ماہی میریاروندھ نہ ماریں۔۔۔
کیا رنگین سماں ہو گا جب ہمارے خوبصورت مسکراہٹ والے جمہوریت کے دیوتا آصف زرداری نے بزرگوارچودھری شجاعت کو درخواست کی ہو گی کہ ”چٹھی زرا سیاں جی کے نام لکھ دے،حال میرے دل کا تمام لکھ دے“۔جیسے سالا ایک مچھر آدمی کو ہیجڑا بنا دیتا ہے،ایک چٹھی سارے جمہوری عمل کو کک مارتی ہے کہ پوری پی ٹی آئی پکار اٹھتی ہے مجھے تو تیری ”لت“ لگ گئی اور ”لت“وہ غلط لگ گئی۔ویسے آپ ہمارے نوخیز دوست مزاری کو یہ داد تو دیں کہ چودھری صاحب کو خود ان کے قریبی لوگ پوری طرح کن لگا کر سننے کے باوجود نہیں سمجھ نہیں پاتے ہمارے مزاری نے وہ پیغام فون پر پوری طرح سن کے سمجھ لیا۔چلو جی ”جناں کھادیاں گاجراں ڈھڈ انہاں دے پیڑ“آئین کی من چاہی تشریح پر دوست مزاری سمجھیں اور عدالتیں۔ہم نے تو فقط لفطوں کے دانے ہی بھننے ہیں۔معاملہ عدالت میں ہے اس لئے ہمیں کیا ضرورت کہ اس پر گفتگو کر کے ایویں ”ویہلنے“میں ”باں“دیں۔لیکن عدالتوں کا یہ جمہوری فیصلہ سب کو مطمئن یا غیر مطمئن کرنے کے لئے کافی ہے۔سنتا سنگھ کے پاس دو لوگ اپنا فیصلہ کرانے آئے،سنتا سنگھ نے پہلے فریق کی بات سنی اور کہا تم صحیح کہہ رہے ہو،پھر دوسرے کی بات سن کر بولا تم بھی صحیح کہہ رہے ہو،پاس کھڑا تیسرابندہ بولا سنتا یہ کیا بات ہوئی کہ پہلا بندہ بھی ٹھیک کہہ رہا ہے دوسرا بندہ بھی ٹھیک کہہ رہا ہے۔سنتا بولا یا ر ”کہہ تے توں وی ٹھیک ریاں ایں“
اے طائر لاہوتی جتھے دی کھوتی اوتھے آن کھلوتی۔ سنا ہے کہ تما م جماعتوں کوکہا گیا ہے کہ سب اچھے بن جاؤ اور کھیل کو بند نہ کرو۔ہم تو کب سے کہہ رہے ہیں کہ اس جمہوری نظام میں ”جنوں بھنوں کے اوہی لال“ نکلے گا۔یہ بروٹس کا معاشرہ ہے ہر بندے کے بغل میں چھری اور منہ پہ رام رام ہے۔جمہوریت کے بگلے بھگت اربوں کی حویلیوں میں رہتے ہیں،کروڑوں کی گاڑیوں میں گھومتے ہیں،بچوں کو ہمیشہ کے لئے باہر سیٹل کرتے ہیں اور غریب عوام کا رونا روتے ہیں۔غریب عوام بیچاری ”جنے لایا گلی اوہدے نال ٹر چلی“ہے کوئی جو پوچھے بھائی جان،”سوہنیو،ہیریو،مکھنو تے رج کے سوہنیو“ تہاڈے پتر لندن امریکہ کی موجیں کریں اور ہمارے بلونگڑوں کو آپ جمہوریت کی بھٹی میں دانوں کی بھن چھوڑتے ہیں۔آ پ کے کتے کی ویکسین بھی پابندی توڑ کے باہر سے امپورٹ ہوتی ہے اور ہمارے بچے سرکاری ہسپتالوں میں ایسے رل رہے ہوتے ہیں جیسے یہ ہسپتال نہیں ایدھی کے جھولے ہیں۔ہمیں آپ جمہوری اقدار،روشن مستقبل کی لال بتی کے مگر لگا کے خود وسائل کے جھولے پر بیٹھ کر ”پھائی پھائی زور دی“پکارتے ہو۔اسمبلیوں کو آپ گوالمنڈی سمجھتے ہو،اپنی مرضی کے دکاندار بٹھا کے اپنی مرضی کے ریٹ پر سودا خریدتے ہو اور آئین کے شاپرمیں لہراتے ہوئے گیت گاتے پھرتے ہو ”وے سب توں سوہنیا ہائے وے من موہنیا“اور اگر شاپر تھوڑا سا پھٹ جائے تو ادارے آگے بڑھ کر دستی اسے ایسے”تروپے“لگا تے ہیں کہ سارا سودا نوا نکور ہوجاتا ہے۔چلو جی بادشاہو سارا سسٹم تمہارا یہ آئین،یہ قانون،یہ عدالتیں،یہ ادارے۔اب بتاؤ اور کیا چاہئے،لوٹ تو لیا تم نے ”ککھ نہیں چھوڑا۔آئی ایم ایف تو دور اب سعودی عرب ہم پر یقین کرنے کو تیار نہیں۔بھکاریوں کو کوئی کتنی عزت دے۔کھیلو بھائی کھیلو ”چیچو چچ گنڈیریاں دو تیریاں دو میریاں“۔ہم نے ہمارے بچوں نے جی کر کر بھی کیا لینا ہے۔جلد ان کی قبروں پر پاؤں رکھ رکھ کر ٹاپو ٹاپ پہنچو مسند اقتدار پر۔بنتا سنگھ نے ادھی رات کو ڈاکٹر کو فون کیا اور بولا ڈاکٹر صاحب مجھے نیند نہ آنے کا مرض ہے ڈاکٹر بولا تے فیر ایہنوں پھیلاں کیوں ریاں ایں۔بھائی ہمیں تو ایسے ہی بکواس کی بیماری ہے ہم تو دانشوروں کی اچھوت نسل ہیں۔بھلا وہ بھی کوئی دانشو رہے جس کی ایکڑوں میں زمین نہ ہو،کڑوڑوں میں اکاؤنٹ نہ ہوں،درجنوں گاڑیاں نہ ہوں۔ الامااللہ اداروں کو اس بار ان کی ٹکر کے دانشور ملے ہیں۔ہمارا کیا ہے ہم نے ہاتھ جوڑ جوڑ کر کرایک ہی بات کہتے ہیں ”ماہی میریا روندہ نہ ماریں میں دا لایا جند جان دا“۔