نوشہرہ پیسکو کنسٹرکشن ڈویژن اقرباء پروری عروج پر
نوشہرہ(بیورورپورٹ) پیسکو کنسٹرکشن ڈویژن REDپشاور کی ٹینڈر کمیٹی نے عدالت میں جاری کیس اور کنٹریکٹرز کی عدم موجودگی کے باوجود ٹینڈرز اوپن کرکے ایک بار پھر اقراباپروری میں سبقت لے گئی اپنے منظور نظر ٹھیکداروں کو نوازنے کا سلسلہ عروج پر فی ٹینڈر فارم 1000روپے فیس کی بجائے 1500روپے غیر قانونی فیس کی وصولی بدستور جاری ایکسین RED، اکاونٹنٹ ، ہیڈ کلرک اور ممبران ٹینڈر کمیٹی پیسکو کنسٹرکشن کے بے تاج بادشاہ بن گئے مختلف طریقوں سے مذکورہ بالا افسران اپنی ذاتی تجوریوں کو بھرنے کی خاطر ٹھیکدار اور قومی خزانے کو لاکھوں روپے نقصان پہنچانے کے ذمہ دار اس سلسلے میں گورنمنٹ کنٹریکٹر فاروق شاہ کے مختیار خاص جو ہر علی اور کریم انٹرپرائزز نے بتایا کہ پیسکو کنسٹرکشن ڈویژن آر ای ڈی پشاور کی ٹینڈر کمیٹی، ایکسین آر ای ڈی اور دیگر کی نیت کا جب پتہ چلا کہ پانچ جون کو ٹینڈر فور کا وپن ہونا ہے اور اسی ٹینڈرز میں ٹینڈر کمیٹی، ایکسین ، ہیڈ کلرک اپنے منظور نظر ٹھیکیداروں کو نوازیں گے کیونکہ ہمیں ٹینڈر فارم نہیں دئیے جارہے تھے جس پر ہم نے پشاور میں سینئیر سول جج شاندانہ خان صاحبہ کی عدالت میں کیس دائر کردیا جس پر فاضل جج صاحبہ نے پیسکو کنسٹرکشن ڈویژن آر ای ڈی کے نام ثمن جاری کردیا او ر عدالتی ثمن پیسکو کنسٹرکشن ڈویژن آر ای ڈی پشاور کوساڑھے 10بجے موصول ہوا لیکن ہمارے دائر کردہ کیس اور فاضل جج صاحبہ کی جاری شدہ ثمن کے باوجودٹینڈر کمیٹی نے اور اکثریتی ٹھیکیداروں کی عدم موجودگی میں پانچ جو ن کو گیارہ بجے ٹینڈر اوپن کردئیے گئے جو کہ ٹھیکیداروں کے ساتھ سراسر ظلم وناانصافی ہے اور ملی بھگت سے اپنے منظور نظر ٹھیکیداروں کو نوازہ گیا انہوں نے مزید کہا کہ 90سے 120تک ٹینڈر فارم جمع کرائے گئے تھے لیکن ٹینڈر کمیٹی ممبران نے کم فارم فارم ظاہر کرکے سرکاری خزانے کو بھی نقصان دے دیا اور فی فارم 500روپے اپنی جیبوں میں ڈال دئیے ہیں انہوں نے وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف ، وزیر مملکت عابد شیر علی ، نیب ،ایف آئی اے ، اور انٹی کرپشن سمیت دیگر اعلیٰ حکام سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ پیسکو کنسٹرکشن ڈویژن REDکی ٹینڈر کمیٹی ممبران اور ایکسین REDکے کرپشن اور قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کے خلاف تحققات کرکے ٹھیکداروں کی داد رسی کریں کیونکہ ایکسین اور ٹینڈر کمیٹی نے اپنی کمیشن کی خاطرلوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا ہے اور جو کام ٹھیکدار 22لاکھ پر کرتا ہے وہی کام دفتر والے 34لاکھ پر کرتے ہیں جو کہ کرہشن کی واضع مثال ہے ۔