سنت کا مفہوم اور اہمیت وحجیت

Jul 24, 2015

محمد خالد سیف

سنت کے لغوی معنی سیرت اور طریقے کے ہیں، خواہ وہ اچھا ہو یا برا البتہ اہل علم کے اغراض ومقاصد کے اختلاف کے باعث ان کے ہاں سنت کا مفہوم بھی مختلف ہے، مثلاً علماء اصول مشرعی دلائل کے بارے میں تحقیق کرتے ہیں، جبکہ علماء حدیث کا مطلوب ومقصود ہر اس چیز سے شغف ہے جو امام کائناتؐ سے نسبت رکھتی ہو اور علماء فقہ کا منتہائے مقصود احکام شرعیہ فرض، مستحب، حرام اور مکروہ وغیرہ کے بارے میں گفتگو کرنا ہوتا ہے۔ اہل علم کے انہی مختلف اغراض ومقاصد کے باعث ان کے ہاں سنت کا اصطلاحی مفہوم بھی مختلف ہے، علماء اصول کے ہاں سنت کا اطلاق ہر اس قول، فعل یا تقریر پر کیا جاتا ہے جو آنحضرتؐ سے منقول ہو۔
اکثر علماء شافعیہ اور جمہور علماء اصول فقہی مفہوم کی نسبت سے مندوب، مستحب اور نفل وغیرہ پر سنت کا اطلاق کرتے اور کہتے ہیں کہ سنت سے مراد وہ فعل ہے جس کے کرنے پر انسان کو ثواب ملتا ہے اور نہ کرنے پر گناہ نہیں ہوتا۔ علماء حدیث کے نزدیک سنت کا اطلاق آنحضرتؐ کے اقوال، افعال، تقریرات، خَلْقِیْ اور خُلُقِیْ صفات، جہاد وغزوات حتیٰ کہ بعثت سے قبل کے تمام حالات وواقعات پر بھی ہوتا ہے اور اس معنی ومفہوم کے اعتبار سے سنت کا لفظ حدیث شریف کے مترادف ہے اور اس وقت ہمارے پیشِ نظر بھی سنت کا یہی معنی ومفہوم ہے۔
اپنے اس مفہوم کے اعتبار سے سنت، کتاب اللہ کے بعد دین کا دوسرا بڑا مصدرومأخذ ہے، دین میں حجت ہے، اس کی اتباع واجب اور اس کی مخالفت حرام ہے۔
اللہ رب ذوالجلال والا کرام نے اپنے محبوب پیغمبر حضرت محمد رسول اللہؐ پر جیسے قرآن مجید کو نازل فرمایا، اس کی مثال کو بھی اس کے ساتھ نازل فرمایا، یعنی جس طرح اس نے قرآن مجید کو نازل فرمایا، اس طرح اس نے سنت کو بھی نازل فرمایا ہے۔ لہٰذا سنت بھی دین کے اصولوں میں سے ایک اہم اصول اور دین کے ارکان میں سے ایک عظیم الشان رکن ہے۔ اسی لئے ہم نے یہ کہا ہے کہ اس کی اتباع واجب اور اس کی مخالفت حرام ہے، جیسا کہ قرآن مجید کی بے شمار آیات کریمہ میں اس بات کو بیان کیا گیا ہے کہ اس میں شک وشبہ کی کوئی گنجائش ہی باقی نہیں رہتی جو شخص اس بات کا انکار کرے، وہ گویا قطعی دلائل کا انکار کرتا اور اجماعِ امت کی مخالفت کرتا ہے۔ ان آیات کریمہ میں سے چند ایک حسبِ ذیل ہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَ یَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ ط وَاللّٰہُ غَفُوْرٌرَّحِیْمٌ
’’آپ کہہ دیجئے! اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بہت بخشنے والا، نہایت رحم کرنے والا ہے۔‘‘(آل عمران:31)
حافظ ابن کثیرؒ فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ نے اس بات کا فیصلہ کر دیا ہے کہ ہر وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کی محبت کا دعویٰ تو کرے لیکن وہ حضرت محمد رسول اللہؐ کے طریقے پر نہ ہو، وہ اپنے اس دعوائے حب الٰہی میں اس وقت تک جھوٹا ہے جب تک وہ اپنے تمام اقوال وافعال اور احوال میں شریعت محمدی اور دین نبوی کی پیروی نہ کرے۔
قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَ یَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ
(اے پیغمبر! لوگوں سے) کہہ دیجئے! اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا۔‘‘ (آل عمران:31)
یعنی تمہیں تمہاری طلب سے بھی بڑھ کر اللہ کی محبت حاصل ہوگی اور وہ یہ کہ بجائے اس کے کہ تم اللہ سے محبت رکھو، اللہ تعالیٰ تم سے محبت رکھے گا اور یہ مقام پہلے سے بڑھ کر ہے۔
یہ آیت کریمہ اس بات کی دلیل ہے کہ رسول اللہؐ کے طریقے کی مخالفت کفر ہے اور جو شخص آپؐ کے طریقے کی مخالفت کرتا ہو اللہ تعالیٰ اسے دوست نہیں رکھتا، خواہ بزعم خود وہ حب الٰہی اور تقرب الٰہی کے بلند بانگ دعوے کیوں نہ کرے؟ وہ اپنے اس دعوے میں صرف اور صرف اسی وقت سچا ہوگا جب وہ آپؐ کی اتباع کرے، آپ کے زمانے میں اگر سابقہ انبیاء ومرسلین حتیٰ کہ اولوالعزم پیغمبر بھی ہوں تو ان سب کے لئے بس آپ کی اتباع کے بغیر چارہ کار نہیں۔‘‘ (تفسیر ابن کثیر، ارود۔ج:1، ص: 608-607، مطبوعہ دارالسلام)
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فَلَاوَرَبِّکَ لَایُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا
مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا۔
آپ کے رب کی قسم! وہ مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں آپ کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر آپ کے کئے ہوئے فیصلے پر ان کے دلوں میں کوئی تنگی نہ آنے پائے اور وہ اسے دل وجان سے مان لیں۔‘‘ (النسآء: 65)
اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں اپنی پاک اور مقدس ذات گرامی کی قسم کھا کر فرمایا ہے کہ اس وقت تک کوئی شخص مومن ہو ہی نہیں سکتا جب تک وہ تمام امور میں رسول اللہؐ کو منصف تسلیم نہ کرے، پھر آپ جو فیصلہ فرما دیں، وہی حق ہے اور باطنی وظاہری طور پر اسے تسلیم کرنا واجب ہے۔
امام بخاریؒ نے اس آیت کریمہ کی تفسیر میں سیدنا عروہؓ کی اس روایت کو بیان کیا ہے کہ سیدنا زبیرؓ کا ایک شخص سے حرّہ کی ندی کے پانی کے بارے میں جھگڑا ہوا تو نبی اکرمؐ نے فرمایا: زبیر! تم (اپنی کھیتی کو) پانی دے لیا کرو، پھر پانی اپنے پڑوسی کی طرف روانہ کر دیا کرو۔ انصاری نے کہا: اے اللہ کے رسولؐ ! آپ نے یہ فیصلہ اس لئے فرمایا ہے کہ زبیر آپ کے پھوپھی زاد بھائی ہیں۔ یہ سن کر رسول اللہؐ کے چہرۂ اقدس کا رنگ متغیر ہو گیا اور آپؐ نے فرمایا: زبیر! اپنی کھیتی کو پانی دو، پھر پانی کو روک لو، حتیٰ کہ منڈیروں(پشتوں) تک آجائے، پھر اپنے پڑوسی کے لئے پانی چھوڑدو، سیدنا زبیرؓ بیان فرماتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ یہ آیت کریمہ اسی موقع پر نازل ہوئی تھی۔ ‘‘ (بخاری ومسلم)
مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ وَمَنْ تَوَلّٰی
فَمَآ اَرْسَلْنٰکَ عَلَیْھِمْ حَفِیْظًا۔
’’جس نے رسول کی اطاعت کی تو اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے منہ موڑا تو ہم نے آپ کو ان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجا۔‘‘ (النسآء: 80)
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب پیغمبر حضرت محمد رسول اللہؐ کے بارے میں فرمایا ہے کہ جس نے آپ کی اطاعت کی تو اس نے گویا اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی اور جس نے آپؐ کی نافرمانی کی تو اس نے گویا اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی، اس لئے کہ آپؐ خواہش نفس سے بات نہیں کرتے، بلکہ آپ جو کچھ بھی فرماتے ہیں، وہ وحی الٰہی پر مبنی ہوتا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا:
مَنْ اَطَاعَنِیْ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ، وَمَنْ عَصَانِیْ فَقَدْ عَصَی اللّٰہَ۔
’’جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی۔‘‘ (بخاری، مسلم)
ایک اور حدیث میں ہے:
مَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ رَشَدَ، وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ فَاِنَّہٗ لَا یَضُرُّ اِلَّا نَفْسَہٗ۔
’’جو اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرے تو اس نے اپنی درستی کا سامان مہیا کر لیا اور جو اللہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی کرے تو وہ اپنا ہی نقصان کرے گا۔‘‘(مسلم، سنن ابی داؤد)
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِہٖٓ اَنْ تُصِیْبَہُمْ فِتْنَۃٌ اَوْ یُصِیْبَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
’’جو لوگ اس (اللہ اور اس کے رسول) کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں اس (بات) سے ڈریں کہ انہیں کوئی آزمائش آپڑے یا انہیں دردناک عذاب آلے۔‘‘(النور:63)
رسول اللہؐ کے حکم سے مراد آپ کا رستہ، منہاج، طریقہ، سنت اور شریعت ہے، اقوال واعمال کے پرکھنے اور جانچنے کے لئے آپ کے ارشادات واعمال کسوٹی ہیں، جو اقوال واعمال آپ کی سنت کے مطابق ہوں گے، وہ مقبول اور جو خلاف ہوں گے وہ مردود ہیں، خواہ ان کے کہنے والا یا کرنے والا کوئی بھی ہو۔
(لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللّٰہَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیْرًا)
’’البتہ تحقیق تمہارے لئے رسول اللہؐ (کی ذات) میں بہترین نمونہ ہے، ہر اس شخص کے لئے جو اللہ (سے ملاقات) اور یوم آخرت کی امید رکھتا ہے اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرتا ہے۔‘‘ (الاحزاب: 21)
یہ آیت کریمہ بھی اس بات کی بہت بڑی دلیل ہے کہ رسول اللہؐ کی ذات گرامی اپنے اقوال، افعال، احوال اور ہر اعتبار سے اسوہ حسنہ ہے، آپ کے علاوہ اور کسی بھی ہستی یا شخصیت کی زندگی ہر اعتبار سے ہر شخص کے لئے کامل اسوہ اور نمونہ نہیں۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ کی سنت کی مخالفت کرنے والوں کے لئے آخرت میں درد ناک عذاب تو ہے ہی، وہ دنیا میں بھی کسی فتنے میں مبتلا ہو سکتے ہیں، جیسا کہ آنحضرتؐ نے فرمایا ہے:
لَتُسَوُّنَّ صُفُوْفَکُمْ اَوْلَیُخَالِفَنَّ اللّٰہُ بَیْنَ وُجُوْہِکُمْ
’’تم اپنی صفوں کو ضرور سیدھا رکھو گے یا پھر اللہ تمہاری صفوں میں اختلاف ڈال دیں گے۔‘‘
یعنی تمہارے دلوں میں عداوت، دشمنی اور کینہ پیدا فرمادیں گے۔
’’تم میں سے جو شخص (نماز میں) امام سے پہلے اپنے سر کو اٹھاتا ہے، وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتا نہیں کہ اس کے سر کو گدھے کا سر بنا دے؟ یا اس کی صورت کو گدھے کی صورت بنا دے؟‘‘(بخاری، مسلم)
یہ اللہ تعالیٰ کا حلم، رحمت اور مہربانی ہے کہ وہ معاف فرمادے ورنہ وہ اس بات پر قادر ہے کہ اپنے حبیبؐ کی سنت کی مخالفت کرنے والے کو ابتلاء اور فتنے میں مبتلا کرکے لوگوں کیلئے نمونہ عبرت بنا دے۔ حضرت سلمہؓ بن عمرو بن اکوع ؓ روای ہیں کہ ایک شخص رسول اللہؐ کے پاس بائیں ہاتھ سے کھا رہا تھا، آپؐ نے فرمایا: دائیں ہاتھ سے کھاؤ۔ اس نے کہا:میں نہیں کھاسکتا۔ آپ ؐنے فرمایا:اللہ کرے تو نہ کھا سکے، اس نے ازراہ تکبر ایسا کہا تھا، لیکن اس کے بعد وہ کبھی بھی اپنے ہاتھ کو اپنے منہ تک اٹھا ہی نہ سکا۔ (مسلم)
یعنی اللہ تعالیٰ نے رسول اللہؐ کے حکم کی مخالفت کی پاداش میں اس بدنصیب کے ہاتھ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے شل کر دیا تھا تو پھر آنحضرتؐ کے ارشادات اور معمولات کے ہوتے ہوئے کسی اور کی اتباع اور تقلید کیسے کی جاسکتی ہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗٓ اَمْرًا اَنْ یَّکُوْنَ لَھُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ اَمْرِھِمْ۔ وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیْنًا
’’اور کسی مومن مرد اور کسی مومن عورت کو یہ حق نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے کا فیصلہ کر دیں تو ان کے لئے اپنے معاملے میں ان کا کوئی اختیار(باقی) رہے اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے تو وہ یقیناًکھلم کھلا گمراہ ہوگیا۔‘‘ (الاحزاب:36)
یعنی جب اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کسی چیز کا حکم دے دیں تو پھر کسی کو اس کی مخالفت کا حق حاصل نہیں، پھر کسی کا کوئی اختیار نہیں اور پھر کسی کی رائے یا قول کی کوئی حیثیت نہیں۔
وَمَآ اٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَھٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْا
’’اور جو چیز تم کو پیغمبر دیں تو وہ لے لو اور جس سے منع کر دیں تو تم اس سے باز رہو۔‘‘ (الحشر: 7)
یعنی رسول اللہؐ تمہیں جو بھی حکم دیں اسے بجا لاؤ اور جس چیز سے بھی منع فرمائیں، اس سے اجتناب کرو، کیونکہ آپ کا ہر ہر امرونہی وحی الٰہی اور منشائے خداوندی کے عین مطابق ہے۔ امام احمدؒ نے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی روایت کو بیان کیا ہے کہ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ ان عورتوں پر لعنت فرمائے جو گودنے والی، گودوانے والی، ابرو کے بالوں کو باریک کرنے والی، حسن کے لئے دانتوں میں فرق کرنے والی اور اللہ عزوجل کی تخلیق کو بدلنے والی ہوں۔ (بنو اسد کی) ام یعقوب نامی ایک عورت کو اپنے گھر میں جب یہ بات پہنچی تو اس نے حضرت ابن مسعودؓ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا:مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ آپ نے ایسی اور ایسی بات کی ہے، انہوں نے جواب دیا: میں اس پر لعنت کیوں نہ بھیجوں جس پر رسول اللہؐ نے لعنت فرمائی ہو اور پھر اس کا ذکر کتاب اللہ میں بھی ہو؟ اس نے کہا :میں نے سارا قرآن پڑھا ہے مگر میں نے اسے قرآن مجید میں کہیں نہیں پایا، انہوں نے فرمایا: اگر تو نے قرآن پڑھا ہوتا تو اسے ضرورپاتی، کیا تو نے یہ نہیں پڑھا
وَمَآ اٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَھٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْا
’’اور جو چیز تم کو پیغمبر دیں تو وہ لے لو اور جس سے منع کر دیں تو تم اس سے باز رہو۔‘‘ (الحشر: 7)
اس نے جواب دیا: ہاں اس آیت کو تو پڑھا ہے، حضرت ابن مسعودؓ نے کہا کہ رسول اللہؐ نے اس سے منع فرمایا ہے۔(مسند احمد، بخاری، مسلم)
اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ حضرات صحابہ کرامؓ سنت کی حجیت کے اعتبار سے قرآن کریم ہی کے مثل سمجھتے تھے، بلاشبہ قرآن وسنت ہی دین کا اولین مصدرو مأخذ، بنیاد واساس اور حجیت واہمیت میں یکساں ہیں، لہٰذا ہر مسلمان کے لئے کتاب وسنت ہی کی اطاعت واتباع واجب ہے۔

مزیدخبریں