پاک بھارت تنازعات، تعلقات اور صحافتی کردار!
نوین ایس گریوال بھارت کے ایک سینئر جرنلسٹ ہیں وہ چندی گڑھ میں ٹربیون کے بیورو چیف ہیں، چندی گڑھ میں پریس کلب لاہور کی طرح اچھا اور بڑے معقول رقبے پر ہے اور یہ کلب فعال بھی ہے کہ چندی گڑھ بھارت کے دو صوبوں ہریانہ اور پنجاب کا دارالحکومت ہے۔ لاہور پریس کلب اور چندی گڑھ پریس کلب کے درمیان وفود کا تبادلہ بھی ہوتا رہتا ہے اور یہ دونوں کلب جڑواں بھی قرار دیئے گئے ۔نوین گریوال جب اس کے صدر تھے تو ان کی قیادت میں چندی گڑھ پریس کلب کا وفد لاہور آیا، یہاں کئی اجلاس ہوئے جن میں آزادی صحافت، روزگار کے تحفظ اور پاک بھارت تعلقات (عوامی سطح پر) کے حوالے سے بہت معلومات افزا گفتگو ہوئی۔ پھر اسی کے تسلسل میں لاہور پریس کلب کے وفد نے چندی گڑھ پریس کلب کی میزبانی کا لطف اٹھایا۔ اس وفد میں ہم بھی شامل تھے، نوین گریوال سے تعلقات کافی بہتر ہوئے، نوین کی تجویز پر چندی گڑھ پریس کلب کی طرف سے مہمانوں کو اعزازی رکنیت دی گئی اور جواب میں لاہور پریس کلب کی اعزازی رکنیت سے نوین اور ان کے دوسرے سرگرم ساتھیوں کو نوازا گیا، یہ تعلقات پیشہ ور صحافیوں کے درمیان تھے اور زیادہ گفتگو بھی پیشہ ورانہ امور پر ہی ہوتی رہی اور اب بھی صحافی اکٹھے ہوں تو زیادہ گفتگو اسی موضوع پر ہوتی ہے۔
نوین گریوال کی تجویز پر میڈیا کانفرنس میں ایک قرارداد بھی منظور کی گئی، جس میں پاکستان اور بھارت کی حکومتوں سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے صحافیوں کو اپنے اپنے ملک میں کام کرنے کی اجازت دیں، نوین کے مطابق اس وقت دونوں حکومتوں نے سرکاری خبر رساں ادارے کے ایک ایک نمائندے کو اجازت دی ہوئی ہے۔ بھارت کی نیوز ایجنسی پریس ٹرسٹ آف انڈیا اور پاکستان کی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان کا ایک ایک نمائندہ اسلام آباد اور دہلی میں متعین ہے۔نوین نے یہ بھی بتایا کہ اخبار’’ٹربیون‘‘ کی طرف سے بہت کوشش کی گئی کہ اخبار کے ایک نمائندے کو اسلام آباد میں رہ کر پیشہ ورانہ فرائض ادا کرنے کی اجازت دی جائے، لیکن نہ دی گئی کہ یہ پالیسی کا مسئلہ ہے اور دونوں ملکوں کو باہمی طور پر فیصلہ کرنا ہوگا۔
نوین۔ ایس۔ گریوال کا موقف آج بھی یہی ہے کہ اگر پیشہ ور(ورکنگ جرنلسٹس) صحافیوں کو ایسی اجازت دی جائے تو دونوں ملکوں کے درمیان صحافتی سطح پر پیدا ہونے والی غلط فہمیاں تو فوراً دور ہو سکتی ہیں اور متعلقہ متنازعہ امور کے بارے میں حکومتوں کا موقف بھی فوراً لیا جا سکتا ہے، اس سے بہت سے معاملات تو اسی سطح پر حل ہو سکتے ہیں۔
ہمیں بھی یہ تجویز اچھی لگی تھی، ہم نے صرف یہ عرض کیا تھا کہ جوپیمانہ بھی ہو وہ دونوں ممالک کے لئے ہوناچاہیے اور اس کے لئے مستند اداروں کے نمائندوں کو اجازت ملنا چاہیے اس سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری آئے گی اور یہ جو آج کل یک طرفہ ٹریفک چلی ہوئی ہے اس میں بہت کمی آ جائے گی۔
آج یہ موضوع اس لئے چھیڑا کہ دو روز قبل بھارت کے ایک سابق سفارت کار ویدک پرتاپ کا ایک کالم مقامی معاصر میں پڑھا۔ ان صاحب سے لاہور میں ہماری بھی ملاقات ہو چکی ہوئی ہے کہ ایک بار یہ لاہور آئے تو میاں محمد عامر نے ان کے اعزاز میں عشائیہ دیا اس میں مقامی صحافیوں کو بھی مدعو کیا گیا اور ہم بھی شامل تھے چنانچہ ان صاحب سے بات چیت کا موقع ملا تو یہ خاصے لبرل نظر آئے تاہم تازہ ترین کالم انہوں نے مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے لکھا اور اس میں مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے احتجاج پر تبصرہ کیا گیا۔ مضمون میں کشمیریوں کو مشورہ دیا گیا کہ وہ بھارت میں رہتے ہوئے اپنے لئے کوئی مفید حل سامنے لائیں۔ ان کے مطابق بھارت فوج نہیں نکالے گا اور نہ ہی قبضہ چھوڑے گا ان کے مطابق اب مقبوضہ کشمیر میں اس قسم کے احتجاج کا سلسلہ بھی اپنی اہمیت کھو چکا ہے۔ ہم نے مضمون نگار کا پورا کالم غور سے پڑھا اور اس سارے کا مفہوم یہی بنتا ہے اسی لئے آج یہ موضوع چنا ہے۔
اب اگر غور کریں تو پاکستان اور بھارت کے میڈیا ہاؤس والوں نے دونوں ممالک میں سٹنگر رکھے ہیں یاپھر کسی کالم لکھنے والے سے بات کی ہوئی ہے بلکہ ان کے بھارت میں چھپنے والے کالم ہی یہاں بھی چھپ جاتے ہیں ان کی تعداد بھی تھوڑی ہے تاہم عام صحافی اس سے محروم ہیں البتہ بھارت نے پاکستان کے حمائتیوں میں سے کسی ایک کو اور پاکستان نے بھارت میں کسی نہ کسی کو اپنا نمائندہ نامزد کیا ہے۔ اس سے مسئلہ حل نہیں ہوتا کہ بھارت کا میڈیا حجم میں بڑا ہے اور وہاں نفرت پھیلانے کا کام بڑے دھڑلے سے کیا جاتا ہے اگر صحافیوں کا باقاعدہ قواعدو ضوابط کے مطابق کوئی ادارہ نہیں ہے تو سرمایہ داروں کے اخبارات مستفید ہونے کو تیار ہیں۔
ہماری گزارش یہ ہے کہ تنازعات حل کرانے ہیں تو دونوں ملکوں کو حوصلہ کرکے مستند اداروں کے مستند صحافیوں کو ایک محدود یا معقول تعداد میں ایک دوسرے کے ملک میں تعیناتی کی اجازت دینا چاہیے کہ ایک پروفیشنل صحافی محب وطن تو یقیناًہوتا ہے تاہم وہ انصاف پرور بھی تو ہوتا ہے کہ جرنلزم کے بہرحال اپنے اصول اور ضابطہ اخلاق بھی ہے۔ ہمیں یہ بھی یاد ہے کہ چندی گڑھ پریس کلب میں ہونے والی کانفرنس میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ آج کے دور میں صحافتی آزادی پروفیشنل صحافیوں کے لئے نہیں میڈیا ہاؤس کے مالکان کے لئے ہے اور وہی پالیسی چلاتے ہیں، اس پر کہا گیا کہ صحافی جو کام کرتے ہیں وہ نفرت پر مبنی خبروں سے ممکن حد تک گریز کریں اور جہاں میڈیا ہاؤس والے ایسی مہم چلواتے ہیں وہاں صحافی مثبت خبریں بھی دے دیا کریں۔
ویدک پرتاب کے مضمون کو پڑھنے سے بھارتی سرکار، بیورو کریسی اور سابق سفارت کاروں کے ذہن کی عکاسی ہوتی ہے اور ہم بھی جان جاتے ہیں کہ بھارت میں کس طرح سوچا جا رہاہے اگر صحافیوں کو کام کرنے کی اجازت ہو تو ایسابہت کچھ کیا جا سکتا ہے۔ گزشتہ کچھ عرصہ سے پریس کلب کے درمیان وفود کا تبادلہ نہیں ہوا، ہم یہاں پریس کلب والوں سے بات کریں گے کہ کس کی باری التواء میں ہے اور درخواست کریں گے کہ اب تو وفد بھیج یا بلا لیں کہ غلط فہمیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔