سرمایہ درویش
ابراہیم بن ادھمؒ ایک بزرگ گزرے ہیں۔ آپؒ ایک سلطنت کے والی تھے، لیکن پھر سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر فقر و درویشی کی راہ اختیار کر لی۔ کسی نے آپ سے سوال کیا کہ آپ پُرتعیش زندگی سے راہ فرار اختیار کر کے اس راہ کے مسافر کیونکر بنے؟ فرمایا میری زندگی میں کچھ ایسے واقعات بپا ہوئے، جن کے تسلسل پر مَیں نے غور و فکر کیا تو محسوس ہوا کہ اللہ رب العزت نے مجھے محض ایک سلطنت کے امور سنبھالنے کے لئے پیدا نہیں کیا، بلکہ تمام عالم کی تمام مخلوقات کی توجہ اپنے پالنے والے کی جانب مبذول کروانے کے لئے خلق کیا ہے۔ ابراہیم بن ادھمؒ کی زندگی میں ارتعاش اس وقت پیدا ہوا، جب ایک رات انہوں نے اپنے محل کی چھت پر کسی کے دوڑنے کی آواز کو محسوس کیا۔ خادم سے کہا، رات کے اس پہر کون ہمارے آرام میں خلل ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس نے چھت پر جا کر دیکھا تو کسی کو نہ پایا، واپس آکر عرض کیا کہ چھت پر کوئی نہیں۔ جناب ادھمؒ نے اسے اپنا وہم گردانا، تھوڑی دیر گزری تو وہی آواز پھر سنائی دی۔ پھر خادم کو بھیجا، لیکن اس بار بھی وہاں کوئی نہ تھا۔ تیسری مرتبہ جب پھر آواز سنائی دی تو خود چھت پر تشریف لے گئے، دیکھا ایک شخص اِدھر اُدھر کچھ تلاش کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ درشت لہجے میں اس سے باز پُرس کی تو کہنے لگا۔ میرا اونٹ گُم ہوگیا ہے۔ سوچا کہیں آپ کے محل کی چھت پر نہ چڑھ گیا ہو۔ ابراہیم بن ادھمؒ نے کہا تیرا ستیاناس ہو، کیا کبھی اونٹ بھی چھت پر چڑھا دیکھا ہے؟ پُراسرار شخص نے جواب دیا، جس طرح اونٹ چھت پر نہیں چڑھ سکتا، اس طرح خدا بھی محلات میں نہیں ملا کرتا۔ یہ بات ابراہیم بن ادھم ؒ کے دل میں تیر کی مانند لگی، اپنی زندگی کے حالات و واقعات پر غور و فکر کرنے لگے اور پہلے سے زیادہ اللہ کی جانب متوجہ ہوگئے۔ کچھ دن گزرے، محل میں تشریف فرما تھے کہ اسی قبیل کے ایک شخص کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک بے آسرا شخص نے آکر فریاد کی کہ مَیں آپ کی سرائے میں کچھ دن گزارنے کا خواہش مند ہوں۔ خدام سے کہا کہ اسے سرائے تک چھوڑ آئیں، لیکن اس شخص کا کہنا تھا کہ میں آپ کے محل میں رہنے کا خواہش مند ہوں، کیونکہ یہ بھی اک سرائے ہے، فرمایا: تجھے میرا محل سرائے دکھائی دیتا ہے؟ اس شخص نے جواب دیا تعجب ہے اس کی عقل پر جو چند دن کے ٹھکانے کو مستقل رہنے کی جگہ سمجھ بیٹھے۔ جناب عالیٰ! آپ سے قبل آپ کے والد گرامی یہاں جلوہ افروز تھے اورآپ کے بعد آپ کی اولاد اس محل کی مکین ہوگی تو یہ سرائے نہیں تو اور کیا ہے؟.... بس یہ سننا تھا کہ سب کچھ چھوڑ کر جنگلوں کا رُخ کیا اور اللہ اللہ کر نے لگے۔ آپ کا ایک وفادار خادم اس حال میں بھی آپ کے ساتھ رہا۔ ایک دن پوچھنے لگا۔ حضرت پہلی والی زندگی میں اور اب میں کیا فرق ہے؟ فرمایا: پہلے ایک سلطنت تک محدود تھا اب اللہ نے تمام مخلوقات کو تابع کر دیا ہے۔ خادم نے کہا ذرا سمجھا دیجئے، ہاتھ میں ایک سوئی تھی، جس سے اپنا پرانا لباس سی رہے تھے۔ وہ سوئی سمندر میں ڈالی اور مچھلیوں سے مخاطب ہو کر بولے، ابراہیم بن ادھمؒ کی سوئی سمندر میں گر گئی ہے، وہ واپس چاہیے تو جو منظر خادم نے دیکھا اسے دیکھ کر وہ مبہوت رہ گیا۔ اَن گنت مچھلیاں سمندر سے باہر نکلیں اور بے شمار سوئیاں اُگل دیں۔
حاصل کلام یہ کہ اللہ کے ساتھ محبت کا تعلق جس کا استوار ہو جائے، وہ انسان تو کیا اللہ کی تمام مخلوقات بشمول چرند، پرند اور جنات تک پر اپنی دھاک بٹھا دیتا ہے۔ پروفیسر عبداللہ بھٹی کی تیسری کتاب سرمایہ درویش بھی انہی مشاہدات اور تجربات کا مرقع ہے، جو ان کی تمام عمر کی محنت و ریاضت کی بدولت انہیں حاصل ہوئے۔ ”اسرار روحانیت“ اور”فکر درویش“ پروفیسر صاحب کی وہ تصانیف ہیں جو روحانیت جیسے دقیق موضوع پر ان کے غور و فکر و تحقیق کا حاصل ہیں، لیکن سرمایہ درویش میں وہ تمام وظائف درج ہیں، جو ان کی عمر بھر کی محنت شاقہ کا نچوڑ ہیں۔
اللہ کی محبت میں مستغرق ہو کر اللہ کی مخلوق کی خدمت محض اللہ کے نہایت مقرب بندوں کا ہی خاصہ ہے اور پروفیسر عبداللہ بھٹی بھی اسی روایت پر عمل پیرا ہو کر مخلوق خدا کی خدمت کو اپنا اولین نصب العین بنائے ہوئے ہیں۔ سرمایہ درویش ایک ایسا طلسم کدہ ہے، جس کے خزینوں کو اگر بروئے کار لایا جائے تو دارین کی کامرانیاں نصیب ہو سکتی ہیں۔ پروفیسر صاحب کی مصروفیت بے پناہ بڑھ چکی ہے اور مَیں نے بھی اس بات کا مشاہدہ کیا ہے کہ ان کا گھر اور دفتر ہمہ وقت لوگوں سے بھرا رہتا ہے۔ ایسے میں تمام لوگوں سے ملنا ان کے لئے آسان نہیں ہوتا خصوصاً دور دراز سے آنے والوں کو ان سے شکایت ہوتی ہے کہ وہ انہیں وقت نہیں دے پاتے۔ اسی لئے انہیں سرمایہ درویش کی تخلیق کا خیال آیا۔اس کتاب میں وہ تمام اعمال اور وظائف یکجا کر دئیے گئے ہیں، جن کے حصول کی خاطر گزرے وقتوں میں بزرگوں کو بڑی خاک چھاننا پڑتی تھی۔ خود پروفیسر صاحب کے لئے بھی انکا حصول آسان نہ تھا کہ اپنے اجداد کے روایتی اور مجرب و ظائف کے علاوہ بے شمار دیگر بزرگوں کی صحبت کی بدولت ان کا حصول ممکن ہو پایا۔ سرمایہ درویش میں پروفیسر عبداللہ بھٹی نے اسمائے الحسنیٰ، اسمائے محمد ، مختلف قرآنی آیات کی افادیت اور ان کے ذریعے علاج، بزرگان دین اور اولیاءاللہ کے مجرب وظائف اور سائنٹفک انداز میں سماجی، معاشی اور روحانی مسائل کے حل کے لئے جو کارگر نسخے تجویز کئے ہیں، ان کا استعمال دنیا و آخرت کی بھلائیوں کے حصول کا موجب بن سکتا ہے۔ روز مرہ کے معاملات کو بہتر انداز سے چلانے، شیاطین اور جنات کے شرور سے محفوظ رہنے اور روحانی بیماریوں کا قرآنی آیات سے علاج کرنے تک بے شمار موضوعات پر دلنشین انداز میں اظہار خیال کیا گیا ہے۔ بالفاظ دیگر سرمایہ درویش حقیقتاً پروفیسر عبداللہ بھٹی کی تمام عمر کا سرمایہ ہے، جس سے ہرخاص و عام مستفیض ہو سکتا ہے۔ ٭