قطر سے لڑائی میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا اپنا ہی بڑا نقصان ہوگیا، وہ کام ہوگیا جس کا دونوں ممالک نے سوچا بھی نہ ہوگا

قطر سے لڑائی میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا اپنا ہی بڑا نقصان ہوگیا، ...
قطر سے لڑائی میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا اپنا ہی بڑا نقصان ہوگیا، وہ کام ہوگیا جس کا دونوں ممالک نے سوچا بھی نہ ہوگا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

دوحہ(مانیٹرنگ ڈیسک) سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے قطر پر سخت ترین پابندیاں عائد کرتے ہوئے اس کی جانب سے مکمل طور پر ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کیا تھا لیکن نہ صرف انہیں اس مقصد میں کامیابی نہیں ہوئی بلکہ الٹا بھاری قیمت بھی ادا کرنا پڑگئی ہے۔
جریدے فوربز کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو اپنی کامیابی کا مکمل یقین تھا کیونکہ وہ سمجھ رہے تھے کہ امریکہ ان کے پیچھے ہے لیکن ان کی توقعات کے بالکل برعکس امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلر سن اور امریکی وزیر دفاع جم میٹس نے قطر کی حمایت کا اشارہ دے کر وہ کام کردیا جس کی سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات بالکل توقع نہیں کررہے تھے۔ ریکس ٹیلر سن نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ قطر سے کئے جانے والے مطالبات گفت و شنید کے قابل بھی نہ تھے اور انہوں نے قطر کے موقف کو ”بہت مناسب“ قرار دے دیا۔

قطر،چار عرب ممالک کے بائیکاٹ کوختم کرنے کے لئے تیار ،خود مختاری پر کوئی بھی سمجھوتہ نہیں ہو گا: امیر شیخ تمیم بن حماد ال ثانی
دوسری جانب سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پر یہ تنقید بھی شروع ہوگئی کہ دہشتگردی کی حمایت کے حوالے سے وہ قطر سے بھی زیادہ قصور وار ہیں۔ یہ تنقید کرنے والوں میں امریکی سینیٹ کی کمیٹی برائے خارجہ تعلقات کے چیئرمین باب کورکر پیش پیش تھے جن کا کہنا تھا ”سعودی عرب دہشتگردی کی جتنی حمایت کرتا ہے اس کے سامنے قطر جو کچھ کررہا ہے وہ نہ ہونے کے برابر ہے۔“

قطر نے اس صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دہشتگردوں کی فنڈنگ بند کرنے کے ایک معاہدے پر بھی امریکہ کے ساتھ مل کر دستخط کردئیے۔ یہ وہ معاہدہ ہے جس پر قطر کو تنقید کا نشانہ بنانے والے ممالک میں سے کسی نے بھی دستخط نہیں کئے۔
قطری نیوز چینل الجزیرہ پر پابندی کے مطالبے کو بھی دنیا بھر میں تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے یہ انکشاف کرکے سعودی عرب اور قطر کو مزید مشکل میں ڈال دیا کہ دو ماہ قبل متحدہ عرب امارات نے قطر کی سرکاری ایجنسی کی ویب سائٹ ہیک کرکے اس پر قطری امیر کا وہ مبینہ بیان چلایا تھا جس کی وجہ سے یہ سارا تنازعہ شروع ہوا۔
امریکی حمایت دستیاب نہ ہونے کی صورت میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے قطر پر دباﺅ جاری رکھنا مشکل ہوگیا ہے جبکہ اپنے بڑے بڑے دعوﺅں اور سخت مطالبات سے واپسی بھی مشکل نظر آرہی ہے۔ اس تنازعے کی وجہ سے خلیج تعاون کونسل کو بھی بھاری نقصان پہنچا ہے، جبکہ ایران کی تنہائی میں کمی آئی ہے، ترکی خلیجی معاملات میں کود پڑا ہے اور قطری قوم اپنی حکومت کی حمایت میں جمع ہوگئی ہے۔

متحدہ عرب امارات کا قطر پر ’حملہ‘، یہ سرحد پر نہیں کیا گیا بلکہ اس سے بھی زیادہ حساس چیز کو نشانہ بنا دیا گیا
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کے قطر کے ساتھ تنازعے سے کچھ انتہائی اہم سبق سیکھنے کو ملے ہیں۔ جیسا کہ، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سعودی عرب کیلئے ظاہری حمایت کی کوئی حیثیت نہیں ہے کیونکہ امریکہ کی حقیقی پالیسی سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے خلاف گئی ہے۔
امریکہ سے اربوں ڈالر کے ہتھیار خریدنے کے باوجود سعودی عرب علاقائی رہنما کی بجائے ایک ایسے ملک کے طور پر سامنے آیا ہے جو دراصل اتنا طاقتور نہیں ہے جتنا وہ خود کو سمجھ رہا ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ سعودی عرب کی جانب سے مغربی ممالک میں کی گئی انتہائی مہنگی سفارتکاری کسی کام نہیں آئی ہے کیونکہ وقت پڑنے پر اسے کسی کی مددنہیں ملی۔
شاید سب سے اہم بات یہ ہے کہ قطر کے خلاف انتہائی سخت اقدامات کے نتیجے میں دنیا کی توجہ سعودی عرب کے اندرونی معاملات کی جانب ہوگئی، جس کے نتیجے میں مملکت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور بیرون ممالک شدت پسندی پھیلانے میں سعودی عرب کے کردار جیسی باتیں عالمی میڈیا کا موضوع بن گئی ہیں۔

مزید :

عرب دنیا -