امر یکی سفیر کے سی آئی اے سے اختلافات

پاکستان کے ساتھ امریکہ کے تعلقات گزشتہ18 ماہ کے دوران تناو¿ کا شکار رہے ہیں۔ پاک امریکہ تعلقات کے بارے میں امریکہ کے اندر بھی بحث مباحثہ جاری ہے اور اسلام آباد کے امریکی سفارتخانے میں سی آئی اے کے اقدامات اور ان کی بدولت امریکی مفادات پر پڑنے والے اثر کے بارے میں تبادلہءخیال جاری ہے۔ پالیسی سے متعلق اس بحث کے مرکزی کردار اکتوبر2010ءسے پاکستان میں تعینات امریکی سفیر کیمرون منٹر ہیں اور اسی کے ساتھ ساتھ سی آئی اے کے کئی سٹیشن چیف جو ان کے ساتھ خدمات انجام دیتے رہے۔ تکنیکی سوال یہ تھا کہ سفیر کو بطور سربراہ مشن اس بات کا اختیار حاصل تھا کہ وہ سی آئی اے کے جاری آپریشنز کو کالعدم کر سکیں۔ ان کی سوچ کے مطابق یہ آپریشنز طویل تعلقات کی راہ میں رکاوٹ بنیں گے۔ بظاہر لگتا یہی ہے کہ کیمرون منٹر اپنی لڑائی ہار چکے ہیں۔ بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ڈرون حملوں کی زد میں آنے والے جنگی خطے کو سفارتکاری سے علیحدہ رکھا جائے، اوباما انتظامیہ کے لئے یہ سوال بنیادی اہمیت کا حامل ہے، جس نے ان بے نام جہازوں کے ذریعے پاکستان میں القاعدہ سے وابستہ اہداف کو نشانہ بنانے میں تیزی کا آغاز کر دیا ہے۔ پاکستان کے ساتھ ساتھ یمن اور صومالیہ میں بھی ڈرون حملے جاری ہیں، لیکن اس بات کا عوام نے تھوڑا سا احتساب کیا ہے کہ کس طرح یہ ہتھیار مملکت کے مقاصد کو پورا کرتے ہیں۔ آج کل کے موسم میں جب تفتیش منظر عام پر آجاتی ہیں۔ مَیں اس بات کی وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ مجھ تک یہ کہانی سی آئی اے یا کیمرون منٹر کے ذریعے نہیں پہنچی۔ کس نے اس بات کا اعلان کیا ہے کہ وہ اسلام آباد میں اپنے عہدے سے اس موسم گرما میں سبکدوش ہو کر (ذاتی وجوہات کی بناءپر) خارجہ امور کی ملازمت سے مستعفی ہو جائیں گے؟.... ذرائع اسلام آباد کے مباحثوں سے متعلق آگاہ کرتے رہتے ہیں، کیونکہ ان کا یہ کہنا ہے کہ اس موضوع پر عوام الناس کو بحث و تمحیص کا موقع ملنا چاہئے تاکہ وہ اس کو بہتر انداز میں سمجھ سکیں۔ کیمرون منٹر جب اسلام آباد آئے تو انہیں ایک مشکل چیلنج درپیش تھا، کیونکہ وہ این ڈبلیو پیٹرسن کے متبادل بن کر آئے تھے۔ این پیٹرسن ایک بہت مقبول عام سفارتکار تھیں۔ انہوں نے سی آئی اے کے سٹیشن چیف جان ڈی بینٹ کے ساتھ بہت اچھے تعلقات کار استوار کر لئے تھے۔ جان ڈی ہنٹ کو جولائی2010ءمیں فوجی کلینڈاس ٹائن سروس کا ڈائریکٹر بنا دیا گیا۔ ہنٹ کامتبادل اسلام آباد میں آنے والا ایک نوجوان متاثر کن شخصیت کا حامل تھا، لیکن نئے چیف کو دسمبر2010ءمیں دوبارہ واپس بلا لیا گیا۔ سٹیشن چیف کا بلاوا قانونی طریقے سے ہوا، جس کے ذمہ دار امریکی ڈرون حملوں سے متاثر ہونے والے لوگ ہیں، لیکن یہ کام یقینی طور پر پاکستان کے خفیہ ادا روں کا ہے۔ اسلام آباد میں اگلا سٹیشن چیف26 جنوری2011ءکو آیا اور یہ اس دن سے ایک دن پہلے کا واقعہ ہے، جب سی آئی اے کے لئے کام کرنے والے شخص ریمنڈ ڈیوس کو دو پاکستانیوں کے قتل کے الزام میں لاہور سے گرفتار کر لیا گیا۔ نئے سٹیشن چیف کو مشرقی یورپ میں ایسے آپریشنز کا تجربہ حاصل ہے اور اس بارے میں یہ تجزیہ کیا جا رہا ہے کہ اس معاملے کو ماسکو کے اصولوں کے مطابق حل کیا جائے، جس کا مطلب ہے کہ ایک انچ بھی اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹنا۔ منٹر نے ابتداءاسی اصول کی پیروی سے کی، لیکن بعد میں انہوں نے خود بھی پاکستانی حکام سے گفت و شنید شروع کر دی۔ کیمرون منٹر کی پاکستانی حکام سے گفت و شنید کا نتیجہ یہ نکلا کہ مارچ2011ءمیں ریمنڈ ڈیوس کی رہائی عمل میں آئی اور ان متاثرہ خاندانوں کو خون بہا کی رقم ادا کر دی گئی، اگرچہ ڈیوس تو رہا ہوگیا، لیکن اس بات نے پاکستانی عوام کو ناراض کردیا جبکہ خود سفارتخانے کے اندر تناو¿ بدستور جاری رہا۔ نئے چیف کو جولائی 2011ءمیں جانا پڑا، جس میں کچھ وجہ ان کی ناسازیءطبع بھی تھی اور دوسری وجہ کیمرون منٹر کے ساتھ پالیسی پر اختلافات تھے۔ بطور سفارتکار کیمرون منٹر نے یہ سمجھ لیا تھا کہ پاکستان میں ہونے والے سارے معاملات، جن کا تعلق سفارتخانے سے ہے، کے بارے میں ان کے اختیارات بلند ترین ہیں اور ا ن کا کہنا حرف آخر کا درجہ رکھتا ہے۔ این پیٹرسن کے پاس بھی ویٹو کا حق تھا، لیکن استعمال کا موقع شاید ہی کبھی آیا ہو، کیونکہ وہ ایجنسی (سی آئی اے) ایک دوسرے کی مرضی و منشاءکے مطابق کام کر رہے تھے، لیکن کیمرون منٹر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اباما انتظامیہ کے ڈرون حملوں سے متعلق توسیع پسندانہ فیصلے سے متفق نہیں تھے، کیونکہ وہ اس بات سے خوفزدہ تھے کہ ان حملوں سے نہ صرف امن کو نقصان پہنچ رہا ہے، بلکہ یہ طویل مدت کے لئے امریکہ کے پاکستان میں مفادات کو گزند پہچانے کا سبب بن رہے ہیں۔ کیمرون منٹرکا خیال تھا کہ کم مدتی انسداد دہشت گردی کی مہم بڑے نقصان کا سبب بن رہی ہے۔ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں تناو¿ مئی2011ءمیں ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد عروج پر پہنچ گیا۔ اسی طرح سفارتخانے کے اندر ڈرون حملوں سے متعلق تنازع بھی شدت اختیار کر گیا۔ کیمرون منٹر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے بڑے اہداف کے حصول کے لئے کئے جانے والے ڈرون حملوں کی حمایت کی تھی، لیکن انہوں نے ان ڈرون حملوں کے نفع و نقصان کے بارے میں ضرور سوال کیا، جس کے اہداف نامعلوم ہوں۔ اگرچہ ان ڈرون حملوں کے باعث بعض کو بڑی کامیابیاں بھی حاصل ہوئیں، مثلاً جون2011ءکو ایسے ہی ایک ڈرون حملے میں الیاس کشمیری مارا گیا، جسے القاعدہ کے خطرناک ترین کارکنوں میں شمار کیا جاتا تھا۔ سفارتکار کے ویٹو کا حق اب سیڑھیوں سے نیچے دھکیلا جا چکا ہے۔ وزارت خارجہ سے مشاورت اب لازماً کرنا ہوگی، کیونکہ اس کا اب اہم کردار متعین ہو چکا، لیکن کسی تنازع کی صورت میں آخری فیصلے کا اختیار صدر اور سی آئی اے کے ڈائریکٹر کو ہی ہوگا، لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈائریکٹر ڈیوڈ پیٹریاس کو اکثر کیمرون منٹر کا حمایت یافتہ ہی پایا گیا۔ ان کے خیال کے مطابق ڈرون حملوں پر کیا جانے والا خرچہ صرف کم مدتی مقاصد کے حصول کے لئے ہی استعمال ہو رہا ہے۔ پیٹریاس کے اسی تنقیدی روپے کی وجہ سے ان کے تعلقات سی آئی اے کے انسداد دہشت گردی کے سنٹر سے کشیدہ ہوگئے۔ مَیں نے پچھلے سال کہا تھا کہ اوباما خفیہ کمانڈر ان چیف ہیں اور یقینی طور پر اوباما اس کردار کو پسند کرتے ہیں، لیکن اوباما کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ وہ سیاست کے بھی چیف ہیں....(بشکریہ:”واشنگٹن پوسٹ“.... ترجمہ: وقاص سعد) ٭