سیاسی جمود کا وقت گزر چکا
سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی غیر معمولی شخصیت ہیں۔اسی لئے 2018ء کے عام انتخابات میں تمام تر پیشگی انتظامات کے باوجود انہیں آبائی حلقے میں نا کا می سے دوچار کرنے کے لئے پولنگ ڈے کے بعد بھی کئی اقدامات کرنا پڑے۔مر ی کے اس حلقے میں دھاندلی کے خلاف کشیدگی اس قدر شدید ہو گئی تھی کہ ووٹرز اور سیکیورٹی فورسز آمنے سامنے آتے آتے رہ گئے۔سیکیورٹی فورسز نے دوبارہ گنتی کے لئے بیلٹ باکس اپنی تحویل میں لئے تو مقامی شہریوں نے عدم اعتماد ظاہر کرتے ہوئے تمام رات باہر پہرہ دیا۔اس کے باوجود انہونی ہو کر رہی اور شاہد خاقان عباسی کوہروادیا گیا۔شاید پھر سے تنازع کھڑا ہو جاتا، لیکن ایسا احتجاج مسلم لیگ (ن) کی منصوبہ بندی میں شامل ہی نہیں تھا۔
اس کے بعض رہنما شاید کسی کے ورغلانے پر یہ یقین کیے بیٹھے تھے کہ پنجاب انہیں مل جائے گا۔بالآخر مصلحت پر طاقت غالب آ گئی اور مسلم لیگ(ن) کو اقتدارسے باہر اپوزیشن کی جانب دھکیل دیا گیا۔شاہد خاقان عباسی بعد میں لاہور میں حمزہ شہبازشریف کی خالی کردہ نشست پر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہو گئے۔خاندانی امارت،وسیع کاروبار، اعلیٰ تعلیم،بلند حوصلگی اورسب سے بڑھ کر یہ کہ پارٹی سے وفاداری کے سبب وہ بعض حلقوں کی نظروں میں بری طرح کھٹکتے ہیں۔اب انہیں گرفتار کرلیا گیا ہے تو عدالت میں آکر انہوں نے جج سے خود ہی درخواست کر دی کہ میرا 12تا 14روز کی بجائے اکٹھا 90دِنوں کا ریمانڈ دے دیا جائے تاکہ مَیں نیب کو اچھی طرح سمجھا سکوں کہ ایل این جی کا سودا کیسے ہوا۔
مسکراتے اور پُراعتماد چہرے کے ساتھ یہ طنزیہ گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ مجھے ”عدالتوں سے انصاف کی کوئی امید نہیں ہے“۔ سابق وزیراعظم نے اس ایک فقرے میں سارا حال کھول کر رکھ دیا ہے۔مسلم لیگ (ن) اور اپوزیشن کی دیگر جماعتیں غور کریں تو آئندہ کا سارا لائحہ عمل طے کرنے کی بنیاد بھی اسی میں پوشیدہ ہے۔ رانا ثناء اللہ پر جس طرح سے 15کلو ہیروئن ڈالی گئی،جس طرح اب آگے مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کی گرفتاریوں کا پلان ہے۔
احسن اقبال،خواجہ آصف، شہباز شریف ہی نہیں مریم نواز بھی ٹارگٹ ہیں۔ ہر اس پارٹی رہنما پر نظر ہے،جو کارکنوں کو متحرک کرنے کی معمولی سی صلاحیت بھی رکھتا ہے، اس دوران بلاول بھٹو زرداری کا دورہئ امریکہ خاصا اہم ہے، اس کے نتائج تو بعد میں ہی سامنے آئیں گے، مگر اس وقت تک حکومت کا پلان یہی ہے کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت بھی گرا دی جائے۔ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ سمیت تمام اہم رہنما جیلوں میں ڈال دئیے جائیں،جس طرح سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سپریم جوڈیشل کونسل میں اپنے خلاف ریفرنسوں کا سامنا کررہے ہیں اور آزاد میڈیا کو گردن سے دبوچ لیاگیا۔اپوزیشن کے خلاف انتقامی کارروائیاں عروج پر ہیں۔
مختلف اداروں میں موجود ایسے عناصر جو حکومت کی ہا ں میں ہا ں ملانے کی بجائے قاعد ے قانون اور ضابطے پر چل رہے ہیں، خطرے کی زد میں ہیں اور اس ساری صورت حال میں انصاف حاصل کرنے کے لئے میدان عمل میں نکل کر جدوجہد کرنے کی بجائے جو،جو اس سسٹم سے امیدیں لگائے بیٹھا ہے، وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔ سیاسی طور پر مو قف رکھا ہو کہ ہم ایک حد سے آگے نہیں جائیں گے تو اس میں کوئی ہرج نہیں،لیکن زمینی حقائق کا تقاضا تو یہ ہے کہ سوال جس زبان میں کیا جائے جواب اسی زبان میں دینا لازم ہے۔ملک میں جاری اس کشمکش کے فریق واضح ہیں۔یہ بھی نظر آ رہاہے کہ ایک جانب سے کون لیڈ کر رہا ہے،دوسر ی جانب سے قیادت کس نے کرنی ہے،یہ ابھی تک طے نہیں ہو سکا۔ معاملات ہر صورت میں سیاسی قوتوں کے ہاتھوں میں ہی رہنے چاہئیں، لیکن اگر سیاسی عناصرنے مصلحت،سودے بازی اور بزدلی دکھائی تو اس اہم موڑ پر قیادت کرنے کا حق بھی کھو بیٹھے گی۔
لڑائی میں جیت طاقتور کی ہوتی ہے یا بہادر کی، یقینا،جو اپنے موقف پرقائم رہتے ہوئے میدان نہ چھوڑے، شروع میں شدید مشکلات کے بعد آسانیاں ان کا مقدر بن جاتی ہیں۔ قوموں کی قسمت بدلنے کے لئے قربانیاں تو لازمی دینا پڑتی ہیں۔پورے ملک میں کم وبیش ایک دھائی سے جاری سیاسی سرگرمیوں کے نتیجے میں عوام کا شعور بہت بلند ہوچکا ہے۔پہلی بار پنجاب میں بھی معاملات کا نہ صرف ادراک کر لیا گیاہے،بلکہ بہت حد تک اس کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے۔اسی لئے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ اب سوشل میڈیا کو بھی بزو ر طاقت کنٹرول کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ریگولر میڈیا پر بدترین سنسر شپ ہے تو سوشل میڈیا پر رائے دینے والوں کو ہر طرح کے سنگین خطرات لاحق ہیں۔یہ معاملہ کیسے رکے گا؟یہ طاقت نہیں، بلکہ کمزور ی کی کھلی علامت ہے، حکومت مخالف شخصیات کو میدان عمل تو کیا میڈیا پر آنے سے بھی روکا جارہا ہے۔ ایسا اسی وقت ہوتا ہے جب برسر اقتدار شخصیات کو اپنی کارکردگی اورمقبولیت کے حوالے سے کسی قسم کا اعتماد نہ رہے۔ سیاسی مخالفین کے بینک اکاؤنٹس دھڑا دھڑ منجمد اور پراپرٹیاں ضبط کی جا رہی ہیں تاکہ وہ گھٹنے ٹیک کرحکومت کے ساتھ اس کی مرضی کی مفاہمت کرنے پر مجبو رہو جائیں،لیکن یہ پلان پورا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔
دوسری جانب معاشی بحران ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔حکومتی دعوؤں کے برعکس اقتصادی معاملات معمول پرلانے کے لئے کئی سال درکار ہیں اور یہ دعویٰ بھی سرا سر غلط ہے کہ شاید دو تین سال بعد مہنگائی کم ہو جائے گی۔ اگر یہ دعویٰ مان بھی لیا جائے تو بھی مہنگائی کم نہیں ہو گی،بلکہ اوربڑھے گی،کیونکہ جومہنگائی اب تک ہو چکی یاہو رہی ہے، وہ برقرار رہے گی۔
نیا پاکستان انتظامیہ کی ناقص حکمت عملی سے پیدا ہونے والی معاشی ابتری سد ھر بھی گئی تو صرف اتنا ہوگا کہ مہنگائی کی شرح کم ہو جائے گی۔اس کی واضح مثال یوں ہے کہ اگر چیز آج ڈبل ریٹ پر مل رہی ہے تو وہ تو برقرار ہی رہے گی، لیکن اگلی مرتبہ نرخ بڑھاتے وقت شاید ڈبل نہ ہوں،بلکہ 75فیصد اضافہ کردیا جائے،لیکن اس دوران جتنی نوکریاں جا چکی ہوں گی اور کاروبار جس حد تک متاثر ہو چکے ہوں گے،غیر ملکی قرضے جس قدر بڑھ چکے ہوں گے،ملکی صنعت کے لئے پیداواری لاگت میں اضافہ ہو چکا ہو گا، وہ سب ڈراؤنا خواب ہے۔
اب تک کی صورت حال سب کے سامنے ہے،ان سطور کی اشاعت تک حکومت پاکستان کا اعلیٰ سطحی وفد امریکہ کے دورے پر ہو گا۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پہلے ہی کہہ دیا ہے کہ ہم کچھ مانگنے نہیں آئے۔شاید انہیں اندازہ ہے کہ امداد کے حوالے سے جتنی بھی گزارشات کی جائیں گی، امریکی حکام اس پر مثبت جواب نہیں دیں گے۔ خصوصاً ٹرمپ حکومت نے اس حوالے سے اپنی پالیسی تبدیل کر لی ہے۔ ویسے بھی سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر سے اب تک جو ملا ہے، وہ امریکی گرین سگنل کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ آئی ایم ایف کا قرضہ اور اس سلسلے میں امریکی وزیر خارجہ اور دیگر حکام کی جانب سے پہلے سے دیئے جانے والے بیانات کی ابھی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی۔
امریکی حکام ہر صورت میں یہ بات باور کرانے کی کوشش کریں گے کہ عالمی مالیاتی اداروں کو قرضہ دینے کی اجازت دے کر وہ پاکستان کو معاشی مشکلات سے نکالنے کا راستہ بنا رہے ہیں۔ بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس دورے کے دوران مہمان وفد خواہ کتنی ہی توقعات باندھے، درحقیقت ان کو اپنی طرف سے یہ پیکیج پیش کرنا ہو گا کہ وہ خصوصاً افغانستان سے فوجیں نکالنے کے تناظر سمیت دیگر معاملات میں کیسے معاونت کرسکتے ہیں۔یہ خبریں تو سامنے آہی چکی ہیں کہ اس دورے کا اہتمام ولی عہد محمد بن سلمان نے ٹرمپ کے داماد اور اپنے دوست جیرڈ کشنر کے ذریعے کیا ہے، لیکن اس دورے کی کیٹیگری کیا ہے۔اس پر اس وقت بات نہ ہی کی جائے تو بہتر ہوگا۔یہ بات بھی حقیقت ہے کہ بھارت کے لئے فضائی حدود کی بندش کے خاتمے سمیت بعض اقدامات اس نیت سے کئے گئے ہیں کہ دورہئ امریکہ میں اچھا امیج سامنے آ سکے۔ایک چیز سب کو جان لینی چاہئے کہ امریکی منشا کے مطابق پاکستان کی معیشت کا کنٹرول اب آئی ایم ایف کے ہاتھوں میں جا چکا ہے۔اپنی پہلی ٹیم کی معاونت کے لئے ایک اور ٹیکنو کریٹ سابق گورنر سٹیٹ بینک ڈاکٹر شمشاد اختر حکومتی منصب پر آگئی ہیں۔
ادھر پاکستان میں آئی ایم ایف کی نمائندہ ٹیریساڈربن سا نچیز کا کہنا ہے کہ عالمی ادارے کے پروگرام کے لئے بنیادی اصلاحات ضروری ہیں،سو قانون سازی کرنے کے لئے اپوزیشن کو اعتماد میں لینا ہو گا۔دنیا میں آج تک ایسانہیں ہوا کہ کسی ملک نے آئی ایم ایف پروگرام سے ترقی کی ہو۔ مصر اس کی تازہ مثال ہے جو آئی ایم ایف کے ذریعے اقتصادی خود مختاری کھو چکا ہے۔آئی ایم ایف کی عہدیدار کا بیان، ہو سکتا ہے کہ ان کی اپنی ضرورت ہو،اپوزیشن کو اس سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں۔ میثاق معیشت کی بات کرنے والوں کو یہ دیکھ لینا چاہئے کہ جب معیشت پر آپ کا کنٹرول ہے، نہ پالیسیوں پر، توایسی کوئی حرکت ”مذاق معیشت“ سے زیادہ کچھ ہو ہی نہیں سکتی۔اب جبکہ حکومت نے اپنا اقتدار برقرار رکھنے کے لئے اپنے عزائم پہلے سے زیادہ واضح کردئیے ہیں تو اپوزیشن کو ساتھ میں آگے بڑھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔کیا اب یہ کہنے کی ضرورت باقی ہے کہ اپوزیشن کو دیوار سے لگایا جا چکا ہے۔
گالیوں، گرفتاریوں،بلکہ گولیوں سے بھی حکومتیں چلتی ہوتیں تو جو آتا(خصوصاً ڈکٹیٹر حضرات)کبھی واپس نہ جاتا،سیاسی،عدالتی، معاشرتی اور سب سے بڑھ کر معاشی محاذوں پر چیلنج درپیش ہیں۔ دور تک ریلیف کا کوئی امکان نہیں۔ حکمران اشرافیہ مزے میں ہے۔ایسی ہی ایک شخصیت سے ایک محفل میں جب ڈالر مہنگا ہونے کی بات کی گئی تو تشویش ظاہر کرنے کی بجائے بے اعتنائی سے جواب ملا تو پھر کیا ہوا؟ یہ وہی رولنگ ایلیٹ ہے، جس کے بچے خصوصی سکالر شپ پر باہر پڑھتے ہیں، وہیں رہتے ہیں،اور وہیں نوکریاں کرتے ہیں، مختلف ناموں سے بڑی بڑی جائیدادیں اور کاروبار پہلے سے سیٹ کرلیتے ہیں، پاکستانی عوام کو اس وقت صرف کمر توڑ مہنگائی ہی کا سامنا نہیں،بلکہ ایسے حالات پیدا کر دئیے گئے ہیں کہ آمدن بھی پہلے سے کہیں کم ہو گئی ہے اور ہوتی جا رہی ہے۔
چیلنجز انتہائی سنگین اور حقیقی ہیں، لیکن وہ قیادت کہاں ہے جو آگے بڑھ کر رہنمائی کرے گی۔ طے ہے کہ یہ نظام جوں کا توں چل نہیں سکتا۔عوام کی رہنمائی کے دعویداروں کو آگے بڑھنا ہو گا۔ دوسری کوئی بھی صورت غیر منظم اور بہت زیادہ ہنگامہ خیز ہو سکتی ہے۔ان دنوں یہ بھی نوٹ کیا جا رہا ہے کہ بعض صاحبان ایجنڈا میڈیا کارندے بھی ایسی خبریں دے رہے ہیں کہ کہیں تحریک چلنے والی ہے یا چل سکتی ہے اور یہ کہ حکومت ناکام ہورہی ہے۔ غالب امکان یہی ہے کہ یہ کسی ایسے مشن پر ہیں، جس کا مقصد حکومت کو تنگ کرنا ہے،ہو سکتا ہے ان کا کوئی کا م نہیں ہوا یا زیادہ لفٹ نہیں ملی۔ اوپر سے ملنے والی ڈیوٹی کے تحت بھی ایسا ہو سکتا ہے۔سیاسی جماعتوں کو تمام پہلو مدنظر رکھ کر فیصلے کرنا ہوں گے۔متفقہ فیصلہ حتمی نتیجے میں قریب لے آئے گا۔دوسری صورت میں شاید کچھ زیادہ وقت لگے،لیکن نقصان بھی پہلے سے بڑھ جائے گا۔