انتخاب وہ جو کارکردگی کی بنیاد پر جیتا جائے
درمیانی سب ادارے گر گئے ہیں جناب ,اب ووٹ ہی آخری انصاف ہے...انتخاب اگر کارکردگی کی بنا پر ہو اور جیتا جائے تو بات بنتی ہے ہاتھ پیر باندھ کر انتخاب نہیں اسکے نام پر دھوکہ ہوتا ہے اور عوام اکثر ایسا انتخاب قبول نہیں کرتی۔
عوام کا موڈ دیکھ کر مجھے لگتا ہے بلا مقابلہ بھی کھڑا ہوا تو عوامی حمائت کے بغیر ہار جانے والا ہے ہر وہ امیدوار جس سے عوام نالاں ہیں ۔میڈیا پابندیوں کے باوجود چلا اٹھا ہے۔ آج دیر بعد 'کینگرو کورٹ" لکھنے پر اُس حامد میر سے بھی ملاقات ہوگئی جس کے لئے ہمیشہ فخر سے آواز اٹھائی اور دل سے نکلا کہ تو ایسا ہی اچھا لگتا رےایسا ہی رہا کر بہت قیمتی ہے تو اور پاکستان کی ضرورت بھی۔ بے تکلفی پر معذرت۔
ہومیوپیتھک بار کونسلز اور بار ایسوسی ایشنز اور کنٹرولڈ میڈیا کیوجہ سے قانون قید میں ہےاور آئین کی من مانی تشریح طاقت کی حکمرانی اور من مانا انصاف سکہ رائج الوقت ہے۔ کچھ کہنے کی ضرورت نہیں غیر حاضری بذات خود انکی بحیثیت وکلا نمائیندہ جماعت کے کارکردگی پر رائے
زنی اور چارج شیٹ ہے .کیا وقت تھا جب آمریت پاکستان بار اور سپریم کورٹ بار کی پٹیشنوں سے سہم سی جاتی تھی ۔ اور آجکل وہ ڈرے سہمے اور دبکے نظر آرہےحلانکہ ابھی تو جمہوریت ہے ,میڈیا ہاوسز پر پریشر پر بین الاقوامی جرائد روزانہ کی بنیاد پر لکھ رہے ہیں لیکن پریس کلب اور پریس ایسوسی ایشن کی خاموشی معنی خیز ہے۔اب ایسے لوگوں کو ہرایا نہیں جا سکتا جنہیں عوام نے کندھوں پہ اٹھا رکھا ہو لوگ آمریت کو پسند نہیں کرتے اور یہ اسکا واضح ثبوت ہے .جج وجیہ الدین احمد جیسے جج ہی بار اور بینچ کے لئے ما تھے کا جھومر ہیں جنہوں نے آمر کے سامنے پی سی او کو نا کی اور ہمیشہ قوم کی راہنمائی کی فل کورٹ کا مشورہ صائب اور جج شوکت صدیقی کی دشنام طراز ی پر عملی حل ہے اور اب تو خود جج صاحب،فوج اور سول سوسائٹی نے بھی اس پر نوٹس لینے کی استدعا کی ہے۔
اسی لاکھ تارکین وطن جو ۲۵ بلین سالانہ زر مبادلہ کی صورت میں بھیجتے ہیں پاکستان سے بے پناہ محبت کرتے ہیں ۔ انکی ایک آنکھ پیسے بنانے والی مشین کی طرح کام پر اور ایک آنکھ ملک پاکستان پر لگی رہتی ہے۔ جمہوریت گڈ گورننس اور ہر جگہ بیرون ملک لائن میں لگتا دیکھ کر انکے دل میں خواہش جنم لیتی ہے کہ کاش پاکستان میں بھی قانون سب کے لئے برابر ہو اور احتساب سب کا ہو اور انصاف ہوتا نظر آئے۔ وکلاء کی تحریک میں حاصل کامیابیوں کو جس طرح الٹایا گیا ہے اس سے معاشرے میں عدم تحفظ پھیلنے کا خطرہ ہے۔ تارکین وطن کو اگر موقعہ ملا تو وہ پاکستان کے تمام قرضے ادا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ پاکستانی سرمایہ بعد میں اڑا لیکر کوئی طالع آزما انہی سڑکوں پر وہ سرمایہ واپس نہ لے آئے۔
ووٹ کی قدرومنزلت کا احساس اور اسکی عزت مغربی معاشرے میں عیاں ہے۔ صاف اور شفاف انتخاب کے بعد جو حکومت بنائے اسے کام کرنے دینا چاہیے لیکن چھٹتی نہیں ہے ظالم منہ کو لگی ہوئی کے مترادف اداروں کو مدد کرنی چاہیے کہ پارلیمان قانون اور آئین شکنی ، احتساب ، گورننس اور ملکی مسائل کا حل یقینی بنائیں۔
پانی کی کمی ، پارلیمان کی خود مختاری ، حکومت اور اپوزیشن کا آئینی کردار احتساب اور گورننس اور دفاعی اور ملکی سلامتی کے معاملات یہ وہ مسائل ہیں جو مل بیٹھ کر ہی حل ہوں گے۔ اب وقت آگیا ہے کہ اپوزیشن شیڈو کابینہ تشکیل دے اور حکومت وقت کو ہر معاملے پر شیڈو وزیر پارلیمان اور کمیٹیوں میں جواب دہ بنا کر اپنا آئینی کردار ادا کرے اور قوم کو اعتماد میں لے۔ خالی خولی نعروں سے نہ تبدیلی آتی ہے اور نہ ہی جمہوریت۔ جمہور کی عزت کام اور مزید کام میں پنہاں ہے اور ووٹ کی عزت مزید جمہوریت میں ۔ اللہ کرے کہ ہم جمہوری پٹری پر چلتے چلتے خود احتسابی، انتظامی رول ماڈل گورننس اور احتساب کو اپنا شیوہ بنائیں گے۔ تمام ادارے بھی اپنا اپنا خود احتسابی کا نظام عمل میں رواں رکھیں تو امید ہے کی کامیابی اپنا مقدر ہوگی اور جیت پاکستان کی ہونی چاہیے، ہمیشہ۔
اے وطن کی ریت ذرا ایڑیاں رگڑنے دے
مجھے یقین ہے پانی یہاں سے نکلے گا
(بیرسٹر امجد ملک ایسوسی ایشن آف پاکستانی لائیرز برطانیہ کے چئیرمین اور سپریم کورٹ بار اور ہیومن رائیٹس کمیشن پاکستان کے تاحیات رکن ہیں)
..
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔