہ جب چاہے درجنوں افراد کو بغیر کسی وجہ کے موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔
(مصنف، نامور کالم نگار اور سیاسی تجزیہ کار ہیں ،جن کے کالم ملکی اور غیر ملکی اخبارات میں باقاعدگی سے شائع ہوتے ہیں۔)

مزید :

کالم -