غلط کون۔صحیح کون
سانگھڑ میں اونٹنی کی ٹانگ کاٹنے کے واقعہ پر کئی مظلوموں نے اونٹنی کی قسمت پر رشک کیاتھا کہ کاش وہ اونٹنی ہوتے اور جتنے گھاؤ حالات نے ان کی روح پر لگائے ہیں شاید ان کا بھی کچھ مداوا ہو پاتا کراچی میں پچھلے چند ماہ میں لٹیروں نے ایک حشر برپا رکھا ہے کتنی ماؤں کی گودیں اجاڑ دیں گئیں۔کئی والدین اپنے اکلوتے بچوں کے قتل پر زندگی کو اپنے لیے سزا سمجھنے لگے کراچی کے حالات کی سنگینی پچھلے چند ماہ پر ہی موقوف نہیں حالات کی برہمی کا یہ سلسلہ سالہاسال پر محیط ہے اور سالوں سے تلخئی حالات دراز ہوتی یہاں تک آپہنچی ہے کہ کراچی میں گھر سے نکلنے والوں کا کوئی محافظ نہیں یا یوں کہیے کہ اس شہر کا ہی کوئی محافظ نہیں رواں سال چھ ماہ میں (جون تک) 77سے زائد افراد ڈکیتی کی وارداتوں میں قتل کئے جا چکے تھے اور ملک میں چھ ماہ میں (جون تک) چھ صحافیوں کا قتل اس سے الگ ہے جس میں دو صحافی پنجاب۔دو کے پی کے۔ایک بلوچستان اور ایک سندھ۔سے تھاصد حیف یہ مقبوضہ کشمیر۔فلسطین نہیں کراچی کی گلیاں ہیں جہاں خونی کھیل کھیلا جارہا ہے لوگوں نے احتجاج کر دیکھے ماؤں نے گریہ زاری کر دیکھی ماتم کرتے باپ کلیجوں کو تھامے رہ گئے لیکن کراچی میں رہنے والوں کا کوئی پرسان حال نہیں کوئی انہیں بچانے نہ آیا کوئی امداد کو نہ پہنچا صرف ماؤں کے یہ بچے ہی نہیں بلکہ ایسے بچے جو تعلیم میں اعلی درجوں تک پہنچ چکے تھے یا ایسے بچے جو پاکستان کے لیے غیر معمولی خدمات کا جذبہ رکھتے تھے سب کے سینے چھلنی کردئیے گئے چند ماہ قبل کورنگی میں نجی یونیورسٹی کا طالب علم قتل ہونے والا لاریب جو اکاؤنٹنگ کی کتاب لکھ چکا تھا اور کتاب کا ڈیٹا اس موبائل میں محفوظ تھا جسے لٹیرے چھین رہے تھے اور لاریب نے اس موبائل میں محفوظ اس ڈیٹا کو بچانا چاہا نتیجتاً اسے گولیاں مار کر ابدی نیند سلا دیا گیا لوگ سوچتے ہیں کراچی میں قتل ہونے والوں کی حفاظت کا ذمہ دار بھی کوئی تھا؟
کراچی میں شاہ زیب خان نامی نوجوان 2012ء میں قتل ہوا۔ قتل کے مقدمے میں ملزمان کے ساتھ قانون نے جو جو سلوک کیا انصاف کا جو پرچم بلند ہوا سب نے دیکھا۔اگر پاکستان میں قانون کی حکمرانی ہو تو حالات کبھی اس درجہ تشویش ناک نہ ہوں۔کراچی کے کچرا کنڈیوں سے معصوم بچوں اور بچیوں سے جنسی زیادتی کے بعد انہیں قتل کر کے پھینکی ہوئی لاشوں کے ملنے کے واقعات بھی عام ہو چلے ہیں ان پر بھی کراچی کے کسی محافظ نے کبھی ان معصوموں کے قتل میں ایک رات بھی جاگ کر نہیں گزاری اور شاید ان بچیوں۔ بچوں کے قتل ہونے کے بعد آج تک ان کے والدین کو نیند نہ آئی ہو لیکن کراچی کہ جسے روشنیوں کا شہر کہا گیا ہے وہاں پر ظلمتوں کے مہیب سائے کیسے آگئے کوئی نہیں جانتا البتہ ہر سیاسی جماعت ایک دوسرے کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتی آئی ہے سندھ میں اونٹنی کی ٹانگ کاٹنے کا واقعہ رونما ہوا تو یہ واقعہ سوشل میڈیا پر وائرل ہوکر حکمرانوں کے دلوں کو تڑپا گیا یقینا اس ظالمانہ بے رحمانہ اقدام پر دلوں کا تڑپنا ہی بنتا تھا قرآن کریم میں ثمود کی قوم کا ذکر ہے کہ جس نے اس اونٹنی کو بڑی بے دردی سے قتل کر دیا جس کے بارے حضرت صالح علیہ السلام آگاہ کرتے رہے کہ اس اونٹنی کے قتل سے خدا کا عذاب تمہیں آلے گا لیکن بھٹکے ہوئے بہکے ہوئے لوگ سچائیوں کی زبان سمجھتے ہی کہاں ہیں جیسے بھٹکے ہوئے بہکے ہوئے لوگ آج کراچی کی گلیوں میں ماؤں کی گودیں اجاڑ رہے ہیں قوم ثمود نے اونٹنی کے قتل کے بعد اس کو سنجیدہ نہ لیا حضرت صالح علیہ السلام اونٹنی کے قتل پر بہت رنجیدہ بلکہ آبدیدہ ہوئے اور فرمایا کہ اب ان ظالموں کو خدا کے عذاب سے کوئی نہیں بچا سکتا اور پھر خدا کے عذاب نے ثمود کی قوم کو بھوسے کی طرح کر دیا سانگھڑمیں اونٹنی کی ٹانگ کاٹنے کا واقعہ جب میڈیا کے ذریعے برق رفتاری سے ہر آنکھ تک پہنچا تو کراچی۔ سندھ کے حکمرانوں کو اونٹنی پر جو ترس آیا وہ سب نے دیکھا۔
شرجیل میمن نے بتایا کہ ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کرکے گرفتار کر لیا گیا ہے، گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے سانگھڑ میں بااثر وڈیرے کے مبینہ ظلم کے شکار شخص کو دو اونٹ دینے کا اعلان کیا۔بلکہ اونٹنی کو سندھ کی رانی کا خطاب بھی دے ڈالا
اونٹ کی ٹانگ کے کاٹنے کو انسانیت سوز قرار دیا گیا اور کہا گیا جانوروں سے ایسا سلوک کسی انسان کو زیب نہیں دیتا،سی ڈی آر ایس پراجیکٹ فار اینیمل ویلفیئر کی ڈائریکٹر سارہ جہانگیر کا کہنا تھا کہ اس اونٹنی کی آگے کی ایک ٹانگ کٹی ہوئی ہے اور اب اس کے علاج کے لیے دبئی میں بھی ماہرین سے مشاورت کی جا رہی ہے کہ اس کا مستقل حل مصنوعی ٹانگ ہے اونٹنی کی ٹانگ کاٹنے کے بعد راولپنڈی میں گدھی کے کان کاٹنے کا واقعہ بھی پیش آیا۔ سول سوسائٹی اور جانوروں کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیموں نے جانوروں پر بے رحمی کے بڑھتے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا۔سوچتا ہوں جیسے اس اونٹنی کو سندھ کی رانی کے خطاب سے نوازا گیا ہے کاش کسی ماں کے قتل ہونے والے اکلوتے بیٹے کو بھی 'سندھ کا راجہ'کا خطاب ملتا۔ خطاب تو کیا کسی کو ملنا تھا لوگ عدم تحفظ کا اس قدر شکار ہیں کہ گھروں سے نکلنا مشکل ہوگیا جناب مراد علی شاہ نے تو خرابیء حالات کا ذمہ دار نگران حکومت کو ٹھہرا دیا تھا ٹھیک ہے کراچی میں بہت سے ترقیاتی کام ہوئے ہونگے وہاں حکمرانوں کی بہت سی خدمات ہونگی لیکن شہریوں کو جان و مال کا تحفظ حاصل نہیں حالانکہ کسی بھی اسلامی سلطنت میں آباد ہر شہری کی حفاظت اور کفالت کی ذمہ دار ریاست ہوتی ہے قرآن مجید میں واضح طور پر حاکمینِ وقت کی ذمہ داریوں کے بارے اصول متعین کر دئیے گئے ہیں اللہ اور اس کے رسول ؐ نے ریاست اور سیاست کے متعلقہ اصول اور تعلیمات بیان کر دئیے ہیں،جن۔پر عمل کرکے پر امن معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے لیکن سوال تو یہ ہے کہ ہم نے اسلامی تعلیمات پر من و عن عمل ہی کب کیا ہے ہم نے اسلامی اصولوں اور قوانین کو سمجھا ہی کب ہے ہم تو مسائل کو الجھا دینے کے ماہر اس قدر الجھا دینے کے ماہر ہیں کہ معلوم ہی نہیں ہوتا یہاں غلط کون ہے اور صحیح کون۔