عمران کے سارے نعرے ٹُھس ہوگئے
خیبر پختونخوا کے سابق ہوم سیکرٹری اور آئی جی پولیس سید اختر علی شاہ نے معروف دانشور وجاہت مسعود کے ویب نیوز پیپر ’ہم سب‘ کے لئے 22جولائی کو ایک مضمون تحریر کیا ہے جس میں انہوں نے ثابت کیا ہے کہ عمران خان کی جانب سے خیبرپختونخوا میں پولیس فورس کو مثالی فورس بنانے کا دعویٰ بودا ہے اور عمران خان نے دراصل پکی پکائی کھیر پر انگلیاں چاٹنے والا کام کیا ہے ۔
ان کے مضمون کا لب لباب یہ ہے چونکہ خیبر پختونخوا دہشت گردی کی آماجگاہ بنا ہوا تھا اس لئے امریکہ اور پاک فوج نے مل کر وہاں کی پولیس کو 2008سے 2013کے درمیان اے این پی کی حکومت کے دوران دہشت گردوں سے نمٹنے کے لئے تیار کیا ، اعلیٰ پائے کی تربیت سے کے پی پولیس میں نمایاں تبدیلیاں آئیں جس کا سہرا خواہ مخواہ عمران خان اپنے سر باندھ رہے ہیں۔ سید اختر علی شاہ لکھتے ہیں : ’’اگر ہم پچھلے 15سال کے پولیس کے ترقیاتی بجٹ کا جائزہ لیں تو دیکھ سکتے ہیں کہ 2010-11میں (جب وہاں اے این پی کی حکومت تھی) پولیس کا بجٹ اپنے عروج پر پہنچ گیا تھا۔ زیادہ بجٹ کی فراہمی سے پولیس کی نفری میں خاطر خواہ اضافہ ممکن بنایا گیا اور پولیس کی نفری جو 2006میں 32000تھی 2013 میں بڑھ کر 75000تک پہنچ گئی۔ پولیس میں مختلف تبدیلیوں اور بہتری کے اہداف حاصل کرنے کے لئے ایک خصوصی پراجیکٹ کوآڑڈینیشن یونت بنایا گیا جس نے پولیس فورس کو اپنے ترقیاتی کام خود شروع کرنے کا اختیار دے دیا۔ اے این پی کی حکومت صرف نفری بڑھانے تک محدود نہ رہی بلکہ پولیس کی استعدادی صلاحیت بڑھانے کیلئے بھی مربوط پروگرام بنایا۔
چونکہ بڑی تعداد میں نوجوانوں کو بھرتی کیا گیا تھا لہٰذا فوری طور پر ان کی ٹریننگ پولیس کے محدود وسائل میں ممکن نہ تھی اس لئے ان کو آرمی کی معاونت سے اعلیٰ معیار کی ٹریننگ دلوائی گئی ۔ ساتھ ہی نوشہرہ میں اراضی حاصل کرکے وہاں امریکی امداد کے ساتھ پولیس کا خصوصی ٹریننگ سنٹر تعمیرکردیا گیا جو اب انٹی ٹیررزم ٹریننگ کی اہم ترین تربیت گاہ ہے۔‘‘
اس کے برعکس سید اختر شاہ کے مطابق پی ٹی آئی کی حکومت نے ’’اہم ترقیاتی منصوبوں جیسے فارنزک لیبارٹری اور سیف سٹی پراجیکٹ کو پس پشت ڈال کر نمائشی قسم کی سرگرمیوں میں زیادہ دلچسپی لی ۔ مثا ل کے طور پر ڈائریکٹوریٹ آف کاؤنٹر ٹیررزم کانام بدل کر کاؤنٹر ٹیررزم ڈیپارٹمنٹ رکھ دیا گیا۔ اسی طرح پولیس کا نیا قانون لاکر اور پولیس عہدوں کے نام بدل کر یہ تاثر دیا گیا کہ جیسے بہت بڑی تبدیلی آگئی ہے۔
مبالغہ آرائی کتنی گہری کیوں نہ ہو جب اسے سنجیدہ تجزیے سے گزارا جاتا ہے تو پانی کی بھاپ کی طرح غائب ہوجایا کرتی ہے۔‘‘
کوئی ہم سے پوچھے تو سید اختر علی شاہ کے تحریری مضمون کی وہی اہمیت ہے جو جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے تقریری بیان کی ہے۔دونوں شخصیات جن اہم عہدوں پر متمکن رہی ہیں یا ہیں ان کی سنجیدگی کا تقاضا ہے کہ ان کے بیانات کو غیر اہم سمجھ کر نظر انداز نہ کیا جائے۔
چونکہ سید اختر علی شاہ کی عوامی مقبولیت اس طرح کی نہیں ہے جس طرح کی جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی ہے اس لئے ممکن ہے کہ سید اختر علی شاہ کی آواز کی اتنی گونج نہ ہو لیکن جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے کہے کی گونج تو اتنی زیادہ ہے کہ چیف جسٹس سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار اور پاک فوج نے اس کا نوٹس لیا ہے۔
عمرا ن کی ہار پر مہر تصدیق ثبت کرنے کے لئے تو جسٹس صدیقی کا بیانیہ ہی کافی ہے ۔
انہوں نے تن تنہا عمران کی جیت کا منصوبہ الٹ دیا ہے۔ پاکستان کے دو بڑے اداروں کے کردار پر انگلی اٹھائی ہے جبکہ میڈیا پر دباؤ کی بھی ڈنکے کے چوٹ پر بات کی ہے جن کے اکثر چینل عوام کے حق رائے دہی کو سلب کرنے کے لئے سرگرم ہیں ۔
دوسری جانب عالمی میڈیا بھی پاکستان میں انتخابی میچ کے عمران خان کے حق میں فکس ہونے کا واویلا مچارہا ہے ، ادھر پنجاب کی نگران حکومت بری طرح ایکسپوز ہو چکی ہے ۔ ڈاکٹر حسن عسکری میں ذرہ برابر بھی انا ہے تو فوری طور پر مستعفی ہو جائیں وگرنہ کل عمران خان ان کے خلاف اسی طرح دشنام طرازی کریں گے جس طرح فخرو بھائی کو اپنی فرمائش پر چیف الیکشن کمشنر بنا کر ان کی درگت بنائی تھی۔
لیکن ہمیں معلوم ہے کہ ڈاکٹر عسکری مستعفی نہیں ہوں گے کیونکہ وہ عمران کو جتوانے کے لئے نہیں بلکہ نون لیگ کو ہروانے کے لئے وہاں بٹھوائے گئے ہیں۔
پی ٹی آئی کے ووٹروں کی اکثریت کا بھی یہی حال ہے ، ان میں بڑی تعداد تو ان یتیموں کی ہے جو پیپلز پارٹی اجڑنے کے بعد ہجرت کرکے پی ٹی آئی میں پناہ لئے بیٹھے ہیں ۔ انہیں عمران کی ہار تو قبول ہو سکتی ہے نوازشریف کی جیت قبول نہیں ہو سکتی ہے ، وہ عمران کو سیریس لیں نہ لیں ، نواز شریف کو ضرور سیریس لئے بیٹھے ہیں۔ ان کے نزدیک عمران کی ہار بھی انہیں قبول ہے بشرطیکہ نواز شریف ہار جائے ، وہ عمران کی حمائت میں کھڑے ہوں نہ ہوں، نواز شریف کی مخالفت میں ضرور کھڑے ہیں ۔
تبھی تو عمران خان کا ’تبدیلی ‘کا نعرہ ٹھس ہو چکا ہے ، ’دو نہیں ایک پاکستان ‘کا نعرہ ٹھس ہو چکا ہے اور ’اب صرف عمران ‘کا نعرہ بھی ٹھس ہو چکا ہے، سوال یہ ہے کہ جب ایک کے بعد ایک نعرہ ٹھس ہو چکا ہے تو لیڈر کیونکر ٹھس نہیں ہوگا؟....اس کے برعکس نوا ز شریف کا ’مجھے کیوں نکالا‘ کا نعرہ آج بھی اتنا ہی مقبول ہے جتنا ’ووٹ کو عزت دو‘ کا نعرہ ہے ۔ اسی لئے تو شہبازشریف نے بھی ’خدمت کو ووٹ دو‘ کا نعرہ تبدیل کرکے ’خدمت کو عزت دو‘ کرلیا ہے۔
عمران خان واحد سیاسی لیڈر نہیں ہیں اور پی ٹی آئی واحد سیاسی جماعت نہیں ہے جسے پری پول رگنگ کے تحت نون لیگ کے خلاف کھڑا کیا گیا ہے۔ یہ بات عوام خوب اچھی طرح سمجھتے ہیں اور وہ اس پری پول رگنگ کو اپنے ووٹ کی پرچی سے ناکام بنادیں گے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستانی عوام کی اکثریت نے آج تک عمران خان کو کام کرتے دیکھا ہے اور نہ ہی کام کی بات کرتے دیکھا ہے ۔ انہوں نے زندگی بھر کام کی بجائے نام کمایا ہے اور اب بھی تھوک سے پکوڑے تلنے کی ایکٹنگ کرکے عوام کو بے وقوف بنانا چاہتے ہیں ۔ سوال یہ نہیں ہے عمران ملک سے کرپشن ختم کردیں گے یا نہیں ، سوال یہ ہے کہ کرپشن ختم کرکے عمران ملک میں شروع کیا کریں گے؟
عمران خان کی غیر مقبولیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے شیخ رشید کو اپنے ساتھ ساتھ جلسوں میں تقریریں کروانے کیلئے لے کر جانا تھا مگر شیخ رشید ان کے ایک بھی جلسے میں نظر نہیں آئے۔
اسی طرح شیخ رشید نے اعلان کیا تھا کہ عمران خان لیاقت باغ میں ان کے ہمراہ ایک بڑے جلسے سے خطاب کریں گے مگر وہاں بھی وہ اکیلے ہی اپنی ہار کا نوحہ پڑھتے نظر آئے ہیں ، عمران خان نے بھولے سے بھی لیاقت باغ کا رخ نہیں کیا ہے ۔
یہی نہیں بلکہ عمران خان تو ان لوگوں کو بھی پکڑائی نہیں دے رہے ہیں جن کے جلسوں میں جا رہے ہیں ، کسی کو دھکا دیتے ہیں ، کسی کو کہنی سے پرے پھینکتے نظر آتے ہیں ، مجال ہے جو اگر کوئی ان کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر فضا میں بلند کرکے عوامی شور کا جواب دے سکے۔
عمران خان اپنے مخالفین کے ووٹروں کو بھی کبھی لاشیں، کبھی بھیڑ بکریاں تو کبھی گدھے کہتے پائے جاتے ہیں ، انسانیت کی تذلیل ان کا شیوہ ہے ، ان کے اپنے لوگ بھی ان کو دیکھتے تو ہیں ، پسند نہیں کرتے ۔ ان کے ووٹروں کو بھی ان سے زیادہ اسٹیبلشمنٹ پر زیادہ بھروسہ ہے ، ان کی ایک ہی توقع ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نواز شریف کو نہیں جیتنے دے گی ، انہیں عمران سے زیادہ اسٹیبلشمنٹ کے زور بازو پر ناز ہے اسی لئے یہ انتخابات انعقاد سے پہلے ہی متنازع ہو چکے ہیں ۔