اور انصاف ہو گیا!
اقوام متحدہ ، وہ ادارہ جس نے دنیا بھر میں ظلم و بربریت کے خلاف آواز اٹھائی، مظلوموں کی دادرسی کی، کمز ور تہذیبوں اور لاغر قوموں کے حق میں آواز بلند کر کے طاقتور ملکوں کو دوسروں کا استحصال کرنے سے روکا اور یہ ثابت کیا کہ قوموں کو ان کا حق دلوانے کیلئے یہ اس دنیا کا سب سے ”فعال“ ادارہ ہے۔ اقوا م متحدہ کی تعریف الفاظ کی محتاج نہیں بلکہ اس کے ”کارنامے“ ہی اس کی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ فلسطین کے اسرائیل کے خلاف ”مظالم“ ہوں، یا کشمیر میں بھارتی فوجیوں کا ”قتل عام“ کسی بھی موقع پر اس ادارے نے اپنی ذمہ داریوں سے فرار اختیار نہیں کیا اور ضرورت پڑنے پر ’’ظالموں‘‘ کے سامنے ڈھال بن گیا۔
دو ہفتوں سے زائد حماس اور اسرائیل کے درمیان جاری ”جنگ“ کے نہ رکنے والے سلسلہ پر اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری بان کی مون بالآخر اسرائیل پہنچے اور اپنی ”گنہگار“ آنکھوں سے اسرائیل کے گلی کوچوں میں جاری ”حماس کی قتل و غارت“ کو بھی دیکھا، قبروں میں اترنے والے اور ہسپتالوں میں لوتھڑوں کی طرح بے حال کمسن’ دہشت گردوں‘ کے بارے میں اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو کی بریفنگ لے کر”حماس کے راکٹ حملوں“ کی مذمت بھی کی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اسرائیل اور فلسطین کی مائیں اپنے اپنے بچے دفنا رہی ہیں، دونوں فریقین ”جنگ“ بند کر کے مذاکرات کریں۔ اقوام متحدہ نے ایک بار پھر تاریخ رقم کی ہے جس پر آنے والی نسل فخر کرے گی اور دنیا میں قیام امن کیلئے اس ادارے کی کوششوں کو سراہے گی۔
امید ہے کہ اقوام متحدہ کی حماس کو دی گئی اس ”تڑی“ کے بعد اسرائیلی عوام پر مظالم کا سلسلہ بند ہو جائے گا اور آئندہ بھی اس قسم کے واقعات کی روک تھام کے سلسلے میں یقینی اقدامات ہوں گے کیونکہ اگر ایسا نہ ہوا تو اقوام متحدہ یہ جانتا ہے کہ ’فلسطینیوں ‘کو کیسے ’قابو‘ کرنا ہے۔
اقوام متحدہ نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ وہ روئے زمین پر ”بہترین“ ادارہ ہے جس کے ہوتے ہوئے کسی کا ’استحصال‘ ممکن نہیں، کوئی بھی ’پھنے خاں‘ ’مظلوم ‘اسرائیل کی جانب آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکتا، کوئی ان کی نسل کشی نہیں کر سکتا کم از کم اس ادارے کے ہوتے ہوئے تو نہیں۔ یوں اقوام متحدہ نے ظلم برداشت نہ کرنے اور ہمیشہ مظلوموں کی دادرسی کے عزم کا عملی مظاہرہ کیا ہے اور اگر کشمیریوں نے بھی بھارتی فوج پر ”مظالم“ ڈھانے بند نہ کئے تو یہ ادارہ ان کے خلاف بھی کارروائی عمل میں لائے گا اور بھارتی فوجیوں پر چھائی ظلم کی تاریک رات دن کے اجالے میں بدل جائے گی۔
امریکی صدر براک اوباما نے بھی دو روز پہلے وائٹ ہاﺅس میں افطار ڈنر کا اہتمام کیا جس میں تمام مسلمان سفیر شریک ہوئے ۔ اس موقع پر امریکی صدر نے بھی ”انسانیت“ کا مظاہرہ کرتے ہوئے حماس کے’ مظالم ‘سے ان سفیروں کواچھی طرح آگاہ کیا اور ان کے خلاف آواز اٹھانے کا مطالبہ کیا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس نیک ”مجلس“ کے تمام شرکاءنے تالیاں بجا کر صدر اوباما کی بات کی ”کھنکھناتی“ تائید بھی کی اور تمام ہدایات کو غور سے سن کر اپنی حکومتوں تک پہنچا بھی دی ہوں گی کیونکہ دنیا میں کسی بھی چیز کی رفتار امریکی ”ہدایات“ سے زیادہ نہیں۔
مسلمان ممالک اس تمام صورتحال پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اپنے عوام کو جدید ترین ٹیکنالوجی سے آراستہ کرتے رہیں تاکہ مسلمان نوجوان سوشل میڈیا پر اپنے فلسطینی بھائیوں کے حق میں صیہونی طاقتوں کے خلاف بھرپور ”جنگ“ لڑ کر انہیں اسرائیلی مظالم سے نجات دلانے میں بھرپور کردار ادا کریں اور ”غازی“ بن جائیں کیونکہ فیس بک اور ٹوئٹر پر جاری ہونے والی فلسطینی شہداءکی تصاویر اور ویڈیوز کو زیادہ سے زیادہ لائک اور شیئرز بھی تو ملنے چاہئیں ورنہ ان کیلئے ہمارے دلوں میں بھری محبت اور درد اس دنیا پر کیسے آشکار ہو گا؟