کون سی حقیقی جمہوریت!
آدمی بہت پڑھا لکھا ہو اور اس کی عمر بھی ستر سال کے لگ بھگ ہو جائے تو اس کی باتیں اور اس کی تحریریں خوبصورت گل کھلانا شروع کر دیتی ہیں۔ ایک تو اس کی عمر کا احترام ، دوسرا اس کی علمیت کا معیار اس شخص کے ارشادات کے بارے کسی کو بھی کچھ کہنے سے نہ صرف روکتا ہے، بلکہ ان کو من و عن تسلیم کرنے پر مجبور کرتا ہے۔
میرے ایک بہت محترم اور پیارے دوست واقعی بہت پڑھے لکھے ہیں۔ درس و تدریس سے منسلک رہے۔ جب تک ریٹائر نہیں ہوئے تھے، ان کی علمیت کی دھاک تھی۔ میرے جیسے تو آج بھی اسی دھاک کے اسیر ہیں۔ سوئے اتفاق ان کی عمر بھی ستر کے لگ بھگ ہے۔الیکشن سر پر ہیں اور وہ بڑی دور کی کوڑی لائے ہیں۔
میں بڑی معذرت کے ساتھ ان کے ارشادات کا جائزہ لینے کی جرات کر رہا ہوں، امید ہے کہ میری اس گستاخی کو وہ معاف کر دیں گے۔میرے محترم دوست کا کہنا ہے کہ موجودہ عبوری حکومت کی نگرانی میں انتخاب انتشار، بدنظمی، افراتفری اور ابتری کو جنم دے گا، کیونکہ الیکشن کے نئے قواعد اسٹیبلشمنٹ کی مخالف کچھ جماعتوں کی الیکشن مہم اور رابطہ عوام کے عمل کو نقصان پہنچانے کی ایک کاوش ہے، جس طرح 1950ء سے لے کر آج تک سارے وزرائے اعظم کو کسی نہ کسی بہانے گھر بھیجا گیا ، اسی طرح اقامے پر ایک وزیر اعظم بھی گھر بھیج دیا گیا، صرف اس وجہ سے کہ اسٹیبلشمنٹ ایک توجنرل پرویزمشرفٖ کے خلاف حکومتی اقدامات سے نالاں تھی اور ا س کا مقصود جنرل پرویز مشرف کو بچانا تھا اور دوسرا ان کو وزیر اعظم کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف مسلمانوں کی مشترکہ فوج کی تشکیل کی مخالفت بھی منظور نہیں تھی۔اسی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ آج بھی ان کی جماعت سے ناراض ہے اور الیکشن مہم میں ان کے لئے رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں۔
ایسے وقت میں ہمارے ملک کے اہل علم پر لازم ہے کہ ملک کے مستقبل کو محفوظ کرنے کے لئے آگے بڑھیں اور اس ملک کو اس مشکل سے نکالیں اور اسے مستقل قریب میں ہونے والی بربادی سے بچائیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اہل فکر کو آگے بڑھ کر ملک کے مستقبل کو محفوظ کرنے کا کچھ سامان کریں۔بہتر ہے کہ صدر مملکت قوم کے بہتر مفاد میں ایمر جنسی کا نفاد کرتے ہوئے غیر معمولی حالات کے مطابق موجودہ عبوری سیٹ اپ میں موجود تمام افراد کو گھر بھیج دیں، اس کے بعد سیاستدانوں، اسٹیبلشمنٹ کے تمام شرکا، وکلا، صحافیوں اور دیگر متعلقہ افراد پر مشتمل ایک کانفرنس منعقد کی جائے جو نئے ولولوں اور نئے جذبوں کے ساتھ اس ملک میں جمہوریت کو پٹڑی پر چڑھانے کے لئے ایک نیا ایکشن پلان مرتب کرے۔گو وقت نہیں رہا، لیکن اگر اس کے باوجود فوری اقدامات سے صورت حال بہتر ہو سکتی ہے‘‘۔
انہوں نے اپنے واقف کچھ لوگوں کے نام بھی نئے قومی اور صوبائی سیٹ اپ کے لئے تجویز کئے ہیں۔ ایک اچھی بات انہوں نے کی کہ نئے سیٹ اپ کے لئے اپنا نام تجویز نہیں کیا،حالانکہ ان کے خیال میں ان جیسے سیاسی زیرک اور اہل لوگ اب اس سرزمین پر ناپید ہیں۔ ویسے الیکشن کی آمد سے چند روز پہلے ایسی تجاویز’’ اندھے کو اندھیرے میں بہت دور کی سوجھی ‘‘کے مصداق ہیں۔ در حقیقت اسٹبلشمنٹ کوئی باقاعدہ چیز نہیں ہوتی، یہ دراصل کچھ بااثر افراد کے مجموعے کا نام ہے ۔
یہ لوگ ڈاکٹر، انجینئر، بیوروکریٹ یا فوجی کچھ بھی ہو سکتے ہیں۔یہ حکومت پر اپنی اپنی ذاتی حیثیت میں اثر انداز ہوتے ہیں اور پوری دیانتداری سے اپنی سوچ اور فہم کے مطابق ملک کے بارے میں بہترین فیصلے کرتے ہیں اور حکومت کے فیصلوں پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ان فیصلوں سے آپ اختلاف تو کر سکتے ہیں، مگر ان مخلص لوگوں کی نیت پر شک نہیں کر سکتے۔
میرا اسٹیبلشمنٹ کے مخالفوں سے ایک سوال ہے کہ مجھے کوئی ایسا وزیر اعظم بتا دیں، جس نے اداروں کو بہتر کیا ہو، جس نے ذاتی اقتدار کی بجائے اپنی پارٹی کے امیج کو بہتر کرنے کی کوشش کی ہو، جمہوریت کی سمجھ بوجھ رکھنے والوں کو اپنی پارٹی میں جگہ دی ہو؟میں تو الیکشن لڑنے والوں کی اہلیت دیکھ دیکھ سوگوار ہوں کہ یہ سیاسی پارٹیوں کا انتخاب ہے، یہ کیا لوگ ہیں، جن کو شعور ہی نہیں کہ وہ سیاست جو خدمت کا دوسرا نام ہے، کیا ہوتی ہے۔
یہ فقط خانہ پری ہیں۔ان کے منتخب ہونے کے بعد جمہوریت کے نام پر ایک سول آمر بہت جلد جلوہ افروز ہو گا۔ زیادہ چانس ہے کہ وہ بھی اپنی ذات کے گرد ہی سب کچھ چاہے گا۔ جلد یا بدیر کرپشن میں بھی ہاتھ رنگے گا۔ مکافات عمل کے بعد وہ بھی انہی حالات کا شکار ہو گا اور لوگوں کوچیخ چیخ کر کہے گا کہ جمہوریت کو خطرہ ہے، اس کے باوجود جمہوریت پھر ڈی ریل ہو گی، لیکن کوئی نہیں بتا سکے گا کہ حقیقی جمہویت کہاں تھی، کون اس کا امین تھا۔کیا حقیقی جمہوریت ڈی ریل ہوئی یا کچھ فریب کار جو جمہوریت کے نام پر فریب دے رہے تھے اپنے انجام کو پہنچے؟۔۔۔ بہر حال اب 25 جولائی کی رات پتہ چل جائے گا کہ اقتدار کا ہما کس کی قسمت میں ہے۔
اقتدار کی ریس کے شرکا میں سے کسی ایک کی قسمت بدل جائے گی، اگر کچھ نہیں بدلے گا تو اس ملک کے لوگوں کی قسمت۔ افسوس کہ بہت کچھ بدلنے کے باوجودپچھلے ستر سال میں اس ملک کی تقدیر نہیں بدلی۔ ملک کی تقدیر بدلنے کے نام پر آنے والے سبھی لوگ اپنا آپ سنوار گئے،وہ جنہوں نے ٹوٹی ہوئی چپلوں کے ساتھ اقتدار کی سیڑھیوں پر قدم رکھے تھے، آج لینڈ کروزر وں پر پھرتے، غریبوں کو کیڑے مکوڑے جان کر پاس سے گزر جاتے ہیں۔
یہی آئندہ بھی ہو گا۔ الیکشن مہم کے دوران وقتی طور پران کے لفظوں میں عاجزی اور انکساری کا عنصر ہوتا ہے، مگر تکبر، جو رب العزت کا سب سے ناپسندیدہ فعل ہے ، کی دولت سے ہر امیدوار خوب مالامال ہے۔ان کی تقریروں سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ہمارے خادم ہیں، ہمارے بیٹے ہیں، وہ انسانوں کی خدمت پر مامور ہیں، لیکن یہ سب کچھ اور سب باتیں ا لیکشن کے دن تک ہیں، اس کے بعد تو کون اور میں کون؟