بدترین توانائی بحران اور اس کا حل
ملک میں جیسے ہی گرمی زور پکڑتی ہے ،اس کے ساتھ ہی بجلی کی مانگ میں بھی زبردست اضافہ ہوجاتا ہے، مگر افسوس کہ اس اہم ترین قومی معاملے پر کسی بھی حکومت نے اس طرح توجہ نہیں دی ،جس طرح ہونی چاہئے تھی ،جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ توانائی بحران ہرسال مزید شدت کے ساتھ بڑھتا گیا اور اب یہ عالم ہے کہ بجلی کا یہ بحران صنعتوں کو تو ختم کرہی رہا ہے اس کے ساتھ ساتھ عوام الناس کو جس ذہنی اذیت کا سامنا لو وولٹیج اور باربار کی ٹرپنگ کی وجہ سے کرنا پڑتا ہے ،اس کی وجہ سے ایک جانب تو آئے روز قیمتی الیکڑانک اشیاءسے لوگ محروم ہورہے ہیں تو دوسری طرف بجلی کے ان جھٹکوں نے عوام کے مجموعی مزاج پر بھی بہت غلط اثر ڈالا ہے اور عمومی طور پر عوام میں غصہ اور چڑچڑا پن بڑھنے سے کئی ناخوشگوار واقعات بھی پیش آتے رہتے ہیں۔بجلی بحران کے حل پر ایک نظر ڈالی جائے تو سب سے پہلے جس چیز پر ہماری نظر جاتی ہے، وہ کالا باغ ڈیم ہے، جس کو اگر بروقت تعمیرکرلیا جاتاتو نہ صرف آج پورا ملک اس بدترین بحران سے دوچار نہ ہوتا، بلکہ ہمارے صنعتکار ملک چھوڑ کر دیگر ممالک میں کاروبار نہ شروع کرچکے ہوتے، مگر جیسا کہ دیکھنے میں آتا رہتا ہے کہ ہماری ملکی سیاست کا محوراکثراوقات صرف ذاتی مفادات و انا پرستی کے گرد ہی گھومتا رہتا ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ نمائندے، جن کو یہ عوام ہی اپنے مسائل کے حل کے لئے ایوانوں تک پہنچاتے ہیں ،جب یہ حضرات قومی اسمبلی و سینٹ کے ٹھنڈے ٹھار ایوانوں میں پہنچتے ہیں تو یہ سب سے پہلے جن کو بھولتے ہیں، وہ یہی عوام ہی ہوتے ہیں جو سخت گرمی اور دھوپ میں انہیں ووٹ دے کر یہاں پہنچاتے ہیں ۔
ایک اندازے کے مطابق کالاباغ ڈیم تعمیر نہ ہونے کے باعث پاکستان کو ہرسال کم از کم550روپے کا نقصان ہورہا ہے،کیونکہ ماہرین کے مطابق اس عظیم پروجیکٹ کی تکمیل سے عوام کو سستی بجلی کے علاوہ کم از کم 20فیصد زیادہ پیداوار بھی ملتی ،جس سے کسان بھی خوشحال ہوتا ، اس کے علاوہ ہرسال سیلابوں میں ہونے والی اموات سے بھی بچا جاسکتا تھا۔ مختصر یہ کہ اب بھی اس بڑے پروجیکٹ کو شروع کرکے ملک کو خوشحالی کی راہ پر گامزن کیا جاسکتا ہے ۔علاوہ ازیں کوئلے سے بجلی پیدا کرکے بھی ملک کو سستی و معیاری بجلی دی جاسکتی ہے ،کیونکہ اللہ نے پاکستان کو کوئلے کے وسیع زخائر سے بھی نوازا ہے ،جن کو استعمال میں لاکر ساٹھ ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے، مگر ایسا بھی نہیں کیا جارہا۔
ان سب ذرائع کے علاوہ ایک جدید ترین اور کم مدت میں توانائی بحران کو حل کرنے کا ذریعہ سولر انرجی کا ہے۔ یہ وہ طریقہ ہے جو اس وقت یورپ ،امریکہ سمیت پوری دنیا میں مقبول ہورہا ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں ایک لاکھ میگاواٹ بجلی سولر انرجی سے حاصل کی جارہی ہے اورآسٹریلیا میںتوعوام اس ذریعے سے نہ صرف اپنی توانائی ضروریات پوری کررہے ہیں، بلکہ وہ پیدا ہونے والی اضافی بجلی حکومت کو فروخت کرکے معقول آمدنی بھی حاصل کررہے ہیں ،مگر افسوس کہ ہماری حکومت کی اس جانب دلچسپی نہ ہونے کے باعث عوام اس سستے ترین ذریعے سے فائدہ اٹھانے سے قاصر ہیں۔ حالانکہ یہ بات واضح ہے کہ اگر حکومت ملک بھر میں پانچ پانچ کلو واٹ کے دس لاکھ پینل نصب کرے تو اس سے پانچ ہزار میگاواٹ بجلی فوری شروع ہوجائے گی اور اس پر صرف پچاس ارب روپے خرچ ہوں گے ۔مزید یہ کہ پچیس سال تک اس پر مزید کوئی خرچہ نہیں کرنا پڑے گا،جبکہ تھرمل ذرائع سے اتنی بجلی 100ارب روپے میں بھی حاصل ہونا مشکل ہے ۔
علاوہ ازیں سولر انرجی کے آلات پر ڈیوٹی ختم کرکے بھی بہت کم عرصے میں اس بحران پر قابو پایا جاسکتا ہے ،کیونکہ اس سے یہ ہوگا کہ کہ سولر پینل آلات انتہائی سستے داموں مارکیٹ میں دستیاب ہوں گے۔ ہاں البتہ حکومت ان آلات کے ذریعے گھروں اور کمرشل سطح پر سولر انرجی پینل فراہم کرنے والی کمپنیوں پر مناسب ٹیکس بھی عائد کرسکتی ہے ،جس پر ان کمپنیوں کو یقینا کوئی اعتراض بھی نہیں ہوگا۔ ابتدائی طور پر یہ تجربہ بڑے شہروں میں کیا جاسکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی دیہات کے ٹیوب ویلوں کو سولر پر منتقل کردیا جائے تو موجودہ بدترین توانائی بحران صرف 6ماہ میں ختم ہوسکتا ہے، مگر اس کے لئے ،جس چیز کی سب سے پہلے ضرورت ہے، وہ ہے حکومتی سنجیدگی جو کہ کم از کم اس وقت دیکھنے میں نہیں آرہی، جس کے باعث عوام معاشی مشکلات کے بعد اب نفسیاتی مسائل کا شکار ہورہے ہیں ۔اگر حکومت واقعی توانائی بحران کو حل کرنا چاہتی ہے تو اسے سیاسی بیان بازیوں سے آگے بڑھتے ہوئے فوراََ سولر انرجی جیسے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ہنگامی اقدامات کرنے چاہئےں۔ ٭