کیا عمران خان نے اب اپنی نگاہیں 2018ء کے الیکشن پر مرکوز کر دیں ؟
تجزیہ : قدرت اللہ چودھری
لگتا ہے عمران خان اب قبل از وقت انتخابات کے امکان سے مایوس ہوتے جا رہے ہیں۔ انہوں نے جب اگست 2014ء میں اسلام آباد میں دھرنا دیا تھا تو بار بار اعلان کیا تھا کہ 2015ء انتخابات کا سال ہے، دھرنا اٹھانے کے بعد بھی ان کی جانب سے ایسے اعلانات آتے رہے، 2015ء کے پورے سال میں جو ضمنی انتخابات ہوئے ان میں پارٹی امیدواروں کی کارکردگی قابل ذکر نہیں تھی، ان کا خیال تھا کہ وہ لاہور میں ایاز صادق کی نشست پر کامیابی حاصل کرلیں گے، مقابلے میں انہوں نے عبدالعلیم خان کو اتارا تھا، جو ان کے خیال میں اس حلقے کیلئے بہترین امیدوار تھے۔ سچی بات ہے عبدالعلیم خان نے مقابلہ بھی خوب کیا، لیکن نشست نہ جیتی جاسکی۔ کوئی اور ہوتا تو اس کی سانس پھول جاتی۔ 2015ء کا سال انتخابات کے بغیر گزر گیا تو عمران خان نے کہنا شروع کردیا کہ 2016ء میں الیکشن ضرور ہوں گے۔ پاکستان میں تو ایسا نہ ہوسکا البتہ آزاد کشمیر کے انتخابات شیڈول کے مطابق ضرور ہوگئے جس میں تحریک انصاف نے آزاد کشمیر کے سابق وزیراعظم بیرسٹر سلطان محمود کی قیادت میں حصہ لیا۔ بیرسٹر گزشتہ ربع صدی سے ہر الیکشن میں کامیابی حاصل کرتے رہے تھے لیکن اب کی بار قسمت نے یاوری نہ کی، پارٹیاں تو وہ بدلتے رہتے ہیں لیکن تحریک انصاف میں شمولیت انہیھ راس نہیں آئی۔ نہ صرف ان کی جماعت ہار گئی بلکہ وہ خود اپنی نشست بھی نہ جیت سکے۔ اسے آزاد کشمیر کی شکست کا دباؤ ہی کہنا چاہئے کہ پارٹی کنونشن میں انہوں نے جو تقریر کی اس میں جھنجلاہٹ نمایاں تھی۔
عمران خان کی تقریر سے لگتا ہے کہ انہیں اپنی تحریک کی کامیابی کا بھی زیادہ یقین نہیں۔ انہوں نے کہا ’’حکومت مخالف تحریک میں آر یا پار ہو جائے گا ہم ’’آر‘‘ ہی رہے تو انتخابات 2018ء ہی میں ہوں گے۔ وہ اپنی پارٹی میں جمہوریت کا بڑا چرچا کرتے تھے، لیکن جو الزامات عام انتخابات میں امیدواروں پر لگا کرتے ہیں یعنی ووٹ خریدنے کا الزام وہ پارٹی عہدوں کیلئے انتخاب لڑنے والوں پر لگ گیا چنانچہ جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمد کی سرکردگی میں جو کمیشن ان الزامات کی تحقیقات کیلئے بنایا گیا، وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ انتخابات میں ووٹ خریدے گئے تھے اور اعلیٰ عہدیداروں نے الیکشن جیتنے کیلئے بے قاعدگیاں کی تھیں۔ کمیشن نے جن لوگوں کو پارٹی سے نکالنے کی سفارش کی تھی انہیں پارٹی سے نکالنے کا رسک نہیں لیا جاسکتا تھا کیونکہ یہی تو وہ حضرات ہیں جن کے مالی تعاون سے پارٹی چلتی ہے۔ اگر انہیں نکال دیا گیا تو پھر پارٹی کے اخراجات کیسے پورے ہوں گے؟ عمران خان نے اپنے خطاب میں اب یہ واضح کردیا ہے کہ پارٹی میں کوئی الیکشن نہیں ہوگا، پہلے الیکشن اس لئے ملتوی کیا گیا تھا کہ پارٹی حکومت مخالف سرگرمیوں میں مصروف تھی، اب غالباً یہ محسوس کیا گیا ہے کہ اگر پارٹی انتخابات ہوئے تو پہلے والی شکایات سامنے آنے کا امکان ہے، چنانچہ انہوں نے یہ جھگڑا ہی ختم کردیا ہے اور باقی جماعتوں کی طرح نامزدگیوں سے کام چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے سوچا ہوگا کہ جب دوسری جماعتیں اپنے تمام عہدیدار نامزد کرتی ہیں تو انہیں پارٹی انتخابات کا جھنجٹ پالنے کی کیا ضرورت ہے۔ البتہ انہوں نے اختلاف رائے رکھنے والوں کو خبردار کردیا ہے کہ وہ ان کا فیصلہ بلا چون و چرا مان لیں یا پارٹی کو خیرباد کہہ دیں اور اگر ہمت ہے تو پارٹی کے اندر فارورڈ بلاک بنالیں۔
عمران خان نے چند روز پہلے کہا تھا کہ نوازشریف تیسری مرتبہ وزیراعظم تو بن گئے لیکن لیڈر نہیں بن سکے۔ اب اگر کوئی ان سے کہے کہ آپ نے اپنی پارٹی کے ساتھیوں کے بارے میں جن جذبات کا اظہار کیا ہے کیا وہ ایک لیڈر کے شایان ہیں تو وہ ناراض ہو جائیں گے۔ اس لئے ہم ان کے اس طرزعمل پر تو کوئی تبصرہ نہیں کرسکتے البتہ اتنا معلوم ہے کہ پارٹی کے ساتھیوں کے ساتھ اس طرح کا رویہ نہیں رکھا جاتا کیونکہ وہ کوئی تنخواہ دار ملازم نہیں ہوتے۔ عمران خان نے پارٹی الیکشن کیوں ملتوی کردیئے جب ہم نے یہ سوال ایک لیڈر کے سامنے رکھا تو ان کا جواب تھا کہ ان رہنماؤں کی شکست بالکل سامنے نظر آ رہی تھی جو عمران خان کے قریب ہیں اور جنہیں ان کے مخالفین اے ٹی ایم مشینوں کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ ان رہنماؤں کی شکست کے بعد پارٹی کے اندرکوئی نیا پنڈورا بکس کھلتا، انہوں نے انتخابات ہی غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردیئے تاکہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔
صوبہ خیبر پختونخوا میں پارٹی کے جن ایم این ایز اور ایم پی ایز نے وزیراعلیٰ پرویز خٹک کے خلاف علم بغاوت بلند کر رکھا ہے، عمران خان نے انہیں چند دن کی مہلت تو دی ہے کہ وہ اپنا رویہ درست کرلیں اور پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی نہ کریں، لیکن یہ گروپ وزیراعلیٰ کے خلاف زیادہ سرگرمی سے کام کرتا نظر آتا ہے۔ اس گروپ نے اعلان کیا ہے کہ پرویز خٹک کی کرپشن کے خلاف عوامی رابطہ مہم چلائیں گے۔ ناراض ارکان کا کہنا ہے کہ صوبے کی حکومت پارٹی منشور کو نظرانداز کر رہی ہے جبکہ ہم منشور پر عملدرآمد چاہتے ہیں۔
ایسے میں محسوس ہوتا ہے کہ عمران خان کو اگلے الیکشن کے حوالے سے معروضی حقائق کا ادراک ہوگیا ہے ویسے بھی آزاد کشمیر میں الیکشن ہارنے کے بعد اگلے چند ماہ تک انہیں کسی انتخاب کا تصور تک نہیں کرنا چاہئے۔ اب اگر پاکستان میں کسی دوسری جگہ ضمنی الیکشن بھی ہوں گے تو ان کا نتیجہ بھی آزاد کشمیر کے انتخابات سے مختلف نہیں نکلے گا۔ ان حالات میں بہتر حکمت عملی تو یہی ہے کہ پارٹی کو 2018ء کے انتخابات کیلئے تیار کیا جائے۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ 30 لاکھ افراد ان کی جماعت کے رکن بن چکے ہیں، ارکان کی اتنی زیادہ تعداد کسی دوسری جماعت کے پاس نہیں ہے۔ ان ارکان کا عشر عشیر بھی اگر سائنسی انداز میں اگلے الیکشن کی تیاری کرے تو کوئی عمران خان کی کامیابی کو روک نہیں سکتا، اس لئے بہتر یہ ہے کہ وہ اپنی توجہ اور توانائیاں اگلے انتخابات پر مرکوز کریں۔ دھرنوں وغیرہ کی سیاست کافی ہوچکی، اب سنجیدگی سے سیاست کرنے کی ضرورت ہے جس کا انہیں انتخابات میں فائدہ ہی ہوگا۔