تعمیر مندر' ہندو اکثریت کا نقطہ نظر
پچھلے کالم پر خلاف توقع سندھ سے خاصا رد عمل سامنے آیا۔ یہ بیان کیا جاچکا ہے کہ تعمیر مندر کے تین پہلو ہیں: شمشان گھاٹ, مندر اور کمیونٹی سینٹر. شمشان گھاٹ پر میں اپنی معروضات پیش کر چکا ہوں۔ ایک دفعہ پھر اپنی بے بسی اور بے چارگی کا اظہار کرتا ہوں کہ مندر کے حامی اور مخالفین دونوں اسے محض مذہبی شناخت اور رواداری سے منسلک کر کے اپنے اپنے فقہی علم کا اظہار کر رہے ہیں۔ مسئلے کی نوعیت کو گہرائی میں سمجھنے کی کوشش بہت کم لوگوں نے کی ہے۔ قرآن کیا کہتا ہے، سنت میں کیا ہے، احادیث کیا کہتی ہیں، فقہا کے فرامین کیا ہیں؟ رہی مسئلے کی نوعیت تو وہ۔۔۔۔۔؟ علم ہے لوگوں کی قلم اور زبان سے ابل ابل کر سامنے آرہا ہے۔ وہی علم جو متعلقہ فریق کے اپنے نقطہ نظر کو تقویت دیتا ہے۔ قرآن، سنت، احادیث، آثار، اقوال فقہاء یہ سب تو علاج کی مختلف شکلیں ہیں۔ قبلہ گاہی پہلے مرض کی نشاندہی تو کرلیں، دو چار لیبارٹری ٹیسٹ تو کرا لیں, پھر آپ کے علم سے استفادہ بھی کر لیا جائے گا۔ پھر عرض کروں گا کہ مندر کی تعمیر محض مذہبی مسئلہ نہیں ہے۔ اس کا تعلق سماجی علوم کی متعدد شاخوں سے ہے۔ایک طرف اس بحث میں شماریات کے پہلو آتے ہیں۔ تو دوسری طرف علم الانسان پر نظر ڈالے بغیر آگے بڑھنا مشکل ہے۔ سیاسیات اور تعلقات بین الاقوام پر نظر رکھنا بھی ضروری ہے۔ بین الاقوامی وعدے وعید بھی پیش نظر رکھنا اہم ہے۔ لیکن ان سب کاموں سے بڑھ کر یہ بنیادی غلط فہمی دور کر لینا اساسی کام ہے کہ ہندو نام والا ہر شخص ہندو ہوتا ہے۔ یہ وہ غلط فہمی ہے جسے جتنی جلدی دور کر لیا جائے، مسئلے کو سمجھنا اتنا ہی آسان ہوگا۔ چنانچہ قرآن، سنت، احادیث اور اقوال فقہاء والے ہمارے دونوں طبقات ---محبان مندر اور مندر مخالف---کے یہاں سب کچھ ہے۔ بس یہ لوگ مسئلے کی نوعیت سمجھے بغیر ہمیں اپنے علم سے مسلسل مستفید کر رہے ہیں۔ اللہ ہمارے حال پر رحم فرمائے:
عشوہ بھی ہے،شوخی بھی، تبسم بھی، حیا بھی
ظالم میں اور اک بات ہے، اس سب کے سوا بھی
سندھ سے مجھے شیڈولڈ کاسٹ فیڈریشن آف پاکستان کا چار ورقی طویل ردعمل موصول ہوا جس کا کچھ حصہ تو ان اصحاب کے اپنے بعض مطالبات پر مبنی ہے جو مندر ہی کی نسبت سے ہیں۔ چند ابتدائی جملے ملاحظہ ہوں: "شیڈولڈ کاسٹ فیڈریشن آف پاکستان ٹیمپل ایشو کو "ہندو جاتی" کے پالیٹکس کا ایک نان ایشو سمجھ کر ان کی مذمت کرتی ہے۔ بدقسمتی سے گزشتہ کچھ دنوں سے "ہندو وادی" لوگ ٹیمپل ایشو کو میڈیا اور اخبارات میں منفی انداز میں اچھال رہے ہیں۔ ہم یہ وضاحت کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ مندر ہمارا اشو نہیں ہے اور وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے جو سرکاری خزانے سے "ہندو مندر" اقلیت کے نام پر بنائے ہیں, وہ محض ایک قلیل اقلیت یا مائیکرو منارٹی کے استعمال میں ہیں جس کو ہندو جاتی کہا جاتا ہے۔ جبکہ اقلیت کا ایک بڑا گروہ جس کی تعداد پاکستان میں آباد سب اقلیتی کمیونٹیز سے زیادہ ہے، اس کو یکسر نظر انداز کیا جا رہا ہے"۔ فیڈریشن کے صدر جناب جیروم داس ابھوجو کے دستخطوں سے جاری اس تحریر کے چند اور جملے ملاحظہ ہوں: "شیڈولڈ کاسٹ عوام مندر ایشو سے مکمل لاتعلقی اختیار کرتی ہے۔۔۔ہم کبھی تاریخ میں ہندو نہیں رہے۔ہم کو ہندو فولڈ میں شمار کر کے نہ صرف بڑی غلطی کی جارہی ہے بلکہ ہمارے مستقبل سے بھی کھیلا جارہا ہے۔۔۔ہندو فولڈ میں شامل 95 فی صد لوگ ہندو نہیں بلکہ شیڈولڈ کاسٹ ہیں۔ہندو تو ایک قلیل مائیکرو منارٹی ہے"۔
چنانچہ میں نے فیڈریشن کے صدرجناب جیروم داس صاحب کو فون کیا۔انہوں نے اس تحریر کے مندرجات کو مکمل اپنایا۔ میں نے ان سے سوال کیا کہ کیا وہ خود کو ہندو سمجھتے ہیں۔ "او سائیں! یہی تو آپ لوگوں کی مصیبت ہے کہ اثر و رسوخ والی معمولی سی بنیا کلاس کے کہنے پر آپ ہمیں ہندو سمجھتے ہیں۔ سائیں جنہیں آپ مردم شماری میں ہندو لکھتے ہیں،وہ تو ان ہندوؤں کا صرف پانچ فیصد ہیں "۔ یہ جناب جیون داس کی طویل گفتگو کا خلاصہ تھا لیکن میرے سوال کا جواب نہیں تھا۔ میں نے سوال دہرایا: "کیا آپ خود کو ہندو سمجھتے ہیں، بس یہ بتائیے؟". مستحکم لہجے میں ان کا جواب یہ تھا: "ہرگز نہیں ". بعد میں ایسے ہی ایک اور ہندو سے میں نے یہی سوال کیا تو وہ تقریباً روہانسا ہو گیا: "سائیں! ہم تو اپنے مردے دفناتے ہیں.ہم کیسے ہندو ہوئے"؟ اس پہلو پر تفصیل جاننے کے لیے میں نے قائد اعظم یونیورسٹی میں علم الانسان(Anthropology) کے ایک پروفیسر سے انٹرویو کیا. انہوں نے مزید اضافہ یوں کیا۔ " ڈاکٹر صاحب! میرے گاؤں میں ساٹھ ستر گھر ایسے ہی "ہندوؤں " کے ہوا کرتے تھے. ماحول کے جبر کے باعث اب وہ سب کے سب "ہمارے جیسے" مسلمان ہو چکے ہیں. ان کی شناخت اس لیے ہندو ہوا کرتی ہے کہ ہم لوگ انہیں مسلمان نہیں سمجھتے، ورنہ یہ لوگ اپنے مردے دفناتے ہیں، جلاتے نہیں. یہ لوگ خود کو صوفی سمجھتے ہیں اور مسلمانوں کے بے حد قریب ہیں۔ معاشرتی بے چارگی کے باعث یہ لوگ پست رتبہ ہیں۔ برہمن اور پڑھے لکھے مالدار اعلیٰ برتر ذات کے ہندو، حکومتی ایوانوں میں انہیں سالہاسال سے ہندو شمار کروا رہے ہیں ". بات جیروم داس صاحب کی ہو رہی تھی جنہوں نے مزید بتایا: "سکھر میں دریائے سندھ کے کنارے ایک مندر کی بحالی کے لیے اسی بنیا کلاس نے خورشید شاہ صاحب سے ایک کروڑ 35 لاکھ روپے لیے۔خرچ صرف 10 یا 15 لاکھ ہوئے۔باقی رقم کہاں گئی؟ پوچھو ناں! بتاؤں کہ نہ بتاؤں؟ باقی رقم بنیے کی جیب میں چلی گئی. سائیں یہ مندر کی تعمیر کا مسئلہ نہیں ہے۔ مندر کے ساتھ ان کی تجارتی سرگرمیاں جڑی ہوتی ہیں "۔
میں نے مناسب سمجھا کہ اس بارے میں کسی اور شخص یا ادارے سے بھی رابطہ کرو ں۔ چنانچہ میں نے نام نہاد ہندوؤں کی ایک اور تنظیم، ایسوسی ایشن فار ڈویلپمنٹ اویئرنیس ریی ہبلی ٹیشن ٹو ہیومینٹی کے صدر جناب سرون کمار سے ان کا نقطہ نظر معلوم کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ سکھر والے اس مندر میں اعلی ذات کے ہندوؤں کے سواکوئی شیڈولڈ کاسٹ قدم نہیں رکھ سکتا۔ "پروفیسر صاحب یہ اعلیٰ ذات کے ہندو لوگ مردم شماری والے "ہندوؤں " کا محض پانچ فیصد ہیں. جناب سرون کمار صاحب نے دو ٹوک الفاظ میں اپنے ہندو ہونے سے انکار کیا۔انہوں نے شہداد پور میں ست سنگ ہندو پنچایت کے 29 فروری 2020 کو ہوئے افتتاح کی تصویر مجھے بھیجی۔یہ افتتاح جناب ہری رام کشوری لال صوبائی وزیر نے کیا تھا۔ سرون کمار صاحب کا کہنا ہے: "ہم لوگوں کو اس دھرم شالا کے اندر جانے کی اجازت نہیں ". انہوں نے اپنا دس نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ ارسال کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اسمبلیوں میں ہندوؤں کی مخصوص نشستیں ختم کرکے ہمیں براہ راست دوہرے ووٹ کا حق دیا جائے۔ پھر پاکستانیوں کو پتا چل جائے گا کہ کون کتنے پانی میں ہے۔ موجودہ صورت حال میں مالدار ہندو سیٹھ اور بنیے سیاسی جماعتوں سے اوپر ہی اوپر لین دین کر کے رکن اسمبلی بن جاتے ہیں جن کا کسی آبادی یا ہم لوگوں میں کوئی اثر ورسوخ نہیں ہوتا۔
ایک مطالبے نے تو مجھے چونکا دیا۔انہی کے الفاظ میں ملاحظہ ہو: "اس دھرتی کے اصل باسیوں کے 32 قبیلوں سے سب سے بڑا ظلم افراد شماری میں کیا گیا ہے۔ زمینی حقائق و شواہد یہ بتاتے ہیں کہ شیڈولڈ کاسٹ ہندو پاکستان کی مجموعی آبادی کا تقریبا 90 فیصد ہیں جبکہ 2017 کی افراد شماری میں دستیاب اعداد و شمار کے مطابق شیڈولڈ کاسٹ پانچ لاکھ ساڑھے 19 ہزار اور ہندو جاتی یعنی ہندو بنیے وغیرہ 33 لاکھ ساڑھے چوبیس ہزار ہیں جو انتہائی غلط اعداد و شمار ہیں "۔ اس مسئلے کو میں نے قائد اعظم یونیورسٹی کے انہی پروفیسر صاحب کے سامنے رکھا تو ان کا جواب یوں تھا:"سائیں یہ تو اب ان لوگوں کی آنکھیں تھوڑی تھوڑی کھلنا شروع ہوئی ہیں، ورنہ یہ ظلم تو ان کے ساٹھ ستر سال سے ہو رہا ہے. سرون کمار کا کہنا درست ہے". مجھے پروفیسر صاحب کی بات سن کر یقین نہیں آیا۔ میں نے کہا: "پروفیسر صاحب یہاں تو حکومت پاکستان کے اعداد و شمار ہی مانے جائیں گے۔ آپ کی یہ زبانی باتیں کون مانے گا"۔ انہوں نے بڑے تحمل سے میری طویل گزارش سنی اور بولے:" ڈاکٹر صاحب! کبھی میرے پاس تشریف لائیں. میں ثبوت بھی دے دوں گا۔ میرا بیشتر مطالعہ اسی موضوع پر ہے۔ سائیں! سنو، جن اضلاع میں شیڈولڈ کاسٹ آبادیاں ہیں، وہاں تو مردم شماری کا عملہ کبھی گیا ہی نہیں۔ سنو! مردم شماری کے عملے نے جن علاقوں میں اپنی ذمہ داری سرانجام دی ہے، عملے کے ٹی اے ڈی اے فارم سے تاریخیں نکالو اور پھر ان میں سے کسی ایک شخص کی موبائل کالیں مجھے نکال کر دکھا دو جن کی تصدیق موبائل کمپنی کے مقامی ٹاور کر رہے ہوں کہ یہاں سے کبھی کال ہوئی تھی۔ سائیں مردم شماری کا عملہ تو ان علاقوں میں کبھی گیا ہی نہیں۔یہ مردم شماری تو سب ہندو سیٹھوں، بنیوں اور ٹھاکروں کی ملی بھگت سے ہوئی ہے" میں سناٹے میں آگیا۔
ایک موقع پر تو میں خوفزدہ بھی ہوا۔ ایک پڑھے لکھے اور باشعور دلت نے تو مجھے ہلا کر رکھ دیا۔ میں نے ان کے دعوے کی تصدیق اس لیے نہیں کرائی کہ اس کا تعلق براہ راست تعمیر مندر سے نہیں ہے۔ لہذا دروغ بر گردن راوی۔ ان کا نام نہیں لکھوں گا کہ ان کے مفاد میں نہیں ہے۔ ان کا فرمان سنیے: "سرکاری اداروں کے ساتھ مل کر تجارتی کام کاج کرنا ہر شہری کا حق ہے. لیکن حساس جگہوں پر لوگوں کے امور پر ہر ملک میں بڑی گہری نظر رکھی جاتی ہے۔ جا کر پتا کریں کہ اسلام آباد ایئرپورٹ جیسی حساس جگہ پر پارکنگ کا اتنا بڑا ٹھیکہ بڑی خاموشی سے ایک اپر کلاس ہندو کو کس نے دلایا اور کیوں دلایا". میں ایک دفعہ پھر سناٹے میں آگیا کہ ٹھیکہ مل جانے پر ایئرپورٹ جیسی حساس جگہ کے اندر ہر قسم کے لوگوں سے روابط اور حساس معلومات تک جو رسائی حاصل ہو جاتی ہے، حساس ادارے ان پر کتنی نظر رکھ سکتے ہیں۔ ٹھیکیدار کا پورا نیٹ ورک دن بھر کہاں کہاں سے کیا کیا حساس معلومات حاصل کرتا ہے، یہ جاننے کے لیے الگ سے پورا ایک ادارہ درکار ہوتا ہے۔ اور ادھر ہمارے بھولے بھالے شہری ایک مندر کی تعمیر پر ہلکان ہوئے جا رہے ہیں۔ " اور پروفیسر صاحب پلیز، یہ بھی کھوج لگا کر ملک کو بچاؤ کہ اعلیٰ ذات کا وہ ہندو 2018 تک نون لیگ کے ٹکٹ پر ایم این اے تھا۔ آخری دنوں میں وہ یکایک نون لیگ سے مستعفی ہو کر کس کی یقین دہانی پرتحریک انصاف میں شامل ہوا تھا؟ ان لوگوں کو یہ یقینی حساس معلومات اور ہدایات کون دیتا ہے کہ اگلی حکومت تحریک انصاف کی ہے. اور پھر وہ تحریک انصاف کے ٹکٹ پر راتوں رات ایم این اے بن بھی گیا"۔
مندر کی تعمیر کے ممکنہ حل پر میں اگلی دفعہ کچھ گزارشات پیش کروں گا۔ آج کی معروضات کا کچھ خلاصہ یہ ہے کہ وہ آبادی جسے ہمارے عہد حاضر کے "مجتہدین" بے جانے بوجھے ہندو سمجھتے ہیں، وہ کل ہندو آبادی کا محض پانچ تا دس فیصد ہے۔ عرف عام میں اسے اپر کلاس ہندو یا مقامی طور پر "ہندو جاتی "کہتے ہیں. یہ کہنا تو بہت دشوار ہے کہ اس اپر کلاس ہندو آبادی کا تعلق باقی نوے فیصد شیڈولڈ کاسٹ آبادی سے بالکل نہیں ہے کیونکہ دلت اور دیگر کم رتبہ آبادی میں سے قابل ذکر تعداد خود کو ہندو ہی سمجھتی اور کہلاتی ہے اور انہی مذکورہ اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کے قریب ہے۔ تاہم شیڈولڈ کاسٹ لوگوں کی غالب اکثریت (اسی نوے فیصد) خود کوہرگز ہرگز ہندو کہلانا پسند نہیں کرتی۔ میں نے جن چار چھ افراد سے تبادلہ خیال کیا، ان سب کی رائے میں یہ اپر کلاس ہندو آبادی کسی صورت میں ایک تا تین لاکھ سے زیادہ نہیں ہے۔ قائد اعظم یونیورسٹی کے ان پروفیسر کے خیال میں تو اصل ہندو صرف تیس سے چالیس ہزار ہیں اور بس! ان لوگوں اور شیڈولڈ کاسٹ میں سے کسی کو ملک دشمن یا غدار نہیں کہا جا سکتا۔محترم جسٹس رانا بھگوان داس کا تعلق بھی اسی اپر کلاس ہندو برادری سے تھا۔ تاہم ایک شیڈولڈ
کاسٹ رہنما کے مطابق:" سرحد پار روابط رکھنے والے ہندوؤں کا تعلق اسی برادری کے لوگوں سے ہے اور یہی لوگ مندر کے مسئلہ کو اٹھائے پیش قدمی کرتے جا رہے ہیں۔ ہم 90% آبادی کا مندِر کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے"۔
آج کی گفتگو مندر مخالف افراد کے لیے شاید اطمینان بخش ہو۔ لیکن یہ مسئلے کا ایک رخ ہو گا۔ اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کا یہ مسئلہ وہ ننھی سی پھلجھڑی ہے، وہ لٹمس ٹیسٹ ہے، جس کے ذریعے فیصلہ ساز قوتیں بہت کچھ جانچ پرکھ رہی ہیں۔ اس کے نتائج بڑے ہی دور رس ہو سکتے ہیں۔ یہ ملک مسلمانوں، ہندوؤں اور دیگر تمام مذاہب کے ماننے والوں کا ہے۔اس کے تمام باشندے اگر مساوی شہری حقوق کا دعویٰ کریں تو ان سب کے فرائض بھی اسی کمیت کے ساتھ مساوی ہیں۔ یوں سمجھ لیجئے کہ دیوار پرانگلی سے شیرا لگا کر اب شیطان تماشا دیکھ رہا ہے خود کچھ نہیں کر رہا۔ یہ وہ مسئلہ ہے جسے احتیاط سے نہ نمٹایا گیا تو ہندو یا مسلم کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ نقصان تو سبھی کا ہو گا، فائدہ کسی کا نہیں ہوگا۔ اس پر انشاء اللہ اگلے ہفتے روشنی ڈالنے کی کوشش کروں گا (باقی آئندہ)۔