جنرل ایلن کے خیالات اور شمالی وزیرستان آپریشن
افغانستان میں ایساف (انٹرنیشنل سیکیورٹی اسسٹنس فورس) کمانڈر جنرل جان ایلن نے کہا ہے کہ اگر پاکستانی فوج شمالی وزیرستان میں آپریشن کا آغاز کرے تو افغانستان میں موجود اتحادی افواج اس کے اثرات سے نمٹنے کے لئے اپنے علاقے پر خصوصی توجہ دینے کے لئے تیار ہیں۔یہ بات انہوں نے اس سوال کے جواب میں کہی کہ ایک طرف تو امریکہ پاکستان سے ”ڈومور“ کا مطالبہ کرتا رہتا ہے اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کو دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کو ماپنے کا پیمانہ بنا دیا گیا ہے، لیکن جب اکتوبر2009ءمیں پاکستانی فوج نے جنوبی وزیرستان میں آپریشن کاآغاز کیا تو ایساف نے سرحد پار اپنی چوکیاں خالی کردیں۔اس طرح تحریک طالبان پاکستان کے ارکان کو پکڑے جائے بغیر افغانستان فرار ہونے کا موقع میسر آ گیا۔ جنرل ایلن کا کہنا تھا کہ شمالی وزیرستان سے ملحقہ افغان علاقے میں بڑی تعداد میں ایساف فورسز موجود ہیں، تاہم انہوں نے تعداد بتانے سے گریز کیا۔ دوسری جانب اتوار کو کابل میں افغان نائب وزیرخارجہ نے افغانستان میں پاکستانی سفیر کو طلب کرکے احتجاج کرتے ہوئے الزام لگایا کہ پاکستانی علاقے سے افغان صوبے کُنڑ میں ہونے والی بھاری گولہ باری کے نتیجے میں کم از کم چار شہری جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق پاکستانی فوج نے ان الزامات کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ پاکستان کی جانب سے صرف ان عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا جو سرحد پار کرکے پاکستان میں داخل ہو جاتے ہیں اور شہریوں اور سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بناتے ہیں۔اس سے قبل گزشتہ ہفتے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف اور برطانوی وزیراعظم ڈیوڈکیمرون کے دورئہ افغانستان کے دوران بھی سرحد پار سے ہونے والے حملوں کا معاملہ زیر بحث آیا تھا اور تینوں ممالک کے سربراہان نے سرحد سے ملحقہ علاقوں میں سرگرم عسکریت پسندوں کے خلاف مشترکہ جدوجہد کا عزم کیا تھا۔دوسری جانب اتوار کے ہی روز ایک پاکستانی اخبار سے گفتگو کرتے ہوئے اپوزیشن رہنما افغان نیشنل فرنٹ کے سربراہ احمد ضیاءمسعود اور افغان امن کونسل کے رکن مولوی قیام الدین کاشف نے کہا کہ افغانستان میں امن کا دارومدار پاکستان پر ہے۔ان کے مطابق صرف پاکستان ہی طالبان اور حقانیوں کو اس بات پر راضی کر سکتا ہے کہ وہ مذاکرات کی میز پر آئیں۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ہمیشہ سیاست کرتاہے اور یہ سب کو معلوم ہے کہ طالبان اس کے قابو میں ہیں۔
جنرل جان ایلن کا بیان پاکستانی اردو اخباروں میں کچھ اس طرح بھی شائع ہوا کہ پاکستان شمالی وزیرستان میں آپریشن کرے تو ایساف افغانستان سے ہونے والے حملے روکے گی، تاہم دراصل ایساف کمانڈر کا کہنا تھا کہ پاکستان آپریشن کا آغاز کرے تو بھاگ کر افغانستان جانے والے عسکریت پسندوں کو پکڑنے پر اتحادی افواج کی جانب سے خصوصی توجہ دی جائے گی۔یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ پاکستان سے شمالی وزیرستان میں کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہو۔امریکہ اور افغانستان کی جانب سے اکثر الزام لگایا جاتاہے کہ پاکستان میں عسکریت پسندوں کے محفوظ ٹھکانے موجود ہیں اور یہ شدت پسند پاکستان سے جا کر افغان علاقوں میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرتے ہیں۔غور طلب بات یہ ہے کہ پاکستان کی جانب سے بھی اسی شکوے کا اظہار کیا جاتا ہے۔ یہ بات حقیقت بھی ہے کہ وقتاً فوقتاً شدت پسند افغانستان سے سرحد پار کرکے پاکستانی علاقے میں حملہ آور ہوتے رہتے ہیں۔گزشتہ ہفتے بھی کُنڑ سے درجنوں شدت پسند باجوڑ کے قریب پاکستانی قبائلی علاقے میں داخل ہوئے اور عام شہریوں اور سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا۔عجیب بات ہے کہ امریکہ کی جانب سے پاکستان پر تو مزید کارروائیوں کے لئے دباﺅ ڈالا جاتا ہے، لیکن سرحد کے پار معاملات پر مناسب توجہ نہیں دی جارہی۔پاکستان کا موقف ہے کہ اس کی فوج پہلے ہی بے حد دباﺅ میںہے ان حالات میں اس کے لئے شمالی وزیرستان میں آپریشن ممکن نہیں۔دوسری جانب امریکہ کے پاس دنیا کے بہترین ہتھیار اور ٹیکنالوجی موجود ہے، اگر وہ پاکستان سے شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتا ہے تو کیا اس پر لازم نہیں کہ پہلے افغان علاقے کو ان سے پاک کرے۔اسی طرح پاکستان سے حقانی قبیلے کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا جاتا ہے، جبکہ حقانیوں کی بھی قوت کا مرکز تو افغانستان ہے اور وہاں یہ کہیں زیادہ تعداد میں موجود ہیں۔امریکہ اور افغان فورسز کی جانب سے سرحد پار کارروائی نہ کرنے کے باعث پاکستانی افواج نے اپنے دفاع کے لئے گولہ باری کی ہے تو افغانستان نے شدید احتجاج کیاہے یہی موقف پاکستان کی جانب سے اپنایا جائے تو وہ قابل قبول نہیں ہوتا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ مناسب نہیں کہ اپنے لئے پیمانہ اور رکھا جائے اور دوسروں کے لئے اور۔ اس صورتحال کا صرف ایک ہی حل ہے اور وہ یہ کہ تینوں ممالک ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈالنے کی بجائے، اکٹھے کام کرنے کی کوشش کریں۔ اختلافات کو حل کرنے کے لئے مذاکرات کرنے چاہئیں اور اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے مشترکہ حکمت عملی مرتب کی جانی چاہئے۔ سرحدی علاقوں کی نگرانی بہتر بنانے کے لئے اقدامات کئے جانے چاہئیں اور افواج کے باہمی روابط میں اضافے پر توجہ صرف کی جانی چاہئے۔
موجودہ حالات میں افغان رہنماﺅں کی جانب سے یہ دعویٰ کہ طالبان پاکستان کے کنٹرول میں ہیں، نہایت حیران کن ہے۔ پاکستان ان ممالک میں سے ہے جن کی اس جنگ کے لئے قربانیوں کی فہرست نہایت طویل ہے۔ اس جنگ میں پاکستان نے ہزاروں کی تعداد میں شہریوں اور فوجیوں کی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے اوراس کی معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان پہنچا ہے۔ اس جنگ میں حصہ لینے کا فیصلہ درست تھا یا غلط، اس سے قطع نظر پاکستان نے اس فیصلے کی بھاری قیمت ادا کی ہے۔ اس پس منظر میں یہ قیاس کہ طالبان پاکستان کے قابو میں ہیں، نرم سے نرم الفاظ میں اسے مضحکہ خیز ہی کہا جا سکتا ہے۔اگر طالبان پر پاکستان کی گرفت ہوتی تو اسے اتنا نقصان نہ اٹھانا پڑتا۔ اس قسم کی گفتگو کرنے والوں کو یہ مشورہ دیا جاسکتا ہے کہ اپنی ناکامیوں کا ملبہ کسی دوسرے پر ڈالنا درست نہیں، طالبان کے مخالفین کو بھی اس بات کا احساس کرنا چاہئے کہ طالبان افغانستان کی حقیقت ہیں۔ ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک جنگ لڑنے کے باوجود افغانستان میں ان کا کردار ختم نہیں کیا جا سکا یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ طالبان افغان معاشرے کا حصہ ہیں۔محض کسی بیرونی طاقت کے بل بوتے پر طالبان کے کردار کا خاتمہ ممکن نہیں ہو سکتا۔ یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ افغانستان میں امن اسی صورت ہی ممکن ہے جب افغانستان کے ذمہ داران ایک دوسرے کی بات سننے کے لئے اور ایک دوسرے کو جگہ دینے کے لئے تیار ہوں۔ پاکستان اس میں صرف مدد فراہم کر سکتا ہے۔ ضروری ہے کہ افغانستان کے رہنما اس مسئلے کو حقائق کے مطابق دیکھیں اور حل کرنے کی کوشش کریں۔