ایک جیون، کئی کہانیاں (2)
علی احمد خاں کی کتاب بنیادی طور پر ان کی آپ بیتی ہے اور ذرا اوپر جا کر دیکھیں تو ایک خاندان کے جڑنے ، ادھڑنے اور پھر سے جڑے رہنے کی داستان ۔ چونکہ فرد ہی زندگی کا نیوکلیس ہے ، اس لئے واقعات کا یہ انفرادی تسلسل کئی خاندانی اکائیوں کی روئداد بھی ہے ۔ اِس رشتے کی وضاحت منفرد نظم گو آفتاب اقبال شمیم یوں کرتے ہیں کہ ’میرا حافظہ میری فنا اور بقا کا حوالہ ہے اور میری تاریخ اس فنا و بقا کی جدلیت کی دستاویز ۔ ایک مسلسل تجربہ جو ماضی سے مستقبل کی روشنی تلاش کرتا ہے اور مجھے میرے تصرف میں رکھتا ہے ۔ میں اس تجربے کی دریافت ہوں ، اور اسی رفتہ کا آئندہ ہوں ‘ ۔ ’ جیون ایک کہانی‘ کا مصنف ہے تو اپنے ہی تجربے کی دریافت ، مگر کتاب کا بھرپور واقعاتی بیانیہ ہی اس کی سچائی کی منطق بھی ہے ، جسے تقویت دینے کے لئے اسے شعوری پوائنٹ اسکورنگ کی ضرورت نہیں۔
مثال کے طور پہ تقسیم سے پہلے جب فوجیوں سے آپشن مانگی گئی تو ائر فورس کے بیشتر مسلمان افسروں کی طرح مصنف کے حقیقی چچا کا فیصلہ پاکستان کے حق میں تھا ، مگر والد ہجرت پہ تیار نہیں تھے ۔ علی احمد خاں کے الفاظ میں ’ہر ایک کا خیال تھا کہ میرے ابا کی مسلم لیگ دشمنی میں منشی شفیق کی دوستی کو بڑا دخل ہے ، اور ایک بار تو میرے دادا کے ایک رشتے کے بھائی نے ہماری بیٹھک میں منشی جی پہ جوتا اٹھا لیا تھا اور یہ دھمکی بھی دے دی تھی کہ اگر وہ پھر ہماری بیٹھک میں دیکھے گئے تو ان کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی ۔ اس دھمکی کے باوجود منشی جی نہ صرف ہماری بیٹھک میں آتے رہے بلکہ اپنے سیاسی موقف کے دفاع اور پرچار میں بڑی ثابت قدمی سے ڈٹے رہے ۔ کہتے ہیں کہ پاکستان بننے کے بعد جب بھی بستی میں کسی مسلم لیگی پر کوئی افتاد پڑی تو منشی جی نے اس کی مد د میں کوئی پس و پیش نہ کیا‘ ۔
اس سے یہ مراد نہیں کہ مصنف علی احمد خاں برصغیر کے کسی بھی ملک کے بارے میں خوامخواہ کی رومانیت کا شکار رہے یا وہ اُس پس منظر سے آگاہ نہیں تھے جس کی روشنی میں اپنی اپنی سمجھ کے مطابق ، لوگوں کی ترجیحات بتدریج بدل گئیں ۔ جیسے آزادی کے چند مہینے بعد مصنف کی پاکستان مراجعت کے دنوں میں گاندھی جی کا قتل ، جب پہلی مرتبہ یوں محسوس ہو رہا تھا کہ اس واقعے نے دادا کو بھی خوفزدہ کر دیا ہے ، حالانکہ وہ بڑے دلیر آدمی تھے اور سیاسی اعتبار سے بڑی فعال زندگی گزار چکے تھے ۔ جب پتا چلا کہ گاندھی جی کا قاتل ہندو ہے تو کچھ ڈھارس بندھی ۔ اسی طرح جب بستی کے ایک ممتاز مسلمان کی گرفتاری کا وارنٹ جاری ہوا تو مشرقی یوپی میں زمانیہ کی پٹھان برادری کو پہلی بار یہ احساس ہوا کہ شرافت اور نجابت کا جو حصار انہوں نے اپنے گرد باندھ رکھا تھا ، وہ اتنا مضبوط نہیں رہا ۔
آزادی کا سورج پاکستان کے لئے اپنے جلو میں جو سماجی تبدیلیاں لے کر آیا ، مصنف نے ان کا معصومانہ مشاہدہ بھی کیا ہے ۔ ابتدا میں فضائیہ کے افسروں اور ان کے اہل خانہ کو کراچی میں رہنے کے لئے فوجی بارکوں میں جو چار چار کمرے دئے گئے ، ان میں تمام گھریلو فرنیچر ایم ای ایس سے کرائے پہ حاصل کیا جاتا ، اور افسر لوگ ڈیوٹی پہ آنے جانے کے لئے سائیکل استعمال کرتے اور کراچی شہر جاتے ہوئے عام بس ۔ بعض خاندانوں کو پکوائی کے لئے باورچی کی سہولت ایک نئی بات لگی ، لیکن نقلِ مکانی کا ایک فائدہ اُن روایات سے چھٹکار ا بھی تو ہے ، جنہیں آپ آبائی شہر میں کبھی نہ توڑ سکتے ۔ جیسے بعض بیگمات کا برقع اوڑھنے سے انکار اور ایک شوہر اور بیوی کی باہمی سگریٹ نوشی جو مصنف کے بقول ’کسی مسلمان شریف زادی کو سگریٹ پیتے ہوئے دیکھنے کا میرا پہلا تجربہ تھا‘ ۔
پر جناب ، یہ تو وہ تبدیلیاں ہیں جو مغربی پاکستان یا یوں کہہ لیں کہ موجودہ پاکستان میں شامل علاقوں تک محدود رہیں ۔ مشرقی پاکستان میں ، جسے شروع شروع میں مشرقی بنگال ہی کہا گیا ، سیاسی اور سماجی حالات نے اور طرح کی کروٹ لی تھی ۔ یہ کہانی بیان کرتے ہوئے ، مصنف کے مشاہدے کی داد دینے کو جی چاہتا ہے جس میں ٹی وی ٹاک شو جیسی وہ سمعی و بصری چالاکیاں نہیں جنہیں دیکھ کر گمان گزرے کہ پروگرام کے ایڈیٹر ، پروڈیوسر یا میزبان نے کسی سیاسی ، نسلی یا کاروباری گروہ سے پیسے پکڑے ہوئے ہیں ۔ نیو ویو پاکستانی میڈیا کے برعکس ، جو مشن جرنلزم کی جگہ کمیشن جرنلزم کو فروغ دے رہا ہے ، علی احمد خاں کا کیمرا ایسے زاویے پہ ٹکا ہوا ہے کہ اُس کے سامنے ، سعادت حسن منٹو کے بقول ، کسی کردار کو نہلا دھلا کر رحمتہ اللہ علیہ کی کھونٹی پر لٹکایا ہی نہیں جا سکتا ۔
ان طبقاتی اور نسلی عصبیتوں کی ابتدائی جھلک جو بالآخر سقوطِ مشرقی پاکستان پر منتج ہوئیں ، چٹاگانگ کے اولین سفر ہی میں دکھائی دینے لگی تھی ۔ یہ سفر اس لئے کہ نو عمر علی احمد خاں کے ائر فورس والے بزرگ برطانیہ میں تربیتی کورس کی تکمیل پر اسی شہر کے مضافات میں پتنگا کے مقام پر متعین ہوئے جبکہ والد بھی ہندوستان میں حالات بدل جانے پر دیناج پور آ بسے تھے ۔ بحری راستے سے چٹاگانگ پہنچنے پر مصنف اور ان کے بھائی کو لینے کے لئے رشتے کے ایک چچا آئے ہوئے تھے جنہوں نے شہر جانے کے لئے ٹیکسی کرائی ، اور جب چلنے سے پہلے ٹیکسی والے نے کہا کہ دس روپے لیں گے تو چچا اس پر برس پڑے ’ابے لوٹ مچی ہے کیا؟ تیرے باپ نے دس روپے کبھی دیکھے تھے؟ پاکستان کیا بنا ہے ، اندھیر ہو گیا ہے‘ ۔ اس پر ٹیکسی والے نے بھی کچھ کہہ دیا ۔ اب چچا کے غصے کا عالم مت پوچھئے ۔
مصنف کے نزدیک یہ بالکل ایسے تھا جیسے اُن کے کسی غلام نے انہیں جواب دے دیا ہو ۔ چنانچہ وہ گئے اور بندرگاہ کے محکمہ واچ اینڈ وارڈ کے ایک انسپکٹر صاحب کو لے آئے ، جو یو پی میں انہی کی آبائی بستی کے رہنے والے تھے ۔ انہوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ ، ٹیکسی والے کے منہ پر ایک زور کا طمانچہ لگایا اور چچا سے مخاطب ہو کر کہنے لگے ’ان لوگوں سے شرافت برتنا بیوقوفی ہے ، یہ (آگے ایک ناگفتنی لفظ) جوتے کے آدمی ہیں ، سالے میر جعفر کی اولاد ۔ ساری زندگی ہندوؤں کی غلامی کرتے رہے ، رات کو سوئے اور صبح اٹھے تو آزادی مل گئی ۔ یہ کیا جانیں آزادی کیا ہوتی ہے!‘ اس کے بعد انسپکٹر نے پانچ روپے کرایہ مقرر کیا اور ٹیکسی والے کو ڈانٹا کہ ’خبردار جو راستے میں کوئی حرامی پن کیا ، کھال کھینچ لوں گا‘ ۔ منزل پر پہنچ کر چچا نے کرائے کے علاوہ بھی پانچ روپے ادا کئے کیونکہ مصنف کے الفاظ میں ، وہ مزدوری دینے کی بجائے بخششیں دے کر احساسِ برتری خریدنا چاہتے تھے۔
چٹا گانگ سے دیناج پور کا سفر بھی احساسِ برتری کے ایسے ہی مظاہروں میں گزرا ۔ چچا نے ، جو ٹرین پر سفر کرنے کا بڑا وسیع تجربہ رکھتے تھے ، قلی کو دو روپے دے کر کہا کہ انٹر کلاس (یعنی ڈیوڑھے یا درمیانی درجہ) میں ایک لمبی سیٹ پر بستر بچھا دے ۔ چنانچہ جب دونوں بھائی ڈبے میں گھسے تو بستر بچھا ہوا تھا ، جس پر جاتے ہی لیٹ گئے اور چچا نے دربانی شروع کر دی ۔ باقی سارے لوگ دوسری سیٹوں پر اونگھ رہے تھے ، ایک دوسرے پر گرِ رہے تھے ، لیکن ان کی سیٹ پر کسی نے بیٹھنے کی ہمت نہ کی ۔ اگر کی بھی تو چچا نے یہ کہہ کر ڈانٹ پلا دی کہ یہ سیٹ انہوں نے پیسے دے کر حاصل کی ہے ، اس پر لوگ چپ ہو جاتے ۔ دیناج پور اسٹیشن کے گیٹ پر ٹکٹ کلکٹر نے ، جو بہاری ہوں گے ، ٹکٹ تو چیک نہ کیا بلکہ یہ پوچھ کر کہ کیا خاں صاحب کے بچے ہیں ، مرعوبیت سے کہا ’شکل سے ہی لگ رہا ہے‘ ۔
مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر ماضی میں جو کچھ لکھا گیا ، اُس کی افادیت سے انکار نہیں ۔ پھر بھی ان تجزیوں کو پڑھ کر ذہن میں یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ کیا ہم عسکری اور سیاسی حقائق کی نشاندہی کے لئے کھینچی گئی کسی تصویر میں مکمل انسانی سچائی کے تمام رنگوں کو سمیٹ سکتے ہیں ؟ ’جیون ایک کہانی‘ میں اگر رشتے کے چچا کو علامتی کردار کے طور پر لیا جائے تو پھر ہمارے حقائق جزوی سچائیاں نہیں رہتے ۔ مشرقی پاکستان کے تناظر میں مصنف کی بیان کردہ کُلی سچائی یہ ہے کہ ’حکمراں طبقے کا خوف لوگوں کے ذہنوں میں اسی طرح بیٹھا ہوا تھا جیسے انگریزوں اور مغلوں کے زمانے میں تھا ، اور ہمارے چچا حکمراں طبقے سے اپنی وابستگی ثابت کرنے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہے تھے ۔ ان کا بنگالی مسلمانوں پر یہ بڑا احسان تھا کہ انہوں نے اپنا گھر بار چھوڑ کر ان بنگالیوں کو ہندوؤں اور انگریزوں کے چنگل سے آزاد کرایا ‘۔(جاری ہے)