ڈی جی آئی ایس پی آر کی بھرپور پریس کانفرنس

 ڈی جی آئی ایس پی آر کی بھرپور پریس کانفرنس
 ڈی جی آئی ایس پی آر کی بھرپور پریس کانفرنس

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

  ڈی جی آئی ایس  پی۔ آر نے بھرپور پریس کانفرنس کر کے ملک کو درپیش مسائل اور قومی سلامتی کو درپیش چیلنجز  کے بارے میں تفصیلاً گفتگو کی، ان کی گفتگو میں تسلسل بھی تھا اور معلومات سے بھی بھرپور تھی اور پھر انہوں نے منطقی انداز میں تجزیہ پیش کر کے اپنے موقف کو پر اثر اور قابل قبول بنانے کی کوشش کی،ان کی معلومات بڑے سلیقے سے ترتیب کر دہ تھیں اور زمینی حقائق سے جڑی ہوئی تھیں، ویسے بھی فوج کو تربیت  ہی اس طرح دی جاتی ہے کہ کسی بھی شے کے بارے میں گفتگو کرنے سے پہلے بھرپور تیاریاں کی جائیں، موضوع کے تمام پہلوؤں پر نظر ڈالی جاتی ہے  اس طرح بھرپور تیاری کے ساتھ اپنا موقف بیان کیا جاتا ہے یہ تو پھر پاکستان کے سب سے اعلیٰ و ارفع دفاعی ادارے فوج کے ابلاغی نمائندے تھے اس لئے ان کی گفتگو  تو ہونا بھی بھرپور تیاری کے ساتھ تھی۔

اِس بارے میں تو کسی شک و شبہے کی گنجائش ہی نہیں ہے کہ پاکستان شدید ترین مشکلات کا شکار ہے، شدید بحرانی کیفیت سے گزر رہا ہے ویسے تو پاکستان کبھی بھی عافیت میں نہیں رہا یہاں کوئی نہ کوئی بحران تو چلتا ہی رہتا ہے۔1971ء میں ایک بحران نے پاکستان دو لخت کر دیا تھا یہ بحران تو قیام پاکستان کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا، جب قومی زبان کے مسئلے پر مشرقی پاکستان میں ہنگامے شروع ہو گئے تھے انہی ہنگاموں میں کچھ نوجوان جان سے بھی چلے گئے تھے اس طرح ایک علیحدگی کی تحریک کی ابتداء ہو گئی، شہید ِ مینار بنا جو بڑھتے بڑھتے بنگلہ دیش کے قیام پر منتج ہوا، پھر1977ء کی تحریک نظام مصطفی اور اس کے نتیجے میں جنرل ضیاء الحق کا11سالہ مارشل لاء۔1979ء میں انقلابِ ایران نے ہماری داخلی سیاست پر اثرات ڈالے اور پھر اِسی سال اشتراکی افواج کے افغانستان داخلے نے نہ صرف خطے کی بلکہ ہماری بھی صورتحال میں جوہری تبدیلیاں کر ڈالیں۔پاکستان نے فرنٹ لائن سٹیٹ کے طور پر سوویت یونین کی افغانستان پر ننگی جارحیت کے خلاف جنگ لڑی۔ افغان مجاہدین کو گوریلا جنگ لڑنے کے لئے تمام لاجسٹک سپورٹ، تربیت غرض روٹی اور گولی تک ہر شے مہیا کی۔ 40لاکھ سے زائد مہاجرین کو یہاں پاکستان میں مہمان بنا کر رکھا۔1989ء میں سوویت افواج واپس لوٹ گئیں، افغان مجاہدین کامیاب ہو گئے۔ ہم خوش ہوئے کہ چلو اب کابل پر پاکستان دوست حکومت آئے گی اور ہمارے ہاں داخلی امن و سکون ہو گا،لیکن ایسا نہ ہوا۔ فاتح مجاہدین کے ہاتھوں افغانستان خانہ جنگی کا شکار ہو گیا،  اُبھرے اور چھا گئے۔ طالبان حکومت قائم ہوئی، نائن الیون ہوا۔ امریکہ و ناٹو افواج 2000ء میں یہاں چڑھ دوڑیں،ہم ایک بار پھر فرنٹ لائن ریاست کے طور پر اس جنگ میں شریک ہو گئے،20سال تک ہماری زمین،فضاء اور شے امریکی و ناٹو افواج کے لئے استعمال ہوتی رہی،دوہا امن مذاکرات کے ذریعے امریکی اتحادی افغانستان سے ذلیل و رسوا ہو کر نکل گئے ہم نے جشن منایا کہ کابل کی حکومت ہماری حکومت ہو گی، ہمارے آئی ایس آئی چیف نے چائے کا کپ پیتے ہوئے اس فتح میں پاکستان کے کردار کو بیان کرنے کی کوشش کی جسے طالبان نے بُری طرح مسترد کر دیا، گزرے تین سالوں کے دوران پاکستان داخلی طور پر تباہی و بربادی کا شکار ہو چلا ہے، ہمارے مسائل اس قدر بڑھ چکے ہیں کہ اس بات کا تعین کرنا ہی مشکل ہے کہ ہمارا سب سے اہم مسئلہ کیا ہے؟ سب سے سنگین ایشو کیا ہے؟

ڈی جی آئی ایس پی آر نے اپنی پریس کانفرنس میں اس سوال کا جواب دینے کی سنجیدہ کاوش کی ہے کہ ہمارے داخلی معاملات کیوں دگر گوں ہیں، ہمارے معاشی معاملات کی ابتری کی وجوہات کیا ہیں، سرحد پار سے ہونے والی سمگلنگ، ڈیورنڈ لائن سے بغیر کسی چیک اپ یا روک ٹوک کے افغا نوں کا یہاں آنا اور ایسے ہی چلے جانا، نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کا لین دین اور دیگر ایسے غیر قانونی کام ہیں جو ہماری معیشت پر منفی اثرات مرتب کر رہے ہیں۔ یہی غیر قانونی کاروبار کرنے والے کسی قسم کے قانونی اقدام یا روک ٹوک کے خلاف گروپوں اور گروہوں کو حکومت پاکستان کے خلاف اکساتے ہیں ان میں این جی اوز بھی شامل ہیں اور اب تو پاکستان کی ایک بڑی بلکہ بہت بڑی سیاسی جماعت بھی شریک ہو چکی ہے اس جماعت کے پاس سوشل میڈیا کی ننگی اور دو دھاری تلوار بھی آ گئی ہے جسے وہ بڑی بے رحمی کے ساتھ پاکستان میں بغاوت ابھارنے اور پھیلانے میں استعمال کر رہی ہے ہمیں ففتھ جنریشن وار کے متعلق بھی پہلے پہل فوجی قیادت نے ہی بتایا تھا کہ پاکستان کے خلاف یہ جنگ لانچ کر دی گئی ہے اب ڈیجیٹل دہشت گردی کے بارے میں بھی فوجی قیادت ہی بتا رہی ہے کہ اس کے ذریعے پاکستان کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کیا جا رہا ہے۔ سانحہ مشرقی پاکستان کے حوالے سے پاک فوج کو خوار کرنے والی ویڈیو عمران خان کے ٹویٹر اکاؤنٹ سے اپ لوڈ کی گئی جب ان سے تحقیقات کی گئیں تو پتہ چلا کہ یہ اکاؤنٹ امریکہ سے چلایا جا رہا ہے۔ امریکی لابسٹ کمپنیاں عمران خان کو بڑھانے، چڑھانے اور ناقابل ِ تسخیر بنا کر پیش کرنے میں اپنا اپنا کردارادا کر رہی ہیں۔پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی افغانستان کی سرزمین سے لانچ ہوتی ہے۔تحریک طالبان پاکستان کے گروپ افغانستان میں ہی پناہ گزین ہیں۔دہشت گرد، خود کش بمبار افغانستان سے ہی خود کش جیکٹوں میں ملبوس ہو کر، حوروں سے ہم آغوش ہونے کے لئے یہاں پاکستان تشریف لاتے ہیں۔ کے پی حکومت ان کی مہمان دار ہوتی ہے، سہولت کاری کرتی ہے اس طرح پاکستان عدم استحکام کا شکار ہوتا ہے۔ پاکستانی معیشت کو سنبھالا دینے کے لئے ضروری ہے کہ یہاں سیاسی استحکام آئے، سٹیک ہولڈرز مل جل کر بیٹھیں اور بڑے سٹیک ہولڈرز سیاست دان ہیں۔عمران خان کسی قسم کی بات چیت کے لئے تیار نہیں ہیں وہ حکومت کو مانتے ہی نہیں ہیں۔وہ آرمی چیف کو بھی نہیں مانتے، الیکشن کمیشن اور چیف جسٹس کو بھی نہیں مانتے ہیں پھر معاملہ کیسے حل ہو گا؟

مزید :

رائے -کالم -