سی ایس پی افسروں کی من مانیاں، حکام سی جی اے آرڈیننس کے مکمل نفاذ میں ناکام
ملتان(ملک اعظم سے)سی جی اے آرڈیننس کا مکمل نفاذ نہ ہونے کیوجہ سے آڈٹ پر سوالیہ نشان لگ گیا ۔ سی جی اے آرڈیننس کی خلاف ورزی پر چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی سید خورشید شاہ نے آڈیٹر جنرل پاکستان اور سیکرٹری فنانس ڈویژن کو25جولائی کو طلب کرلیا۔بتایا جاتا ہے1990ء کی دہائی میں عالمی مالیاتی ادارے نے آڈیٹر جنرل پاکستان کے آفس میں اصلاحات کیلئے فنڈز جاری کئے ان فنڈز کا بنیادی مقصد آڈیٹر جنرل آفس کے شعبہ اکاؤنٹس اور شعبہ آڈٹ کو علیحدہ علیحدہ کرنا تھا۔وفاقی حکومت نے اربوں روپے مالیت کے فنڈز حاصل کرنے کے بعد1992-93ء میں آڈیٹر جنرل آفس میں شعبہ اکاؤنٹس او(بقیہ نمبر15صفحہ12پر )
ر شعبہ آڈٹ کو علیحدہ علیحدہ کردیا اور فیصلہ کیا دونوں شعبہ جات کے آفیسران کو ایک ہی شعبہ میں ٹرانسفر پوسٹنگ کیا جائے گا۔شعبہ آڈٹ کا افسران شعبہ فنانس میں نہیں جاسکے گا اور فنانس ڈیپارٹمنٹ کے آفسران شعبہ آڈٹ میں ٹرانسفر نہیں ہوسکیں گے اس فیصلہ کا بنیادی مقصد آڈٹ کے عمل کو صاف و شفاف بنانا تھا وفاقی حکومت نے اس فیصلہ کا اعلان تو کردیا عملی طور پر اس فیصلہ کا اطلاق صرف ڈیپارٹمنٹل کیڈر کے آفسران تک محدود رہا کیونکہ آڈیٹر جنرل آفس کے طاقتور سی ایس آفیسران نے اپنی طاقت سے اس فیصلہ کا اپنے اوپر اطلاق نہ ہونے دیا جس پر عالمی مالیاتی ادارے نے سخت نوٹس لیا تو جنرل مشرف کے دور میں آڈیٹر جنرل آفس اصلاحات کیلئے سی جی اے آرڈیننس لایا گیا لیکن16سال سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود صورتحال جوں کی توں ہے سی ایس پی آفیسران کی طاقت کے سامنے اس آرڈیننس کی حیثیت ردی کے ٹوکری جیسی ہوکر رہ گئی۔معلوم ہوا ہے ایس پی آفیسران شعبہ فنانس میں ڈسٹرکٹ اکاؤنٹس آفیسر،ڈپٹی ڈائریکٹر فنانس،ڈائریکٹر فنانس،اکاؤٹنٹ جنرل جیسی پوسٹوں کو انجوائے کرتے ہیں اس دوران اربوں روپے مالیت کے جائز و ناجائز معاملات انہی کے ہاتھوں انجام پاتے ہیں بعدازاں یہ آفیسران شعبہ آڈٹ میں ٹرانسفر کروالیتے ہیں یہاں رہ کر یہ آفیسران آڈٹ کے دوران سامنے آنے والی اپنی ہی بے ضابطگیوں کی پردہ پوشی کرتے ہیں۔یوں آڈٹ رپورٹس مذاق بن کر رہ جاتی ہیں گزشتہ16سال سے سی جی اے آرڈیننس کا مکمل اطلاق نہ ہونے کیوجہ سے آڈیٹر جنرل آفس میں بھی غیر یقینی سی صورتحال پائی جاتی ہے۔